سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کیس کی سماعت آئندہ ہفتے تک ملتوی
جسٹس منصور علی شاہ نے نیب ترامیم کییس میں ریمارکس دیے کہ پارلیمنٹ کی نیت جاننےکیلئے نیب ترامیم پرجو بحث ہوئی وہ دیکھنا ہوگی۔
عدالت عظمیٰ میں معاملہ کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کی۔ دوران سماعت جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ نیب قانون کی دسترس سے تو ججز بھی باہر نہیں ہیں، نیب قانون سے افواج پاکستان کو باہر رکھنے کا یہ عمل پی ٹی آئی کی نظر میں آئینی ہے یا غیر آئینی؟ ایک شخص کو لاکھوں عوام نے ووٹ دے کر رکن پارلیمنٹ منتخب کیا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ درخواست گزار کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے دلائل میں کہا کہ رکن پارلیمنٹ عوامی اعتماد کا امانت دار ہے، منتخب رکن پارلیمان سے باہر نکل کر کہے کہ فیصلہ سڑکوں پر کروں گا تو کیا یہ جمہوریت ہے؟
انھوں نے کہا کہ اراکین پارلیمنٹ کا پارلیمان کو چھوڑ کر سڑکوں پر فیصلے کرنے سے جمہوری نظام کیسے چلے گا؟اگر رکن پارلیمنٹ عوام کا اعتماد جیت کر آئے ہیں تو پارلیمان میں بیٹھیں۔
دوران سماعت درخواست گزارعمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیے کہ سپریم کورٹ نے آرمی چیف ایکسٹینشن اوراسفند یار ولی کیس میں قانونی خلاءکو پر کیا تھا، نیب سمیت کسی بھی فوجداری مقدمے میں تحقیقات کے دوران گرفتاری کا حامی نہیں ہوں، اچھے سے اچھے قانون پر بھی عمل کرنے والے نا ہوں تو وہ بے نوقعت ہوتا ہے۔
وکیل عمران خان نے کہا کہ یہ نہیں چاہتے کہ تمام نیب ترامیم کالعدم قرار دی جائیں، نیب ترامیم میں پارلیمنٹ کی نیت دیکھنا بھی ضروری ہے۔
جسٹس منصورعلی شاہ نے اس موقع پر کہا کہ اسفند یار ولی کیس میں عدالت نے انسانی حقوق سے منافی ہونے پر قانون کالعدم قرار دیا تھا، نیب ترامیم کیس میں تو آپ کہہ رہے ہیں کہ جو مسنگ ہے اس کو شامل کیا جائے، نیب کی جن شقوں میں ترمیم ہوئی وہ بنیادی حقوق کے خلاف نہیں ہیں، پارلیمنٹ کی نیت جاننے کے لیے نیب ترامیم پر جو بحث ہوئی وہ دیکھنا ہو گی۔
خواجہ حارث نے اس موقع پر بتایا کہ نیب ترامیم پر پارلیمنٹ میں کوئی بحث ہوئی ہی نہیں ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے اس موقع پر کہا کہ حکومتی وکیل کا موقف ہے کہ نیب ترامیم سپریم کورٹ کے فیصلوں کی روشنی میں ہوئیں، جس پر عمران خان کے کونسل نے موقف اپنایا کہ نیب قانون میں کوئی ترامیم عدالتی فیصلوں کی بنیاد پر نہیں ہوئیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ کیا نیب ترامیم کے خلاف پبلک بھی کچھ کہہ رہی ہے؟ یا پھرعدالت خود سے تعین کرے کہ نیب ترامیم سے عوام متاثر ہو رہی ہے۔
چیف جسٹس اف پاکستان نےریمارکس دیے کہ درشن مسیح کیس میں پبلک نے عدالت سے رجوع کیا تھا، کیا نیب ترامیم کیس میں پبلک نے عدالت سے رجوع کیا ہے؟
خواجہ حارث نے بتایا کہ درشن مسیح کیس میں این جی اوز نے عدالت سے رجوع کیا تھا، خواہش ہے کہ کرپشن کے خلاف بھی این جی اوز بن جائیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے اس موقع پر کہا کہ نیب ترامیم کے خلاف اسلام آباد ہائیکورٹ میں بھی درخواست زیر التوا ہے، کونسل بتائیں کہ نیب ترامیم کے خلاف کیس واپس ہائیکورٹ کیوں نہیں بھیجوایا جا سکتا؟
جسٹس اعجا لاحسن نے اس موقع پر ریمارکس دیے کہ نیب ترامیم سے جو شقیں نکالی گئیں ان سے قانون ہی غیر مؤثر ہوگیا، نیب ترامیم کے خلاف اس مقدمے میں نیب قانون اصل حالت میں بحال کرنے کا کہا گیا ہے۔
چیف جسٹس آف پاکستان نے نیب ترامیم کے خلاف عمران خان کی درخواست کی سماعت کے موقع پر ریمارکس دیے ہیں کہ نیب قانون میں بہت سے سقم بھی تھے،نیب قانون میں کسی شخص کو محض الزام پر 90 روز کے لیے گرفتار کر لیا جاتا تھا، نیب ترامیم ملکی قانون میں پیش رفت ہیں، نیب قانون پر ترمیم سے پہلے بہت تنقید ہوتی رہی ہے۔
سپریم کورٹ نے سماعت منگل 13 دسمبر تک کے لئے ملتوی کر دی گئی۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News
