Advertisement
Advertisement
Advertisement

ازخود نوٹس؛ آئین میں واضح ہے کہ صدر بھی تاریخ دے سکتے ہیں، چیف جسٹس پاکستان

Now Reading:

ازخود نوٹس؛ آئین میں واضح ہے کہ صدر بھی تاریخ دے سکتے ہیں، چیف جسٹس پاکستان
چیف جسٹس پاکستان

’’جوعدالت میں کہوں اس کا وہ مطلب نہیں ہوتا جو سمجھا جاتا ہے‘‘

پنجاب اورکے پی انتخابات کے ازخود نوٹس کیس میں چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ پارلیمان نے الیکشن ایکٹ میں واضح لکھا ہے کہ صدر بھی تاریخ دے سکتے ہیں۔ 

سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت کل صبح ساڑھے 9 بجے تک ملتوی کردی۔ اس سے قبل سماعت کے آغاز میں سپریم کورٹ کے چارمعزز ججزنے ازخود نوٹس کیس کی سماعت سے معذرت کرلی۔

جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس مظاہرعلی اکبر نقوی، جسٹس اطہر من اللّٰہ اور جسٹس یحییٰ نے پنجاب اور خیبر پختون خوا میں انتخابات کے معاملے پرازخود نوٹس کیس سننے سے معذرت کی۔

چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی جس میں جسٹس منصورعلی شاہ، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس منیب اختر اور جسٹس محمد علی مظہر شامل تھے۔ سپریم کورٹ بارکے صدرعابد زبیری بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔

جسٹس اطہر من اللّٰہ کا اختلافی نوٹ

Advertisement

سپریم کورٹ آف پاکستان میں پنجاب اور خیبر پختون خوا میں انتخابات کے معاملے پر ازخود نوٹس کیس کی سماعت تاخیر سے شروع ہوئی تو چیف جسٹس پاکستان عمرعطا بندیال نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ 4 ممبرز نے خود کو بنچ سے الگ کرلیا ہے۔

چیف جسٹس کا آج سماعت کو مکمل کرکے کل فیصلہ دینے کا عندیہ

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ عدالت کا باقی بنچ مقدمہ سنتا رہے گا، آئین کی تشریح کے لیے عدالت سماعت جاری رکھے گی، آئین کیا کہتا ہے اس کا دار و مدار تشریح پر ہے، کل ساڑھے 9 بجے سماعت شروع کر کے ختم کرنے کی کوشش کریں گے۔

انھوں نے کہا کہ جب تک حکم نامہ ویب سائٹ پرنہ آ جائے جاری نہیں کرسکتے، جسٹس جمال مندوخیل کا نوٹ حکم نامے سے پہلے ہی سوشل میڈیا پر آ گیا تھا، مستقبل میں احتیاط کریں گے کہ ایسا واقعہ نہ ہو، علی ظفر دلائل کا آغاز کریں، آگاہ کریں عدالت یہ کیس سنے یا نہیں؟ آگاہ کیا جائے کہ عدالت یہ مقدمہ سن سکتی ہے یا نہیں؟ کل ہر صورت مقدمے کو مکمل کرنا ہے۔

فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ فل کورٹ کے معاملے پر درخواست دائر کی ہے جس پرچیف جسٹس پاکستان عمرعطا بندیال نے کہا کہ درخواستیں سن کر معاملے کو نمٹائیں گے۔

اسپیکرزکے وکیل علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ وزیرِاعلیٰ پنجاب نے اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری گورنر کو ارسال کی، گورنر اسمبلی تحلیل کرنے کے پابند تھے لیکن انہوں نے نہیں کی، گورنر کے انکار پر 48 گھنٹے میں اسمبلی از خود تحلیل ہو گئی، کوئی آئینی عہدے دار انتخابات میں 90 دن سے زیادہ تاخیر نہیں کر سکتا۔

Advertisement

’’گورنر کو کون مقرر کرتا ہے؟‘‘

جسٹس محمد علی مظہرنے کہا کہ گورنرپنجاب نے معاملہ الیکشن کمیشن کی کورٹ میں پھینک دیا، انھوں نے استفسار کیا کہ گورنر کو کون مقررکرتا ہے؟

وکیل علی ظفرنے دلائل دیے کہ گورنر کا تقرر صدر مملکت کی منظوری سے ہوتا ہے جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ گورنر کے تحلیل کرنے اور آئینی مدت کے بعد ازخود تحلیل ہو جانے میں فرق ہے۔ عدالت گورنر یا الیکشن کمیشن کو تاریخ مقرر کرنے کا حکم دے سکتی ہے۔

