Advertisement
Advertisement
Advertisement

ممنوعہ فنڈنگ کیس; تحریک انصاف کی اپیل قابل سماعت ہونے پر فیصلہ محفوظ

Now Reading:

ممنوعہ فنڈنگ کیس; تحریک انصاف کی اپیل قابل سماعت ہونے پر فیصلہ محفوظ
IHC

توشہ خانہ ٹو کیس میں بانی پی ٹی آئی کی ضمانت منظور، رہائی کا حکم

عدالت نے ممنوعہ فنڈنگ کیس میں تحریک انصاف کی اپیل قابل سماعت ہونے پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔

الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف پی ٹی آئی ممنوعہ فنڈنگ کیس سے متعلق اسلام آباد ہائی کورٹ میں سماعت ہوئی۔

قائم مقام چیف جسٹس عامر فاروق کی سربراہی میں تین رکنی لارجر بینچ  نے کیس کی سماعت کی۔

تحریک انصاف کے وکیل انورمنصورنے عدالت میں دلائل دیے جبکہ اکبر ایس بابر بھی عدالت میں موجود تھے۔

سماعت کے آغاز میں عدالت نے سوال کیا کہ کیا الیکشن کمیشن نے کسی شکایت پر کارروائی شروع کی؟

Advertisement

وکیل پی ٹی آئی نے جواب دیا کہ پارٹی کا عہدیدار ہونے کا دعویٰ کرنے والے نے ممنوعہ فنڈنگ کی شکایت کی۔ 2018 میں سب جماعتوں کے اکاؤنٹس کی اسکروٹنی شروع ہوئی۔  الیکشن کمیشن نے صرف پی ٹی آئی کے خلاف کارروائی کی۔

انور منصورنے دلائل میں کہا کہ سپریم کورٹ فیصلے میں تمام جماعتوں کے فنڈزکی اسکروٹنی کا کہا گیا تھا۔ الیکشن کمیشن میں مگر صرف پی ٹی آئی کو ٹارگٹ کیا گیا۔

وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ الیکشن کمیشن اس نتیجے پرپہنچے کہ کچھ معلومات غلط ہیں تو پارٹی کو موقع دیا جانا ضروری ہے۔ قانون میں سیاسی جماعت کی جانب سے وصول کیے گئے ممنوعہ فنڈز ضبط کرنے کا ذکر ہے۔

انور منصور نے دلائل دیے کہ رُولز میں غیر قانونی فنڈنگ کا صرف ایک ہی نتیجہ بتایا گیا ہے۔ رُولز کیمطابق صرف اور صرف فنڈز ضبط ہو سکتے ہیں۔ کسی جماعت کی معلومات پی پی او کیمطابق نہ ہو تو درستی کا موقع بھی دیا جاتا ہے۔

وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ رُول 10کیمطابق سیاسی جماعت کو درستگی کا موقع دیا جاسکتا ہے۔ رُول کیمطابق الیکشن کمیشن دوبارہ معلومات درست کر کے جمع کرانے کا کہے گا۔

قائم مقام چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے کون سا قانون اپلائی کیا ؟ جس پرانور منصور ایڈووکیٹ نے جواب دیا کہ الیکشن کمیشن نے پی پی او 2002 اپلائی کیا۔ اسکروٹنی کمیٹی نے مگرالگ قانون پرانحصار کرکے رپورٹ دی۔

Advertisement

قائم مقام چیف جسٹس عامرفاروق نے پوچھا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے؟

وکیل تحریک انصاف نے جواب دیا کہ میں آپ کو ریکارڈ میں سے دکھا سکتا ہوں۔ رمیتا شیٹی کے اپنے شوہر کے ساتھ جوائنٹ اکاؤنٹ سے فنڈزآئے۔ الیکشن کمیشن نے خود تصورکر لیا کہ آدھی رقم رمیتا شیٹی اورآدھی ان کے شوہرکی طرف سے تھی۔ اسی طرح پی ٹی آئی کے اپنے ایجنٹس کو فارن کمپنیاں دکھا دیا گیا۔

وکیل انور منصور نے دلائل دیے کہ یہ حقیقت تو ہم نے چھپائی ہی نہیں تھی کبھی۔ پی ٹی آئی کو وویمن کرکٹ سے رقم 2013 میں آئی۔ عارف نقوی پربرطانیہ میں چارج 2018 میں لگتا ہے۔ الیکشن کمیشن کہتا ہے پی ٹی آئی کو 2013 میں پتہ ہونا چائیے تھا اس بندے پر کل چارج لگے گا۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ انور منصور صاحب آپ کیس کو ایک نکتے پر کیوں نہیں رکھتے۔ کیا یہ فنڈزایک ملٹی نیشنل کمپنی سے نہیں آئے ؟

وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ یہ ملٹی نیشنل کمپنی سے نہیں ہے، ملٹی نیشنل کمپنی کی تعریف موجود ہے۔

جسٹس میاں گل حسن نے پوچھا کہ کہاں ہے ملٹی نیشنل کمپنی کی تعریف وہ ہمیں دکھائیں۔

Advertisement

انورمنصورنے ملٹی نیشنل کمپنی کی مختلف تعریف پڑھ دیں

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے پوچھا کہ کیا آپ نے یہ سب الیکشن کمیشن کو بتایا تھا؟

