وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنااللہ اور دیگر ملزمان منشیات اسمگلنگ کیس میں بری ہو گئے۔
تفصیلات کے مطابق حکومت جانے سے پہلے مقدمات ختم کرانے کی بھاگ دوڑمیں وفاقی وزیرداخلہ رانا ثنااللہ آج عدالت پہنچے۔
لاہور میں انسداد منشیات کی خصوصی عدالت کے جج محمد نعیم شیخ نے کیس پر سماعت کی۔
پراسیکیوٹردانش مشکورنے عدالت سے کہا کہ میں نے منحرف گواہوں کے بیانات پر دستخط نہیں کرنے۔ میں اس عدالت کا پراسیکیوٹر نہیں ہوں اور اپنے عہدے سے استعفی دے چکا ہوں۔
اے این ایف کے 2 پراسیکیوٹرز نے منحرف گواہوں کے بیانات پر دستخط کر دیے۔

واضح رہے کہ وفاقی وزیرداخلہ رانا ثنا اللہ نے منشیات اسمگلنگ کیس میں بریت کے لیے انسداد منشیات عدالت میں درخواست دائرکی تھی جس میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ کوئی ثبوت موجود نہیں۔ کیس سیاسی بنیادوں پر بنایا گیا ہے بری کیا جائے۔

وفاقی وزیرداخلہ کی جانب سے عدالت میں دائر درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ سیاسی انتقام کا نشانہ بنانے کیلئے منشیات اسمگلنگ کا جھوٹا مقدمہ بنایا گیا۔ مقدمہ میں کوئی ایسا ثبوت صفحہ مثل پرموجود نہیں۔
درخواست میں یہ مؤقف اختیار کیا گیا کہ منشیات برآمد کرنے والے اسسٹنٹ ڈائریکٹر امتیاز احمد اور انسپکٹر احسان اعظم بھی الزامات کی تردید کر چکے ہیں۔ کیس سیاسی بنیادوں پر بنایا گیا بری کیا جائے۔

انسدادِ منشیات کی عدالت نے دیگر ملزمان سبطین، عثمان، عامر، اکرم اور عمر کو بھی بری کر دیا.
رانا ثناءاللہ کو یکم جولائی 2019 کو گرفتار کیا گیا تھا۔ گرفتاری سے اگلے روز انہیں جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا۔
رانا ثناءاللہ کی 24 دسمبر 2019 کو لاہورہائی کورٹ سے ضمانت منظور ہوئی۔

انسپکٹراحسان اعظم نے کہا کہ میرے سامنے گوئی برآمدگی نہیں ہوئی اور نہ واقعات مقدمہ کا علم ہے۔ مجھے گواہ رکھا تھا لیکن میں حقائق نہیں جانتا، استغاثہ کی کسی طوربھی تائید نہیں کرتا۔
اسسٹنٹ ڈائریکٹر امتیاز احمد نے کہا کہ مجھے راناثنااللہ کے مقدمہ کا علم نہیں ہے، میرے سامنے منشیات کی برآمدگی نہیں ہوئی تھی۔ میں نے بچشم کوئی منشیات کی برآمدگی نہیں دیکھی۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News