وکیل سابق اسپیکر پنجاب اسمبلی نے کہا کہ انتخابات کرانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے، ہائی کورٹ نے قرار دیا انتخابی عمل الیکشن سے پہلے شروع اور بعد میں ختم ہوتا ہے۔ عدالتی حکم پر الیکشن کمیشن اور گورنر کی ملاقات بے نتیجہ ختم ہوئی۔ صدر مملکت نے حالات کا جائزہ لیتے ہوئے خود تاریخ مقررکردی۔

جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ ہائی کورٹ میں سولہ فروری کو انٹرا کورٹ اپیل کس لئے دائر کی گئی ؟ اس اپیل میں کیا کارروائی ہوتی ہے؟

وکیل اظہرصدیق نے جواب دیا کہ انٹرا کورٹ اپیل بغیر کسی تاریخ کے ملتوی کردی گئی، آج ہائی کورٹ نے کہا کہ معاملہ سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے۔

Advertisement

جسٹس منصورعلی شاہ نے پوچھا کہ ہائی کورٹ نے پہلے کتنے روزمیں فیصلہ کیا؟ وکیل علی ظفرنے جواب دیا کہ ہائی کورٹ کے سنگل جج نے سولہ روز میں فیصلہ کیا۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ سنگل جج نے بڑی تیزی سے کام چلایا۔ یہ کوئی اتنا بڑا ایشو نہیں۔

علی ظفر نے دلائل دیے کہ انتخابات کرانا الیکشن کمیشن کا اختیار ہے،  آئین نے الیکشن کمیشن کو تاریخ دینے کا اختیار دے رکھا ہے،  انتخابات کرانے کی عمل میں الیکشن کی تاریخ بھی شامل ہے، الیکشن کمیشن کے 14 اور 15 فروری کو گورنرز سے ملاقاتیں بھی ہوئیں، میڈیا رپورٹس کے مطابق الیکشن کمیشن اور گورنرز کی ملاقاتیں بے نتیجہ رہی۔

’’الیکشن کی تاریخ دینے کا اختیار کس کو ہے کل فیصلہ کرلیں گے‘‘

جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ ہائی کورٹ فیصلے کے بعد کوئی اور درخواست دائر ہوئی؟ جس پروکیل علی ظفر نے جواب دیا کہ صدر مملکت نے معاملہ پردوخطوط لکھے۔ پہلے خط 8 فروری میں الیکشن کمیشن کو تاریخ کا اعلان کرنے کا کہا گیا۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ الیکشن کی تاریخ دینے کا اختیار کس کو ہے کل فیصلہ کرلیں گے، جب کہ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ الیکشن سے متعلق انٹرا کورٹ اپیلوں میں کیا ہوا؟

Advertisement

وکیل اظہرصدیق نے جواب دیا کہ آج فریقین کی باہمی رضامندی سے اپیلوں پر سماعت ملتوی کردی گئی، سپریم کورٹ میں سماعت کی وجہ سے ہائی کورٹ سے سماعت ملتوی کرنے کی استدعا کی گئی،

چیف جسٹس عمرعطابندیال نے پوچھا کہ ہائی کورٹ نے سماعت ایک ہفتے کے لئے ملتوی کرایا؟غیر یقینی صورتحال لگتی ہے لیکن اس کی وجہ تو ہونی چاہیے۔

وکیل علی ظفر نے کہا کہ صدرمملکت کا الیکشن کمیشن کے ساتھ انتخابات کے معاملے پر خط و کتابت بھی ہوئی، جس پر جسٹس منیب اختر نے پوچھا کہ الیکشن کمیشن نے صدر مملکت کو جو خط لکھا وہ ریکارڈ پر کہاں ہے؟

بیرسٹرعلی ظفر نے جواب دیا کہ وہ ہماری درخواست کا حصہ نہیں۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ غیریقینی صورتحال ہوسکتی ہیں مگر اس کی کوئی ٹھوس وجوہات ہونی چاہیے۔

وکیل علی ظفرنے کہا کہ الیکشن کمیشن نے ہائی کورٹ کے حکم کا احترام نہیں کیا، جس پر جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ توہین عدالت کی آپشن کیا استعمال کی گئی۔

Advertisement

وکیل اظہرصدیق نے بتایا کہ 14 فروری کو توہین عدالت دائر کی گئی۔ توہین عدالت کی درخواست پر الیکشن کمیشن سے جواب مانگا گیا۔

چیف جسٹس پاکستان نے پوچھا کیا صدر مملکت کے پہلے خط کا الیکشن کمیشن نے جواب دیا، وکیل علی ظفر نے جواب دیا کہ میری معلومات میں جواب نہیں۔

جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ صدرمملکت کا خط ہائی کورٹ حکم کے متضاد ہے، ہائی کورٹ نے گورنر سے مشاورت کے بعد تاریخ دینے کا کہا تھا۔ صدرمملکت نے الیکشن کمیشن کو تاریخ دینے کا کہا۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے تو اپنے جواب میں خود لکھا کہ گورنرسے مشاورت آئین میں نہیں، اگر مشاورت نہیں کی تو الیکشن کمیشن پھر خود الیکشن کی تاریخ دے دیتا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ صدر کے خط میں ایسا کچھ نہیں کہا گیا کہ آئین پرعمل ہورہا ہے یا نہیں۔ صدر کے خط میں صرف چیف الیکشن کمشنرکو مشاورت کے لیے کہا گیا۔

چیف جسٹس پاکستاننے کہا کہ یہ معاملہ واضح نہیں ہے، ہمیں دیکھنا چاہیے کہ صدرنے کیا جواب دیا۔

Advertisement

سماعت کے دوران الیکشن کمیشن نے جواب دیا کہ یہ گورنرکا اختیار ہے کہ وہ الیکشن کی تاریخ دیں جس پر چیف جسٹس پاکستان نے پوچھا کہ کیا الیکشن کمیشن نے بھی ہائی کورٹ میں انٹرا کورٹ اپیل دائر کی۔

وکیل علی ظفر نے جواب دیا کہ جی الیکشن کمیشن نے بھی اپیل دائرکی ہے۔

چیف جسٹس عمرعط بندیال نے کہا کہ 8 فروری کو آپ کی درخواست پر فیصلہ ہوا اس کے بعد صدر نے خط لکھا، کوئی حکم امتناع نہ ہونے کے باوجود الیکشن کمیشن نے کچھ نہیں کیا، الیکشن کمیشن نے کچھ نہیں کیا اسی لیے صدرنے خط لکھا۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن گورنرسے مشاورت نہیں چاہتا تو الیکشن کا اعلان کردینا چاہیےجبکہ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ جو مجھے سمجھ آ رہی ہے اس کے مطابق الیکشن کمیشن کہہ رہا ہے کہ تاریخ کیلٸے مشاورت آئین میں شامل نہیں۔ ہائی کورٹ نے گورنر سے مشاورت کا کہہ دیا۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ کیا الیکشن کمیشن کہہ رہا کہ گورنر سے مشاورت کا فیصلہ ہمارے راستےمیں ہے، الیکشن کمیشن اگر خود تاریخ دے دے تو کیا یہ توہین عدالت ہوگی؟

جسٹس جمال مندوخیل نے استفسارکیا کہ ازخود نوٹس میں سوال ہے کہ انتخابات کی تاریخ کون دے گا، وکیل علی ظفر نے جواب دیا کہ کسی نے تو انتخاب کی تاریخ کا اعلان کرنا ہے۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ اس میں الیکشن دس سال تاخیر کا شکار ہو جائے۔ دوسرا فریق بتا دے الیکشن کی تاریخ کس نے دینی ہے، جسے یہ کہتے ہیں اسے تاریخ کا اعلان کرنے دیں۔

Advertisement

وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ اسمبلی گورنرنے نہیں توڑی، 48 گھنٹے میں خود ٹوٹ گئی۔

جسٹس محمد علی مظہر نے پوچھا کہ الیکشن کمیشن تاریخ دے سکتا ہے، اس حوالے سے قانون کیا کہتا ہے؟ الیکشن کمیشن تاریخ دے سکتا ہے یہ فیصلہ کون کرے گا؟ اس معاملے پر ہماری معاونت کریں، کیا 90 روز میں انتخابات کی مدت میں توسیع ہوسکتی ہے؟

بیرسٹرعلی ظفرنے جواب دیا کہ کوئی ایک گھنٹے کیلئے بھی اس مدت میں توسیع نہیں کرسکتا جس پر جسٹس محمد علی مظہرنے کہا کہ مختصر یہ کہ گورنرنے الیکشن کی تاریخ دینے سے انکار کردیا ہے۔

وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ الیکشن کمیشن اپنی ذمہ داریاں بغیر دبائو کے پوری کرنے کی کوشش کررہا ہے۔

وکیل علی ظفر نے کہا کہ عدالت کو فیصلہ کرنا ہے کہ تاریخ کا اعلان کرنا کس کی ذمہ داری ہے۔ ذمہ داری کا تعین نہ ہوا تو 80 سال میں بھی انتخابات نہیں ہوسکتے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ کے پی اسمبلی کب تحلیل ہوئی؟ اس کے کیا حقائق ہیں؟ وکیل علی ظفر نے جواب دیا کہ کے پی اسمبلی گورنرکی ایڈوائس پرتوڑی گئی، 17 جنوری کو ایڈوائس گئی، 18 جنوری کو اسمبلی تحلیل کا نوٹیفکیشن آیا، اس کے بعد نگران وزیر اعلیٰ کا تقررکیا گیا، لیکن الیکشن تاریخ کا اعلان نہیں کیا گیا۔

Advertisement

بیرسٹرعلی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا مؤقف غلط ہے یا پھرصدرکا آرٹیکل 57 کے تحت اختیار بنتا ہے، ہدایات دی گئیں کہ سیکیورٹی، معاشی صورتحال کے تحت گورنر سے مشورہ کریں۔ خیبرپختونخوا میں صورتحال مختلف ہے، خیبرپختونخوا میں گورنر نے اسمبلی تحلیل کرنے کے فیصلے پر دستخط کیے۔

وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ خیبرپختونخوا میں کیس کی اگلی سماعت کل ہے جس پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ خیبرپختونخوا پشاورہائیکورٹ میں کُل 21 دن جواب جمع کرانے کے لیے دیے، خالص آئینی سوال ہے۔

ایڈوکیٹ جنرل نے بتایا کہ گورنرخیبرپختونخوا کہتے ہیں تاریخ دینے کے لیے نوے روز کی مہلت ہے، جس پر جسٹس محمد علی مظہرنے کہا کہ 90 دن تاریخ کے لیے ہیں تو الیکشن کب ہوں گے۔

گورنرکے پی کے سیکریٹری کو جواب جمع کرانےکی ہدایت

چیف جسٹس پاکستان نے آج ہی گورنرخیبرپختونخوا کے سیکرٹری کو جواب جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ سیدھا سادا کیس ہے 18 جنوری گورنرتاریخ دینے میں ناکام ہے۔

وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ پشاورہائی کورٹ میں تین آئینی درخواستیں زیرالتوا ہیں۔ جس پرچیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ پشاور ہائی کورٹ نے 21 دن کا نوٹس کیوں دیا فریقین کو؟ قانونی نقطہ طے کرنا ہے یہ کوئی دیوانی مقدمہ تو نہیں جو اتنا وقت دیا گیا۔

Advertisement

عدالتِ عظمٰی نے پوچھا کہ کے پی میں انتخابات کے حوالے سے کیا پیشرفت ہوئی؟

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ کیا گورنر کہہ سکتا ہے کہ دہشتگردی ہو رہی ہے مشاورت کی جائے؟

وکیل علی ظفر نے کہا کہ میری نظرمیں گورنرکے پی کو ایسا خط لکھنے کا اختیار نہیں۔ جس پر جسٹس منیب اخترنے پوچھا کہ کے پی میں بھی اسمبلی تحلیل ہوئی ہے وہاں کیا پوزیشن ہے؟

وکیل علی ظفر نے جواب دیا کہ گورنرکے پی نے الیکشن کمیشن کو اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کا کہا ہے، گورنر کے پی نے اپنے خط میں سیکیورٹی کو بنیاد بنایا ہے۔

’’آج تک ایسا نہیں ہوا کہ دہشت گردی کی وجہ سے انتخابات ملتوی ہوئے ہوں‘‘

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ تاریخ آئے گی تو ہی فیصلہ ہوگا کہ انتخابات ہوسکتے ہیں یا نہیں؟ پورا مہینہ ضائع کردیا کہ گورنر نے مشاورت کا کہا ہے، کیا دہشت گردی کی وجہ سے انتخابات ملتوی ہوسکتے ہیں؟