وکیل انور منصور نے جواب دیا کی جی ہم نے سب کچھ دیا تھا انہوں نے اس پر ایک لفظ نہیں کہا۔ قانون میں یہ نہیں لکھا انفرادی شخص کے علاوہ کسی سے فنڈ نہیں لینا۔

قائم مقام چیف جسٹس نے کہا کہ قانون میں لیکن یہ ضرور لکھا ہے کہ صرف انفرادی فنڈز لینے ہیں۔ صرف کے لفظ کو کیسے نظر انداز کریں گے؟

وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ سنگل اونرکمپنی کو ایک انفرادی شخص کا فنڈ ہی کہا جائے گا۔  ڈومیسٹک طورپربنائی گئی کمپنی کا ذکر الگ رکھا گیا ہے۔

جسٹس بابر ستار نے کہا کہ کیا آپ الیکشن کمیشن کی آبزرویشن حذف کرانا چاہتے ہیں؟

Advertisement

وکیل نے جواب دیا کہ عدالت کمیشن رپورٹ سے کئی آبزرویشنز حذف کرسکتی ہے۔

جسٹس بابر ستار نے کہا کہ ہم کس دائرہ اختیار کے تحت یہ آبزرویشنزحذف کریں؟

جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ یہ تو صرف ایک رپورٹ ہے یہ کوئی الیکشن کمیشن کا ایکشن تو نہیں۔

وکیل نے جواب دیا کہ یہ ایکشن ہی ہے میں آپ کے سامنے پڑھ دیتا ہوں۔ الیکشن کمیشن نے اسے آرٹیکل 17 کا معاملہ ڈیکلئیر کیا ہے۔ غیرملکی فنڈنگ والی پارٹی کون سی ہوگی قانون میں واضح ہے۔ بہت مہارت سے معاملے کو آرٹیکل 17 دو کا کیس بنایا گیا۔

جسٹس بابر ستار نے کہا کہ یہ 70کی دہائی نہیں کہ پاگل پن میں کوئی کسی جماعت کو تحلیل کرے گا۔ آپ ہمیں صرف اپنے تحفظات بتائیں کیا ہیں۔

قائم مقام چیف جسٹس نے کہا کہ فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ پر کوئی ایکشن ہو رہا ہے تو ایف آئی اے اس کو دیکھے گی۔ یہ بتائیں کہ آپ چاہتے کیا ہیں؟ فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ کے حقائق تو ہم جا کر ٹھیک نہیں کرسکتے۔

Advertisement

عدالت نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن نے کہا ہے کہ اپنے اکاؤنٹس کلیئرنہیں کرسکے۔  ایف آئی اے اس معاملے کو الگ سے دیکھ رہی ہوگی۔ ایف آئی اے نے بھی اسی صورت کارروائی کرنی ہے جب ان کا دائرہ اختیار بنے گا۔ ایف آئی اے تفتیش میں دیکھے گی کہ ان کا دائرہ اختیار بنتا ہے یا نہیں۔

وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ ایف آئی اے کی جانب سے ہراساں کیا جا رہا ہے۔ قانون کہتا ہے کہ ممنوعہ فنڈنگ ثابت ہونے پرشوکاز نوٹس دیا جائے گا۔ شوکاز نوٹس دیا جا چکا ہے، اس کے بعد معاملہ فنڈز ضبطگی کا ہے۔ ہمارا مؤقف یہ ہے کہ فنڈز کے ذرائع ممنوعہ نہیں تھے۔

عدالت نے کہا کہ الیکشن کمیشن رپورٹ کو کالعدم قراردے دیں ایف آئی اے تو پھر بھی انکوائری کرسکتی ہے۔ دیکھنا ہو گا ایف آئی اے کن الزامات کے تحت انکوائری کررہی ہے۔  انکوائری کا یہ مطلب نہیں کہ سزا دی جارہی ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے لارجر بنچ نے ممنوعہ فنڈنگ کیس میں الیکشن کمیشن کے فیصلے کیخلاف پی ٹی آئی کی اپیل قابل سماعت ہونے پرفیصلہ محفوظ کرلیا۔

عدالت نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ فوری معطل کرنے اور شوکاز نوٹس فوری معطل کرنے کی استدعا پر بھی فیصلہ محفوظ کیا۔

Advertisement
Advertisement
مزید پڑھیں

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
سندھ پولیس کی گھوٹکی میں بڑی کارروائی ، 12 بدنام زمانہ ڈاکو مارے گئے
سیکیورٹی فورسز سے متعلق بیان ، محسن نقوی کا سہیل آفریدی سے معافی کا مطالبہ
صحت کی دیکھ بھال انسان کی پیدائش سے شروع ہوتی ہے، مصطفیٰ کمال
ٹرمپ کی شٹ ڈاؤن پالیسی، سیکڑوں پروازیں معطل، ایئرلائنز مشکلات کا شکار
27 آئینی ترمیم پر مشاورت کیلیے پیپلز پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا اہم اجلاس دوبارہ شروع
پاک افغان مذاکرات میں پش رفت ، دفتر خارجہ نے ڈیڈ لاک کی تردید کر دی
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر