بھارت کے شہر ایودھیا میں 6 دسمبر آج ہی کے دن اب سے 30 سال پہلے میں بابری مسجد کی ظالمانہ شہادت کا سانحہ پیش آیا تھا
تفصیلات کے مطابق بھارت کے شہر ایودھیا کی بابری مسجد جسے 1528میں ایک غیر متنازعہ اراضی پر تعمیر کیا کو 6 دسمبر 1992 کو بی جے پی کے جنونی ہندوؤں نے شہید کر دیا تھا۔
بھارتی سپریم کورٹ نے 9 نومبر 2019 کوایودھیا میں مسجد کی شہادت کو غیر قانونی فعل قراردیتے ہوئے اپنا فیصلہ سنایا تھا، لیکن آج 30 برس گزر جانے کے باوجود ملزمان اب تک آزاد گھوم رہے ہیں۔
ممبئی فسادات کی تحقیقات کرنے والے بمبئی ہائی کورٹ کے واضح رہے کہ
جسٹس بی این سری کرشنا کے کمیشن نے بھی مسجد کی شہادت کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے بی جے پی کے لیڈر ایل کے ایڈوانی کی رتھ یاترا کو مسجد کی شہادت کا ذمہ دار قرار دیا تھا۔
جس وقت رتھ یاترا میں شامل جنونی ہندوؤں نے مسجد کو شہید کیا تو وہاں نظم ونسق کی پوری مشینری موجود تھی اور صوبے کے وزیراعلیٰ نے ملک کی سب سے بڑی عدالت میں حلف نامہ داخل کرکے مسجد کے تحفظ کی ذمہ داری بھی لی تھی۔
مگر تمام قانونی تحفظات کے باوجود مسجد کے گنبدوں پر چڑھنے والے جنونی ہندوؤں کو روکا نہیں گیا اور انھوں نے پانچ سوسالہ قدیم تاریخی مسجد کو شہید کردیا تھا۔
ہندوتوا کے حامیوں کے خلاف ملک کی سب سے بڑی تحقیقاتی ایجنسی نے مجرمانہ سازش کا مقدمہ قائم کیا اور ان کی گرفتاری بھی عمل میں آئی ، مگر افسوس دو عشروں سے زائد طویل اور تھکا دینے والی عدالتی کارروائی کے بعد ان تمام کلیدی ملزموں کو ’’ باعزت ‘‘ بری کردیا گیا.
بھارت کی سی بی آئی نے اس معاملے میں اپنے سیاسی آقاؤں کی خوشنودی کے لئے ہر وہ کام کیا جو ان ملزمان کو بچانے کی راہ ہموار کرتا ہو.
جسٹس بی این سری کرشنا کے کمیشن کی واضح سفارشات کے باوجود بابری مسجد کی شہادت میں ملوث ملزمان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہوئی۔
یاد رہے کہ سولہویں صدی کی مغل فن تعمیر کی شاہکار بابری مسجد کو مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر نے تعمیر کرایا تھا۔
بابری مسجد کی شہادت کا معاملہ دراصل بھارت میں ظلم اور نا انصافی کی ایک ایسی دلخراش داستان ہے جس کی نظیر آپ کو کہیں بھی نہیں ملے گی.
بابری مسجد شہادت کی تحقیقات کرنے والے جسٹس منموہن سنگھ لبراہن نے سی بی آئی عدالت کے فیصلے میں سازش کی تھیوری تسلیم نہ کرنے پر بھارتی اخبار سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں نے اپنی تحقیقات میں پایا تھا کہ یہ ایک سازش تھی اور مجھے اب بھی اس پر یقین ہے۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News