Advertisement

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آج تک ایسا نہیں ہوا کہ دہشت گردی کی وجہ سے انتخابات ملتوی ہوئے ہوں۔ سال 2013ء اور 2018ء میں اسمبلیوں نے مدت مکمل کی تھی۔

ڈی جی لا نے کہا کہ اسمبلی مدت مکمل کرے تو صدرالیکشن کی تاریخ مقررکرتے ہیں۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کے پی میں وزیراعلی کی ایڈوائس پرعمل ہوا لیکن پنجاب میں نہیں، جس پروکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ پشاورہائی کورٹ میں 3 آئینی درخواستیں زیرالتوا ہیں۔

بیرسٹر علی ظفر نے دلائل دیے کہ الیکشن کمیشن کا واحد کام انتخابات کرانا ہے۔ تمام ادارے الیکشن کمیشن کی معاونت کےپابند ہیں۔

سپریم کورٹ نے سماعت میں کچھ دیر کے لیے وقفہ کردیا۔

وقفے کے بعد سماعت

Advertisement

سپریم کورٹ میں وقفے کے بعد دوبارہ سماعت شروع ہوئی تو وکیل علی ظفرنے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن کا کوئی اختیار واپس نہیں لیا جاسکتا، آرٹیکل 220 تحت الیکشن کمیشن کی پاور سپریم کورٹ کی طرح کی ہے، اگر الیکشن کمیشن کہے کہ میں ہیلپ لیس ہوں تو یہ قابل قبول نہیں۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کرانا آئینی ذمہ داری ہے، معاشی مشکلات یا کسی اور وجہ سے الیکشن نہیں روکے جاسکتے۔

’’کیا ہر حال میں الیکشن کرانا لازمی ہے؟‘‘

جسٹس جمال مدوخیل نے کہا کہ ہمارے سامنے سوال یہ ہے کہ الیکشن کی تاریخ کا اعلان کون کرے گا؟ جس پرجسٹس منیب اخترنے کہا کہ ہمارے سامنے معاملہ مختصرہے ادھر ادھر نہ جائیں۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ کیا ہر حال میں الیکشن کرانا لازمی ہے؟

وکیل علی ظفر نے دلائل دیے کہ آرٹیکل 218(3) الیکشن کمیشن کو تاریخ دینا کا اختیار دیتا ہے جبکہ ڈی جی الیکشن کمیشن نے کہا کہ 2013 اور 2018 کا تناظر موجودہ تناظرسے مختلف تھا۔

Advertisement

جسٹس منصورعلی شاہ بولے کہ اسمبلی تحلیل کا نوٹیفکیشن کون جاری کرتا ہے؟ جس پربیرسٹرعلی ظفرنے جواب دیا کہ اسمبلی تحلیل کا نوٹیفکیشن الیکشن کمیشن نے جاری کیا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا کہ کیا الیکشن کمیشن اسمبلی تحلیل کا نوٹیفکیشن جاری کرسکتا ہے؟ جب کہ جسٹس منیب اخترنے کہا کہ نوٹیفکیشن کے مطابق 48 گھنٹے گزرنے کے بعد اسمبلی ازخود تحلیل ہوئی۔

جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ ریکارڈ کے مطابق نوٹیفکیشن حکومت نے جاری کیا ہے، جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ نوٹیفکیشن سے پہلے کسی نے تو حکم جاری کیا ہی ہوگا؟

وکیل علی ظفر نے جواب دیا کہ گورنرکی جانب سے کوئی نوٹفکیشن جاری نہیں ہوا تاہم نگران سیٹ اپ بنادیا گیا۔

جسٹس منصورعلی شاہ نے پوچھا کہ پنجاب اسمبلی کی تحلیل کا نوٹفکیشن کہاں ہے؟

’’الیکشن کی تاریخ کس نے دی؟‘‘

Advertisement

چیف جسٹس پاکستان نے ڈی جی الیکشن سے مکالمہ کرتے ہوئے پوچھا کہ 2013 اور 2018 میں جب اسمبلی تحلیل ہوئی تونوٹفکیشن کس نے جاری کیا تھا؟ 2018 اور 2013 میں مدت مکمل ہونے پرالیکشن کی تاریخ کس نے دی؟

وکیل علی ظفر نے کہا کہ گورنراپنی صوابدید پر اسمبلی تحلیل کرسکتا ہے، جس پرجسٹس منیب اختر بولے کہ اس کا مطلب ہے جب تک گورنر نہ چاہے اسمبلی تحلیل نہیں ہوسکتی، اسمبلی کی مدت مکمل ہونے پر گورنر الیکشن کی تاریخ نہیں دیتا۔

