
نیب ترامیم کیخلاف عمران خان کی درخواست پر سماعت کل تک ملتوی
سپریم کورٹ نے عمران خان کے دور میں نیب آرڈیننس سے بری اور مستفید ہونے والوں کی تفصیلات طلب کر لیں۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کیس کے خلاف سابق وزیراعظم عمران خان کی درخواست پر سماعت ہوئی۔
چیف جسٹس آف پاکستان نے عمران خان کے دورمیں نیب آرڈیننس سے بری اور مستفید ہونے والوں کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے کہا کہ یہ بھی حقیقیت ہے نیب ترامیم کے بعد 386 کیسز احتساب عدالتوں سے واپس ہوئے۔
وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ جسٹس اعجازالاحسن نے آبزرویشن دی کہ 386 کیسز میں سے کتنے اراکین پارلیمنٹ کے تھے۔ عدالت یہ بھی پوچھ سکتی تھی کہ تحریک انصاف کے ساڑھے تین سالہ دور میں 5 نیب آرڈیننس لائے گئے
وکیل مخدوم علی خان نے دلائل دیے کہ تحریک انصاف کے دور کے آرڈیننسز کے تحت کتنے نیب ریفرنس واپس اور افراد بری ہوئے۔ عدالت یہ بھی پوچھے کہ تحریک انصاف کے آرڈیننسز سے بری ہونے والے ملزمان میں کون کون شامل ہے۔
وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ نیب قانون میں حالیہ ترامیم پرانے قانون کا ہی تسلسل ہے۔ عدالت خود کو 386 نیب کیسز تک محدود نا رکھے۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ آپ بتا دیں نیب سے کیا سوالات پوچھیں نوٹ کرا دیتے ہیں جس پروفاقی حکومت کے وکیل نے جواب دیا کہ نیب بتائے کہ پی ٹی آئی کے آرڈیننسز کے ذرہعے کتنے ریفرنس واپس ہوئے؟ نیب بتائے کہ نیب آرڈیننسز سے کتنے افراد بری ہوئے اور ٹرائل کورٹ نے بریت کی کتنی درخواستیں واپس کیں؟
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اگر نیب کو ختم کر بھی دیا جائے تو جرائم کے سد باب کے لیے دیگر قوانین موجود ہیں۔ ایسا کہنا درست نہیں کہ نیب کیسز سے بری ہونے والے صاف شفاف ہونے والے گھر چلے جاتے ہیں۔ یہ تاثر غلط ہے کہ نیب ختم ہو جانے سے قانون کی گرفت بھی ختم ہو جائے گی۔
جسٹس اعجازالاحسن بولے تحریک انصاف کا مؤقف ہے کہ نیب کیسز میں جرم ثابت کرنے کا معیار ہی بدل دیا گیا ہے، سوال یہ بھی اہم ہے کہ نیب کیسز میں سزائیں ہونے کے بعد حالیہ ترامیم کا اطلاق ماضی سے کیسے ہو سکتا ہے؟ ایسا نہیں ہو سکتا کہ نیب قانون میں ترامیم لا کر اطلاق 1985 سے کر دیا جائے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ نیب قانون میں حالیہ ترامیم کو عظیم ایمنسٹی ہیں اور یہ بڑی عجیب بات ہے۔ مجھے یہ بھی پتا ہے کہ نیب قوانین کے علاوہ دیگر قوانین بھی موجود ہیں، اگر احتساب عدالت جرم سے بری کر دے تو ملزم گھر ہی جائے گا۔ کیس کے دوران میرے کیے گئے سوالات عارضی نوعیت کے ہیں۔
سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت 19 جنوری تک ملتوی کر دی۔ چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی بنچ نے سماعت کی۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News