Advertisement
Advertisement
Advertisement

منی لانڈرنگ کا مقدمہ، وزیراعظم شہبازشریف عدالت میں پیش

Now Reading:

منی لانڈرنگ کا مقدمہ، وزیراعظم شہبازشریف عدالت میں پیش

وزیراعظم شہباز شریف اسپیشل سنٹرل عدالت لاہورمیں ایف آئی اے کی جانب سے 16 ارب کی منی لانڈرنگ کے مقدمے میں پیش ہوئے۔

تفصیلات کے مطابق اسپیشل سنٹرل عدالت لاہور، ایف آئی اے کی جانب سے 16 ارب کی منی لانڈرنگ کے مقدمے میں شہباز شریف، حمزہ شہباز سمیت دیگر کے خلاف کیس کی سماعت ہوئی۔

وزیراعظم کی شہبازشریف کی جانب سے امجد پرویز ایڈووکیٹ عدالت میں پیش ہوئے۔

سماعت کے آغازمیں جج اسپیشل کورٹ سنٹرل اعجاز حسن اعوان نے وکیل سے استفسارکیا کہ شہباز شریف اور حمزہ شہباز کہاں ہیں؟ جس پرامجد پرویز ایڈووکیٹ نے جواب دیا کہ وزیراعظم شہباز شریف راستے میں ہیں کچھ دیر میں پہنچ رہے ہیں۔ کابینہ کی میٹنگ ہے مگر وزیراعظم شہباز شریف عدالت میں پیش ہوں گے۔

وکیل نے عدالت کو بتایا کہ حمزہ شہباز کی طبی بنیادوں پر حاضری معافی کی درخواست دائر کی ہے، حمزہ شہباز بیماری کے باعث پیش نہیں ہوسکتے۔

Advertisement

جج اعجاز حسن اعوان نے کہا کہ گاڑی میں بیٹھ کرآنا تھا، آجاتے۔

وکیل امجد پرویز ایڈووکیٹ نے جواب دیا کہ میڈیکل سرٹیفکیٹ پڑھ لیں، میں بتانا نہیں چاہتا، سب کچھ میڈیا پر چل جائے گا۔ حمزہ شہباز کی طبیعت خراب ہے وہ کسی بھی سیاسی سرگرمی میں نظر نہیں آرہے۔ اگر وہ ٹھیک ہوتے تو میں انہیں ضرور پیش کرواتا۔ استدعا ہے کہ عدالت حمزہ شہباز کی حاضری معافی کی درخواست منظورکرے۔

شہبازشریف کی بریت کی درخواست پران کے وکیل امجد پرویز نے دلائل میں کہا کہ ایف آئی آر میں 2008 سے 2018 میں 25 بلین کی منی لانڈرنگ کا الزام تھا۔ جعلی کمپنیز کے ذریعے منی لانڈرنگ کا الزام لگایا گیا۔ ایف آئی آر میں لگایا گیا الزام عمومی نوعیت کا ہے۔

ایڈووکیٹ امجد پرویز نے دلائل دیے کہ ایف آئی آر میں کہا گیا کہ جو کمپنیاں منی لانڈرنگ میں ملوث تھیں وہ شریف گروپ کی ہیں۔  شہبازشریف ان دس سالوں میں کسی کمپنی کے نہ ڈائریکٹر تھے اور نہ ہی شئیر ہولڈر رہے۔ یہ ایف آئی آر ایک انکوائری کے بعد درج کی گئی۔ ایف آئی آر کے ابتدائی پیراگراف میں شہباز شریف کا کوئی کردار نہیں لکھا گیا۔ ایف آئی آر میں سے استغاثہ نے 2 ارب 80 کروڑ کا اکاؤنٹ شامل کیا۔

وکیل شہبازشریف نے کہا کہ جب عدالت میں حتمی چالان پیش کیا گیا تو اسے نکال دیا گیا۔ پہلے اس اکاؤنٹ کو مشتاق چینی کا بے نامی اکاؤنٹ قراردیا گیا۔ مشتاق چینی کے ڈرائیورکے نام پر اڑھائی کروڑ کا اکاؤنٹ کھولنے کا الزام لگایا گیا مگر اسے ملزم ہی نہیں بنایا گیا۔ مشتاق چینی کو ملزم نہیں بنایا گیا مگر سلمان شہباز کو ملزم بنا دیا۔ قانون کے تحت مشتاق چینی والے کے اس اکاونٹ پر بھی وہی کارروائی ہونی چاہیے تھی، ایک الگ کیس بننا چاہیے تھا۔ حیرت یہ ہے کہ مشتاق چینی کے اکاؤنٹ پر سرکار نے کوئی ایکشن نہیں لیا۔

پراسیکیوٹر ایف آئی اے نے اعتراف کیا کہ تفتیش میں کچھ چیزیں نکل گئی ہیں، اس لئے چالان 25 ارب کی بجائے 16 ارب کا دائر کیا گیا۔

Advertisement

عدالت نے کہا کہ کیا سلمان شہباز کا اپنے والد کے ساتھ تعلق نہیں تھا؟

امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہا کہ سلمان شہباز کسی قسم کا بھی کاروبارکرنے میں خود مختار ہیں۔