بیرسٹرعلی ظفرنے کہا کہ آرٹیکل 105 ہے تحت گورنر اسمبلی تحلیل کرے تو صدر الیکشن کی تاریخ دے گا، آرٹیکل 112(1) کی صوابدید نہیں ہے۔

’’کیا گورنراپنی صوابدید پر اسمبلی تحلیل کر سکتا ہے؟‘‘

جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ ارٹیکل 112(2) کے تحت گورنر کا صوابدیدی اختیار ہے، گورنراپنی صوابدید کے تحت اسمبلی نہ توڑے تو تاریخ کون دے گا؟ گورنرکا کردار پارلیمانی جمہوریت میں پوسٹ آفس کا ہی ہے، کیا گورنراپنی صوابدید پر اسمبلی تحلیل کر سکتا ہے؟

جسٹس منیب اخترنے ریمارکس دیے کہ گورنر کی صوابدید ہے کہ وہ کوئی سمری منظور کرے یا واپس بھیج دے، اسمبلی تحلیل پر گورنرکا کوئی صوابدیدی اختیار نہیں، گورنراگرسمری منظورنہ کرے تو اسمبلی ازخود تحلیل ہوجائے گی۔ گورنر سمری واپس بھیجے تو بھی اڑتالیس گھنٹے کا وقت جاری رہے گا۔

Advertisement

جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ گورنرکی صوابدید یہ نہیں کہ اسمبلی تحلیل ہوگی یا نہیں جب کہ جسٹس جمال خان مندوخیل بولے کہ  اگر گورنر سمری واپس بھیجے تو 48گھنٹے کا وقت کہاں سے شروع ہوگا؟

وکیل علی ظفر نے جواب دیا کہ میری نظر میں گورنر اسمبلی تحلیل کی سمری واپس نہیں بھیج سکتا۔ جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ  گورنر اسمبلی تحلیل کی سمری کو واپس نہیں بھیج سکتا۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ الیکشن کی تاریخ اور نگران حکومت کیلئے گورنر کو کسی سمری کی ضرورت نہیں۔

جسٹس منصورعلی شاہ نے پوچھا کہ کیا گورنراسمبلی توڑنے کا اختیار رکھتا ہے؟ جبکہ جسٹس منیب اختر بولے کہ گورنر اسمبلی توڑنے کی ایڈوائس روک کر واپس بھیج سکتا ہے۔

جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ میرے خیال میں گورنر کی صوابدید اسمبلی توڑنے سے انکار کی نہیں ہے، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اگر گورنر ایڈوائس واپس بھیجتے ہیں تو 48 گھنٹے کب سے شروع ہوں گے۔

جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ آرٹیکل 105 کی صوابدید کا تعلق اسمبلی کی تحلیل سے متعلق ہے۔

Advertisement

وکیل علی ظفر نے کہا کہ اگرگورنر اسمبلی تحلیل کرتا ہے تو نگران کابینہ اور الیکشن تاریخ دینے کا پابند ہے، گورنر کی اسمبلی تحلیل کرنے کا عمل آئین کے ارٹیکل 103 کے تحت ہوتا ہے۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ یہ دیکھنا ہوگا کہ اسمبلی تحلیل کے بعد گورنر الیکشن تاریخ دینے کا پابند ہے یا نہیں، کیا آرٹیکل 112تھری کے تحت گورنر ازخود اسمبلی تحلیل کرسکتا ہے؟ آرٹیکل 112 میں 2 صورتیں ہیں کہ گورنر اسمبلی تحلیل کرنے کی منظوری دیتا ہے یا نہیں؟

جسٹس منصورعی شاہ بولے کہ آرٹیکل 112 کی ذیلی شق ون میں گورنر کی صوابدید ہے کہ تحلیل کریں یا نہیں۔ اب بتائیں کہ کیا گورنر کے پاس صوابدید ہے یا ان کا کردارمکینیکل ہے؟

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اگر اسمبلی 48 گھنٹے بعد تحلیل ہوتی ہے تو آئین کے تحت نوٹیفکیشن کون کرتا ہے؟

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ گورنرکے صوابدیدی اختیارات پر سوال نہیں اٹھایا جا سکتا۔

