
ایف بی آر ڈیٹا لیکس کیس، صحافی شاہد اسلم کا جوڈیشل ریمانڈ دے دیا گیا
عدالت نے ایف بی آرڈیٹا لیکس کیس میں بول نیوز کے صحافی شاہد اسلم کا جوڈیشل ریمانڈ دے دیا۔
تفصیلات کے مطابق عدالت نے ایف بی آر ڈیٹا لیکس کیس میں محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے ایف آئی اے کی جانب سے جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد کردی۔
عدالت نے بول نیوز کے صحافی شاہد اسلم کا چودہ روزہ جوڈیشل ریمانڈ دیتے ہوئے حکم دیا کہ شاہد اسلم کو سی آئی اے سب جیل میں رکھا جائے گا۔
فیصلہ محفوظ سے قبل سماعت کا احوال
اس سے قبل بول نیوزکے صحافی شاہد اسلم کو ایف بی آر ڈیٹا لیک کیس میں سول جج عمرشبیراسلام آباد کی عدالت میں پیش کیا گیا۔
دوران سماعت صحافی شاہد اسلم کے وکیل میاں علی اشفاق ایڈووکیٹ اورایف آئی اے پر اسیکیوٹر کے درمیان تلخ کلامی ہوئی۔ میاں علی اشفاق ایڈووکیٹ نے جج سے ایف آئی اے اہلکاروں کو کمرہ عدالت سے نکالنے کی استدعا کی۔
عدالت نے تفتیشی افسر سے کیس کی تفتیش کے حوالے سے استفسار کیا جس پرتفتیشی افسرنے جواب دیا کہ ملزم نے پاسورڈ نہیں دیا، جوابات غیرتسلی بخش ہیں۔ فارینزک لیب کو پاسورڈ بریک کرنے کے لیے لیپ ٹاپ اور موبائل بھیجوا دیاگیاہے۔ ملزم شاہداسلم تسلیم کرتےہیں کہ ایف بی آرسے مختلف آفیشلز کا ڈیٹالیتےرہےہیں۔
پراسیکیوٹرنے کہا کہ ملزم شاہداسلم سے پوچھاکہ پاسورڈ دینے میں تعاون کریں لیکن انہوں نے نہیں کیا۔ پاسورڈ حاصل کرنے کے لیے لیپ ٹاپ وغیرہ فورینسک لیب کو بھیج دیاہے۔ تفتیش مکمل کرنے کے لیے ملزم شاہداسلم ایف آئی اے کو درکار ہیں۔ فورینسک ماہرین نے کہاہےکہ ایک دو دن میں پاسورڈ دے دیں گے۔
ایف آئی اے پراسیکیوٹرنے عدالت سے صحافی شاہد اسلم کا مزید جسمانی ریمانڈ مانگ لیا۔ کہا کہ شاہداسلم نے اقرارکیا ہےکہ انفارمیشن لینے کےلئے ایف بی آرکا دورہ کرتےرہے۔
میاں علی اشفاق ایڈووکیٹ کے دلائل
میاں علی اشفاق ایڈووکیٹ نے دلائل کا آغازکرتے ہوئے کہا کہ شاہد اسلم کواس کیس سے ڈسچارج کیا جائے، پراسیکوٹر نے جتنے دلائل دینے ہیں وہ دے دیں۔ جب میں دلائل دوں تو پراسیکوٹر بیچ میں نہیں بولیں گے۔ ایف آئی اے نے یکطرفہ ابتدائی تفتیش کی۔ ایف آئی اے نے ایک طرف سے بیانات ریکارڈ کئے دوسرے فریق کو نوٹس تک نہیں دیا۔
وکیل شاہد اسلم نے دلائل دیے کہ ایف آئی اے نے شاہد اسلم کو بغیر نوٹس گرفتار کرکے اپنے ایس او پی کی خلاف ورزی کی۔ قانون کے مطابق ایف آئی اے کے پاس 90 دن تفتیش کرنے کے لیے ہوتےہیں۔ ایف آئی اے نے شاہداسلم کو گرفتار ایسے کرلیاجیسے تفتیش مکمل ہوگئی ہے۔ رپورٹ کوئی بھی شہری کرسکتا ہےلیکن کمپلیننٹ ہر کوئی نہیں ہوسکتا۔
میاں علی اشفاق ایڈووکیٹ نے کہا کہ شاہداسلم کے کیس میں متاثرہ فریق تو کبھی سامنے ایا ہی نہیں، قانون اس کی مدد نہیں کرسکتا جو اپنے حق کے لیے سویا رہتاہے۔ اس ایف آئی آر میں شاہد اسلم نامزد ہی نہیں ہے۔ عبد الماجد یوسفزنی نے کرائم رپورٹ کیالیکن متاثرہ فریق کا بیان کیا ایف آئی اے نے آج تک ریکارڈ کیا؟ ایف بی آر کے ڈیٹا تک رسائی کا ایک میکنزم ہوتاہے،
وکیل میاں اشفاق نے دلائل دیے کہ صحافت ریاست کا چوتھا ستون ہے، شاہداسلم کے کیس میں ہیرو کو ولن اور ولن کو ہیرو بنا دیا گیا ہے۔ ایجنسیوں نے ایف آئی اے کے ساتھ مل کر انکوائری کی اور مقدمہ درج کروا دیا، استدعا ہے کہ شاہداسلم تو مقدمہ میں نامزد ہی نہیں ہیں، انصاف ملنا چاہیے۔
