
پاکستان میں سیاسی جماعتوں پر پابندی کا آغاز 1954 میں ہوا۔ مذید جانیے اسلام آباد سے عابدعلی آرائیں کی اس رپورٹ میں۔
کمیونسٹ پارٹی پرپابندی
سب سے پہلے حکومت کی طرف سے کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان پر پابندی لگائی گئی اور اس کے رہنماؤں کو پنڈی سازش کیس میں گرفتار کیا گیا۔
کمیونسٹ پارٹی بعد میں مختلف ناموں سے وجود میں آتی رہی لیکن 2013 میں ایک بار پھر الیکشن کمیشن میں اس نام سے پارٹی دوبارہ رجسٹر ہوئی۔
کمیونسٹ پارٹی کے علاوہ چار دیگرجماعتیں جگتو فرنٹ، عوامی لیگ، نیشنل عوامی پارٹی اور جماعت اسلامی پر بھی پابندی لگی۔
نیشنل عوامی پارٹی پر دو دفعہ پابندی لگائی گئی، پہلی مرتبہ جنرل یحیی خان نے 1971 میں اور دوسری مرتبہ ذوالفقارعلی بھٹو نے 1975میں پابندی لگائی اوریہ پابندی سپریم کورٹ کے ذریعے لگوائی گئی۔
پیپلزپارٹی کی طرف سے 10 فروری 1975 کو نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی لگائی گئی تھی۔
اس وقت کی وفاقی حکومت کے نوٹیفکیشن کے مطابق پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ 1962 کی دفعہ 4 کے مطابق نیپ کی سرگرمیوں کو پاکستان کی سالمیت کے لیے نقصان دہ قرار دیتے ہوئے اسے تحلیل کرنے کا حکم جاری کیا گیا۔ اس جماعت کی لیڈرشپ کو گرفتار، اثا ثے ضبط اور ریکارڈ قبضے میں لینے کا حکم بھی دیا گیا۔
26 فروری 1975 کووفاقی حکومت نے نیپ کو غیر آئینی قرار دینے کے لیے سپریم کورٹ میں ایک ریفرنس دائر کیا۔
نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) پر پابندی
30 اکتوبر 1975 کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے خان عبدالولی خان کی نیشنل عوامی پارٹی یا نیپ کو خلاف قانون جماعت قرار دیتے ہوئے بھٹو حکومت کے فیصلے اور تیسری آئینی ترمیم کی توثیق کردی تھی۔
نیشنل عوامی پارٹی پر پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کی پابندی کی وجہ مبینہ طور پر پاکستان کی سلامتی اور خودمختاری کے خلاف سرگرمیوں میں ملوث ہونا تھا۔ اس پابندی کے نتیجے میں نیپ کے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے تمام ارکان کی رکنیت ختم کر دی گئی تھی۔
سپریم کورٹ کی یہ کاروائی 16 جون سے 17 ستمبر 1975 تک جاری رہی تھی اور اس بنچ کے ارکان میں چیف جسٹس حمودالرحمان، جسٹس محمد یعقوب علی، جسٹس انوارالحق، جسٹس صلاح الدین، جسٹس محمدگل اور جسٹس محمدافضل چیمہ شامل تھے۔
وکیل استغاثہ اٹارنی جنرل یحیی بختیار تھے جبکہ وکیل صفائی محمودعلی قصوری تھے۔
نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) پر پابندی کی کارروائی صوبہ سرحد(موجودہ کے پی کے) کے سینئروزیرحیات محمدخان شیرپاؤ کے 8 فروری 1975 کو پشاور یونیورسٹی میں ایک بم دھماکے میں ہلاکت کے نتیجے میں ہوئی تھی۔ حکومت نے نیپ کو مورد الزام ٹھہرایا تھا جو مبینہ طور پر اس تخریبی کارروائی میں ملوث تھی۔
10 فروری 1975 کو آئین پاکستان میں تیسری ترمیم کی گئی تھی جس میں حکومت وقت کو یہ حق مل گیا تھا کہ اپنی صوابدید پر ملکی سلامتی کے خلاف کسی بھی سیاسی پارٹی پر پابندی لگا سکتی ہے۔ اس سلسلے میں نیپ کے سرکردہ رہنماؤں کو گرفتار کیا گیا تھا جن میں سربراہ خان عبدالولی خان، ارباب سکندرخان خلیل، غوث بخش بزنجو، عطا اللہ مینگل اور نواب خیر بخش مری وغیرہ شامل تھے۔
5 جولائی 1977 کو جنرل ضیاالحق نے بھٹو کا تختہ الٹنے کے بعد عدالت عظمی کے فیصلے کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنے مارشل لا اختیارات استعمال کیے اور ان تمام سزایا فتہ لیڈروں کو رہا کر دیا تھا۔
نیشنل عوامی پارٹی، پابندی کے بعد پہلے پاکستان ڈیموکریٹک پارٹی اور پھر عوامی نیشنل پارٹی کے طور پر سامنے آئی تھی جس کی قیادت شیربازخان مزاری اور بیگم نسیم ولی خان کر رہے تھے۔ آج کل قیادت ان کے بیٹے اسفند ولی یار خان کے پاس ہے۔
جماعت اسلامی پاکستان پر پابندی
6 جنوری 1964 کو ایوب خان نے جماعت اسلامی کو خلاف قانون قراردیا۔ پابندی لگا کر نمایاں کارکنان جماعت اسلامی کو سید ابوالاعلی مودودی سمیت پابند سلاسل کردیا گیا۔ سید ابوالاعلی مودودی اور 65 رہنماؤں نے 9 ماہ تک ثابت قدمی سے قید کی صعوبتیں برداشت کیں۔
جماعت اسلامی نے مشرقی اور مغربی پاکستان کے ہائی کورٹس سے رجوع کیا۔ مشرقی پاکستان کی ہائی کورٹ نے اس پابندی کو ختم کردیا جبکہ مغربی پاکستان کے ہائی کورٹ نے پابندی کو برقرار رکھا تو مشرقی پاکستان میں اس وقت کی حکومت کی طرف سے سپریم کورٹ سے رجوع کیا گیا جبکہ مغربی پاکستان میں جماعت اسلامی نے خود سپریم کورٹ سے رجوع کیا تو سپریم کورٹ نے پابندی ختم کردی۔
سال 2001 سے 2015 کے درمیان پاکستان نے 60 سے زائد مذہبی سیاسی جماعتوں، تنظیموں اور ان جماعتوں کے تحت کام کرنے والی فلاحی تنظیموں اور اداروں پر پابندی عائد کی۔
ان جماعتوں میں سپاہ صحابہ پاکستان، لشکرِ جھنگوی، تحریک نفاذ فقہ جعفریہ، سپاہ محمد، تحریک اسلامی، لشکر طیبہ، جیش محمد اور دیگر شامل ہیں۔
2015 میں ملک میں نیشنل ایکشن پلان کے تحت کارروائیوں کا آغاز ہوا تو ایسی کئی جماعتوں اور تنظیموں کے اثاثہ جات کو قبضے میں لے کر ان کے بنک اکاؤنٹس بھی منجمد کردیے گئے تھے۔
سال2018 کے انتخابات سے پہلے الدعو والارشاد سے منسلک ملی مسلم لیگ نامی سیاسی جماعت تشکیل دی گئی تاہم امریکا کی جانب سے اس تنظیم پر پابندی کے باعث اس کو رجسٹریشن ہی نہیں دی گئی۔
بعد ازاں اس جماعت کے امیدواروں نے ‘اللہ اکبر تحریک’ کے پلیٹ فارم سے انتخابات میں حصہ لیا تھا۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News