
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کیس میں ریمارکس دیے کہ اگرچیف ایگزیکٹو آئینی کردارادا نہیں کرتا تو وہ ذمہ دار ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں لاپتہ افراد کی بازیابی سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران وزیراعظم شہبازشریف کو جانے کی اجازت ملنے کے بعد عدالت نے کہا کہ بھارت سمیت کئی ممالک اس مسئلے کو حل کرچکے ہیں۔ مسئلہ حل نہ ہوا تو چیف ایگزیکٹیو کو ذمہ دار ٹھہرائیں گے۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ وزیرقانون نے کہا کہ یہ مسئلہ بیس اکیس سال پرانا ہے۔ اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ابھی بھی بلوچ طلبا کی شکایات آرہی ہیں۔
وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ روسڑم پرآئے اورعدالت کو جواب دیا کہ مستقل حل سیاسی طور مذاکرات سے نکلے گا۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ سول سپرمیسی سے بھی مسئلہ حل ہوگا۔ وزیراعظم کا شکریہ عدالت میں پیش ہوئے۔
والدہ لاپتہ صحافی مدثر نارو نے کہا کہ دوہزار اکیس میں دھرنے میں بیٹھے تھے۔ ہمارے ساتھ وعدہ کیا گیا تھا کہ ہم مسئلہ حل کریں گے۔ میں آرمی کی عزت کرتی ہوں۔
صحافی مدثرنارو کی والدہ نے کہا کہ بچپن میں ہم فوجی گاڑی کو سیلوٹ کرتے تھے۔ میں چاہتی ہوں میری نسلیں اسی طرح فوج کی عزت کریں۔
وزیراعظم کی روانگی کے بعد عدالت نے اٹارنی جنرل کو روسٹرم پر بلایا اورچیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ان سے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب یہ عدالت فیصلہ ہی دے سکتی ہے۔ آپ اپنے حتمی دلائل دیں پھر ہم فیصلہ دے دیتے ہیں۔
عدالت نے کہا کہ پبلک آفس ہولڈر اپنی ذمہ داری نبھائے یا وہ آفس چھوڑ دے۔
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ میں اس پر کيا دلائل دوں، دلائل تو کسی چیز کی مخالفت میں ہوتے ہیں۔ یہاں اس معاملے پر تو ہم سب کے دل ساتھ دھڑکتے ہیں۔ ہم نے، وزیر قانون نے درد دل سے کام کیا۔ خدا کی قسم اگر پاکستان نہ ہو تو میں یہاں کھڑا نہ ہوں۔
چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ چیف ایگزیکٹو منتخب ہوکرحلف لیتا ہے۔ چیف ایگزیکٹو اگر جنرل مشرف کی پالیسی کو آگے بڑھائے تو وہ یہ نہیں کہہ سکتا میں ذمہ دار نہیں۔ ہم کیسے نشاندہی کریں کہ کس نے اٹھایا ہے؟
وزیر قانون نے لاپتہ افراد کیسز میں دو ماہ کا وقت دینے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ یہ بہت بڑا مسئلہ ہے حل کرنے میں تھوڑا وقت لگے گا۔ مجھے پتہ ہے اس مسئلے کو حل کرنے میں جگہ جگہ بارودی سرنگیں بھی بچھی ہیں۔
فرحت اللہ بابر روسٹرم پرآئے اورعدالت سے کہا کہ آپ نے پارلیمان کی بات کی آپ پارلیمان کو عزت بھی دیتے ہیں۔ پارلیمان نے 2015 میں اپنا کام مکمل کر لیا تھا۔ پارلیمان نے سمجھا تھا یہ انٹیلجنس ایجنسیاں کررہی ہیں۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ کیا میں کہہ سکتا ہوں ہائیکورٹ میں غلط ہو رہا ہے مگر ذمہ دار رجسٹرار ہے؟ فرحت اللہ بابر صاحب آپ بھی ایسی بات مت کریں۔ آپ کی پارٹی کی بھی حکومت رہی ہے۔
سماعت کے دوران وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ بھی روسڑم پرآئے۔
وزیرقانون نے کہا کہ وزارت داخلہ میں ایک سیل بنا رہے ہیں۔ چاہتے ہیں کوئی فورم ہو تاکہ نئے کیس عدالت میں آنے کی بجائے وہاں ہوں۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ ہرچیف ایگزیکٹو مشرف والی پالیسي جاری رکھے اور کہے مجبورہوں کیا یہ ٹھیک ہے؟ اگر چیف ایگزیکٹو آئینی کردار ادا نہیں کرتا تو وہ ذمہ دار ہے۔
چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ جو چیف ایگزیکٹو کہے ایجنسیاں میرے کنٹرول میں نہیں وہ آئین سے انحراف تسلیم کرتا ہے۔ جو چیف ایگزیکٹو ایسا ہو وہ پھرعہدہ چھوڑ دے وہ حلف کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ عہدہ چھوڑ کرعوام کو بتا دینا چاہيئے میں بے یار و مددگارہوں۔
فرحت اللہ بابر نے کہا کہ پارلیمان نے 2015 میں قانون بنا کر ایگزیکٹو کو بھیج دیا تھا۔ ایگزیکٹو کا کام تھا اسے نافذ کرنا۔
چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ چیف ایگزیکٹو پارلیمان کو ہی جوابدہ ہے، پارلیمان تو چیف ایگزیکٹو کو ہٹا بھی سکتی ہے۔
وزیر قانون اعظم نذیرتارڑ نے عدالت سے استدعا کی کہ عدالت ابھی لاپتہ افراد پر فیصلہ نہ دیے، ہم آٹھ سے دس ہفتے میں قانون سازی یا کسی نتیجے پر پہنچ جائیں گے۔ اس عدالت نے ہمیشہ پارلیمنٹ کو راستہ دیا ہے اب بھی دیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے وزیر قانون کی جانب سے اقدامات کے لیے دو ماہ کی مہلت دینے کی استدعا منظورکرتے ہوئے مدثرنارو سمیت دیگرلاپتہ افراد کیسز کی سماعت 14 نومبر تک ملتوی کردی۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News