وکیل نے دلائل دیے کہ شاہد اسلم پر کیس بنانے کے لیے بہانہ بنایا گیا۔ شاہد اسلم 15 سال سے ایف آئی اے کوررکررہا ہے۔ جب ڈی جی ایف آئی اے بلوچستان میں تھے شاہد اسلم کو دعوتوں پر بلاتے تھے۔ یہ شخص موٹرسائیکل نہیں رکھتا رشوت دینے کے لیے پیسے کہاں سے لایا۔ میں آپ کے سامنے قانون کی بات کروں گا۔ کیا کوئی ثبوت ہے پیسے دینے کا کوئی گواہ ہے؟
ایڈووکیٹ میاں علی اشفاق نے کہا کہ شاہداسلم کی ایمانداری کا معترف اور گواہ ہوں۔ پراسیکیوٹرعدالت کے فیصلے پراثرانداز ہونا چاہتےہیں، شاہداسلم کے موبائل کی ضرورت ہی کیوں ہے؟ ایف بی آر کے ملازمین کا موبائل موجود نہیں کیا؟ ملازمین ایف بی آر کے ہیں اور گرفتار تیسرے شخص کو کیاجارہاہے، جہاں شہادت نہیں ہوتی 164 کا بیان لے لیتے ہیں۔ ایک حاضر سروس سپریم کورٹ کے جج کا ڈیٹا لیک ہوا۔
وکیل شاہد اسلم کے دلائل کے دوران ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے مطالبہ کیا کہ آپ اپنے دلائل مختصر کریں جس پر میا علی اشفاق ایڈووکیٹ نے کہا کہ ذرا صبر کریں اگر آپ کو عدالت کا اتنا احترام تھا تو صبح آٹھ بجے عدالت آتے دو بجے تک عدالت کو انتظار کیوں کرایا۔
وکیل علی اشفاق نے کہا کہ شاہداسلم کے خلاف زبانی کلامی ثبوت دیاگیاہے جس کی کوئی حیثیت نہیں، سابق آرمی چیف عدالت میں تو موجود نہیں، ان کا بیان بھی نہیں۔ سابق آرمی چیف کیا خود عدالت میں پیش ہو کر شاہداسلم کے حوالے سے بیان دے سکتےہیں؟
عدالت نے فریقین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔
ایف آئی اے پراسیکیوٹر کے دلائل
پراسیکیوٹر نے کہا کہ وکیلِ شاہد اسلم نے جسمانی ریمانڈ مسترد کرنے کے حوالے سے ایک الفاظ نہیں کہا۔ لگتا ہے وکیلِ شاہد اسلم نے مان لیاہےکہ جسمانی ریمانڈ ملنا چاہیے۔ شاہداسلم کے خلاف بیانات واضح ثبوت کے طورپر موجود ہیں۔ شاہداسلم کے بیانات کو وکیلِ نے چیلنج نہیں کیا۔
پراسیکیوٹر نے دلائل دیے کہ شاہداسلم نے اعتراف کیاکہ ایف بی آر سے انفارمیشن لی ہے۔ جسمانی ریمانڈ میں ہفتہ اتوار آگیا، پیر کو پہلا کام فورینسک کے لیے لیپ ٹاپ وغیرہ بھیجا، تفتیشی عمل بھی جاری ہے، شاہد اسلم کا کسٹڈی میں رہنا ضروری ہے۔ کیا تفتیش کا گلا گھونٹاجاسکتا ہے؟ شاہد اسلم کے ساتھ تعاون کیاجارہاتو وہ بھی تعاون کرے
دورانِ سماعت میاں علی اشفاق ایڈووکیٹ اورایف آئی اے پراسیکیوٹر کے درمیان شدید تلخ کلامی ہوئی۔
پراسیکیوٹر نے کہا کہ شاہداسلم سے ذرائع نہیں پوچھ رہے، میٹیریل پوچھ رہےجو اس نے آگے بھیجا ہے۔ ایف بی آر کے ملزمان نے قانون توڑا، انکوائری ہوئی اور تین ملزمان کا نام سامنےآیا، ملزمان نے متعدد افسران کے پاسورڈ کے ذریعے ڈیٹالیک کیا۔ شریکِ ملزمان نے پہلے روز ہی شاہداسلم کا نام اپنے بیان میں لیا۔
شاہد اسلم کی میڈیا سے گفتگو
عدالت میں آمد کے موقع پر بول نیوز کے صحافی شاہد اسلم نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ ڈی جی ایف آئی اے محسن بٹ نے کہا کہ انہیں اوپر سے حکم ہے کہ شاہد اسلم کو ذلیل کرنا ہے۔
صحافی شاہد اسلم نے کہا کہ مجھے دہشتگردوں کی طرح سلوک کیا گیا ہے، مجھے ایف آئی اے نوٹس ہی دے دیتا میں نے ایف آئی اے کو پاسورٹ نہیں دیا۔ مجھ پر تشدد تو نہیں کیا گیا البتہ ذہنی تشدد کیا گیا۔ یہ پارلیمان ایک ہی بارمیڈیا پر پابندی لگادیں۔
بول نیوز کے صحافی شاہد اسلم نے میڈیا سے گفتگو میں بتایا کہ اس سٹوری کے شائع ہونے کے بعد بھی محسن بٹ مجھے ملے ہیں۔ تمام صحافیوں کو طے کرنا ہے کہ باری باری سب نے مرنا اور گرفتار ہونا ہے یا یکجہتی کا مظاہرہ کرنا ہے۔
شاہد اسلم نے مذید کہا کہ وزیراعظم شہبازشریف اور وزیرداخلہ رانا ثنا اللہ بتائیں کہ ان پر کس کا دباؤ ہے۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News