عدالت نے استفسار کیا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ سلمان شہباز کا والد اور بھائی حمزہ کے ساتھ کوئی لین دین نہیں تھا؟

وکیل نے جواب دیا کہ میں نے اب تک آپ کے سامنے 3 اکاؤنٹس کی تفصیلات رکھی ہیں۔ سابقہ حکومت کے وزیر داخلہ نے پراسیکیوشن اور تحقیقاتی ایجنسیوں کو سیاسی انجینیرنگ کے لئے استعمال کیا۔ شہباز شریف فیملی کے خلاف سیاسی بنیادوں پر یہ کیس بنایا گیا۔ منقولہ وغیرمنقولہ جائیداد رکھنا ہر شہری کا بنیادی حق ہے۔

جج اعجازاعوان نے کہا لیکن یہ ڈکلیئر ہونا چاہیے ورنہ یہ کالا دھن ہوگا۔

امجد پرویز ایڈووکیٹ نے جواب دیا کہ اگر ڈکلیئر نہ ہو تو ایف بی آر کارروائی کرتی ہے، یہ ایف آئی آر سابقہ دور حکومت میں درج ہوئی۔ اس سابقہ دور میں مشیر احتساب کے بنائے ایک اور کیس میں عدالت نے کہا کہ ایف آئی اے کا استعمال پولیٹیکل انجینئرنگ کے لیے ہوا

Advertisement

اس دوران وزیراعظم شہبازشریف کمرہ عدالت میں امجد پرویز ایڈووکیٹ کے ہمراہ روسٹرم پر موجود تھے۔

امجدپرویزایڈووکیٹ نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ایف آئی آر کے متن میں کم اجرت کے ملازمین نے یہ نہیں کہا کہ یہ اکائونٹس شہباز شریف کے کہنے پر کھلے ہیں۔ استغاثہ کہتا ہے کہ چار ارب روپے چینی کی فروخت کا ریکارڈ چھپایا گیا۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا اس الزام پر ایف آئی اے کو کارروائی کا اختیار ہے یا نہیں۔ اس پر ایف بی آر یا انکم ٹیکس والے کارروائی کر سکتے ہیں۔

وکیل شہبازشریف نے کہا کہ ایف آئی اے والے اس چالان میں پاکستان کی آدھی دفعات لگا چکے ہیں۔ سابقہ حکومت کے مشیر داخلہ کی چھتری تلے یہ ایف آئی آر کاٹی گئی۔ ایف آئی آر کا متن بتاتا ہے کہ تمام اکاؤنٹس سلمان شہباز کی ٹرانزیکشنز کیلئے کھولے گئے۔

امجد پرویزایڈووکیٹ نے دلائل می کہا کہ میں سلمان شہباز کا وکیل نہیں، نہ وہ اس وقت سامنے ہیں۔ مگر3 کروڑ 95 لاکھ روپے کی رقم ایف آئی اے مانتا ہے۔ مسرورانور شہباز شریف کے ذاتی ملازم نہیں تھے، مسرور انور کمپنی کے ملازم تھے۔

فاضل جج  نے استفسار کیا مسرورانور کے اکاؤنٹ سے پیسے شہباز شریف کے اکاؤنٹ میں گئے؟

سماعت کے دوران وزیراعظم شہبازشریف نے کیا کہا؟

Advertisement

عدالت کی اجازت کے بعد شہبازشریف اسپیشل کورٹ سنٹرل سے روانہ ہوئے۔

امجد پرویزایڈووکیٹ نے شہباز شریف کی بریت کی درخواست پر دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ یہ سیاسی بیانیے کیلئے شریف گروپ کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ قانون کے تحت شریف گروپ کا نام تو کہیں رجسٹرڈ ہی نہیں ہے۔ شریف گروپ تو کمپنیزآرڈیننس کے تحت بھی رجسٹرڈ نہیں ہے۔

اسپیشل کورٹ سنٹرل نے شہباز شریف اور حمزہ شہباز کیخلاف منی لانڈرنگ کیس کی سماعت 8 اکتوبر تک ملتوی کردی۔ شہباز شریف کی بریت کی درخواست پر ان کے وکیل امجد پرویزکے دلائل آئندہ سماعت پر بھی جاری رہیں گے۔

Advertisement
Advertisement
مزید پڑھیں

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
کراچی میں ای چالان کا آغاز، صرف 6 گھنٹوں میں سوا کروڑ روپے سے زائد کے چالان
بحیرہ عرب میں ڈپریشن کی تشکیل، کراچی میں تیز خشک ہواؤں کا امکان
آزاد کشمیر حکومت کی تبدیلی: مسلم لیگ ن کا اہم اجلاس آج طلب
وزیراعظم شہباز شریف کی سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سے ملاقات
پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات کا تیسرا دور بے نتیجہ اختتام پذیر
وزیراعظم آزاد کشمیر چوہدری انوارالحق ڈٹ گئے، مستعفی نہ ہونے کا عندیہ
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر