سماعت کے دوران جسٹس اعجازالاحسن نے احسن اقبال سے مکالمے میں کہا کہ ہم نے آپ کو بلایا نہیں تھا۔ آپ خود آئے اور سیکریٹری صاحب نے وضاحت دی۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں رحیم یار خان مندر توہینِ عدالت کیس میں انٹرچینج کی تعمیرسے متعلق مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے عدالت نے اپنے حکم پر عمل درآمد کیلئے وارننگ جاری کردی۔
سپریم کورٹ نے تین روز میں عمل درآمد کرکے رپورٹ جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ تاخیر کی صورت میں کارروائی کی جائے گی۔
حکومت کی جانب سے کیس میں نظرثانی درخواست دائر کرنے کی اجازت دیے جانے کی استدعا کی گئی جس پرجسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ نظرثانی درخواست دائر کرنے کی اجازت ہم سے نہ مانگیں۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ نظرثانی درخواست دائر کرنی ہے یا نہیں یہ فیصلہ اٹارنی جنرل آفس نے کرنا ہے۔ اگر نظرثانی درخواست دائر کرنے کا وقت ختم نہیں ہوا تو ضرور دائر کریں۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہم نظرثانی درخواست میں مدت میں رعایت دینے کی بھی استدعا کریں گے۔
وزیرمنصوبہ بندی احسن اقبال نے کہا کہ جس وقت عدالت کا حکم آیا ترقیاتی بجٹ ایک ہزارارب روپے تھا، ترقیاتی بجٹ معاشی حالات کے سبب سکڑکر چھ سو ارب روپے رہ گیا۔ ہمیں اسی وجہ سے بہت سے منصوبوں میں نظرثانی کرنا پڑی۔
احسن اقبال نے بتایا کہ ترقیاتی منصوبے اس انداز میں بنائے جا رہے ہیں کہ کم بجٹ میں زیادہ لوگوں کو فائدہ ہو۔ عدالت کی منشا تھی کہ انٹرچینج سے مندر کو تحفظ حاصل ہو۔ انٹرچینج بنانے کا مقصد یہ تھا کہ مندر تک آسانی سے پولیس اور لوگ پہنچ سکیں۔
وفاقی وزیر منصوبہ بندی نے کہا کہ انٹرچینج بھونگ کے بجائے دوسرے مقام پر بنانے سے مندر بھی محفوظ ہوگا اور مقامی آبادی کو بھی سہولت ملے گی۔
وکیل درخواست گزار نے کہا کہ دوسری جگہ انٹرچینج بنانے پرکوئی اعتراض نہیں۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ آپ کی تمام باتیں اب ہمارے نوٹس لیے جانے کے بعد کے جوازہیں۔ جو باتیں آپ کہہ رہے ہیں اس کے لیے آپ نظرثانی درخواست دائر کرسکتے تھے۔ عدالت کا فیصلہ صحیفہ نہیں ہوتا نظرثانی ہوسکتی ہے۔ لیکن عدالت کے فیصلے کی روح مسخ کرنے سے آئینی توازن خراب ہوتا ہے۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ حکومت، وزرا، ریاستی ادارے اور افسران عدالت کے فیصلے پر عمل درآمد کیلئے آئینی طور پر پابند ہیں۔
احسان اقبال نے کہا کہ ہم عدالت کے فیصلے کا مکمل احترام کرتے ہیں۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ یہ آپ کی مہربانی بھی ہے اور آئینی ذمہ داری بھی۔
وزیرمنصوبہ بندی نے کہا کہ اگرعدالت کہے گی تو بھونگ پر ہی انٹرچینج بنا دیں گے۔ لیکن اگر عدالت نے اجازت دی تو نظرثانی درخواست دائر کردیں گے۔
جسٹس مظاہرعلی اکبر نقوی نے کہا کہ آپ کو ایک کلیئر میسج دیا جا رہا ہے، آپ نظرثانی کی اجازت مانگ رہے ہیں۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ عدالت نے این ایچ اے اور حکومت کے اتفاق رائے سے فیصلہ دیا تھا۔ اس بات کی کوئی اہمیت نہیں کہ کب کس کی حکومت تھی۔ اگر منصوبے میں تبدیلی مقصود تھی تو حکومتی فیصلے سے قبل عدالت سے رجوع کیا جانا چاہیے تھا۔
احسن اقبال نے جواب دیا کہ میں نے پہلے ہی گزارش کی کہ اگرعدالت چاہے تو ہم بھونگ پر ہی انٹرچینج بنا دیتے ہیں۔ سیلاب اور معاشی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم نظرثانی کی درخواست دائر کرنا چاہیں گے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ نظرثانی کی درخواست جب آئے گی تب دیکھیں گے، فی الحال عدالتی فیصلہ موجود ہے جس پرعمل ہونا چاہیے۔ این ایچ اے کی جمع کرائی گئی رپورٹ قابل قبول نہیں۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ تین روز میں وجوہات بتائیں کہ سپریم کورٹ کے واضح احکامات کے باوجود منصوبے میں تبدیلی کی رائے کیوں دی گئی۔
احسن اقبال نے جواب دیا کہ گزشتہ حکومت نے ریاست کے افسران کو بہت خوفزدہ کررکھا تھا وہ کوئی فیصلہ نہیں لیتے تھے۔ میں اس لیے حاضر ہوا ہوں کہ بطور وزیر ذمہ داری لوں تاکہ متعلقہ افسران کو فیصلے لینے میں آسانی ہو۔
جسٹس اعجازالاحسن نے احسن اقبال سے کہا کہ بطور وزیر آپ ذمہ داری لیں، اچھی بات ہے۔ ہم نے آپ کو بلایا نہیں تھا۔ آپ خود آئے اور سیکریٹری صاحب نے وضاحت دی اس لیے فی الحال توہینِ عدالت کی کارروائی نہیں کررہے۔
احسن اقبال نے جواب دیا کہ میں حال ہی میں ایک ریفرنس سے بری ہوا ہوں۔ اس کیس میں بارہ کے قریب افسران کو اتنا خوفزدہ کیا گیا تھا کہ تمام کام رکے رہے۔ میرا مقصد افسران کو خوف کی فضا سے نکالنا ہے۔
جسٹس مظاہرعلی اکبر نقوی نے کہا کہ اس کیس کی بات نہ کریں۔ ہوسکتا ہے وہ اپیل ہمارے سامنے آ جائے۔
سپریم کورٹ نے انٹرچینج کی تعمیرسے متعلق اپنے حکم پرعدالتی احکامات کی رُوسے عمل کرنے کا حکم دے دیا۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News