’’علی صاحب! آپ سب کے ہی سوالات پر کہہ رہے ہیں “جی بالکل” ‘‘

Advertisement

جسٹس مصورعلی شاہ نے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے استفسارکیا کہ علی صاحب! آپ سب کے ہی سوالات پر کہہ رہے ہیں “جی بالکل” کیا آپ سب کے سوالات سے اتفاق کرتے ہیں؟ اگر الیکشن کے دن ملک میں جنگ ہو یا زلزلہ آجائے تو کیا ہوگا؟ انتخابات کی تاریخ گورنردے دے تو بھی قدرتی آفات آسکتی ہیں۔ جنگ ہو یا کرفیو لگ جائے تو انتخابات کیسے ہوں گے؟

بیرسٹرعلی ظفر نے جواب دیا کہ قانون میں سیلاب اور قدرتی آفات کا ذکر ہے جنگ کا نہیں، الیکشن کمیشن مخصوص پولنگ اسٹیشنز پر پولنگ ملتوی کرسکتا ہے، قانون میں جنگ کا کہیں ذکر نہیں اس کیلئے ایمرجنسی ہی لگائی جاسکتی ہے۔

جسٹس منیب اختر نے پوچھا کہ کیا ایسی کوئی شق نہیں کہ ملک میں کچھ بھی ہوجائے الیکشن ملتوی نہیں ہوسکتے؟ چیف جسٹس عمرعطا بندیال بولے کہ الیکشن کمیشن نے ہائی کورٹ سے الیکشن کیلئے اسٹاف مانگا لیکن انکار کردیا گیا۔

 ڈی جی لا الیکشن کمیشن نے بتایا کہ سیکشن 58 کے تحت ناگزیرحالات میں الیکشن ملتوی ہوسکتے ہیں جس پر جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ جہاں گورنر ناکام ہوجائے وہاں صدر کا اختیار آئے گا۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ سال 1976 میں آئین خاموش تھا کہ الیکشن کی تاریخ دینا کس کی ذمہ داری ہے؟ اسمبلی نے ترمیم کرکے صدر اور گورنر کو تاریخ دینے کا اختیار دیا۔ پنجاب کی حد تک صدر نے شاید تاریخ درست دی ہو۔ اگر گورنر اسمبلی توڑے اور تاریخ نہ دے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ صدر تاریخ دے دے، ایسی صورت میں آپ کو عدالت جانا ہوگا۔

انھوں نے کہا کہ کچھ صورتوں میں آئین خاموش ہو تو پارلیمنٹ ایک منتخب ادارہ ہے، 1976 میں الیکشن کی تاریخ دینے کا اختیار الیکشن کمیشن کے پاس تھا، پارلیمنٹ نے مداخلت کی اور تاریخ دینے کا اختیار گورنرکو دیا، تینوں صورتوں میں الیکشن کی تاریخ دینے کا اختیار گورنرکا ہی ہوگا۔

Advertisement

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ سمری آنے پر اسمبلی تحلیل کا حکم جاری کرنا گورنر کی ذمہ داری ہے، گورنر اپنے حکم میں انتخابات کی تاریخ بھی دے گا۔

جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ کیا گورنر تاریخ نہ دے تو الیکشن کمیشن ازخود انتخابات کرا سکتا ہے؟ وکیل علی ظفرنے جواب دیا کہ الیکشن کمیشن آئینی ادارہ ہے اسے ہی اختیار ہونا چاہیے۔

’’ہمیں پارلیمنٹ کے اختیارات میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے‘‘

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آئین کو بالکل واضح ہونا چاہیے، چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ پارلیمان نے الیکشن ایکٹ میں واضح لکھا ہے کہ صدر بھی تاریخ دے سکتے ہیں، پارلیمان کی بصیرت کا کیسے جائزہ لیا جا سکتا ہے؟ ہمیں پارلیمنٹ کے اختیارات میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔

چیف جسٹس پاکستان عمرعطابندیال نے کہا کہ گورنر یا صدر کسی طریقہ کار کے تحت تاریخ دیں گے، آرٹیکل 57 کے مطابق صدر مملکت الیکشن کمیشن کی مشاورت سے تاریخ دے سکتے ہیں، ہمارا مقصد حالات اور واقعات کا تعین کرنا ہوتا ہے، کیا گورنر الیکشن کمیشن سے مشاورت کرنے کی پابند ہیں۔

انھوں نے ریمارکس دیے کہ اس کیس میں معاملہ اگر صدر کے پاس جاتا تو الیکشن کمیشن مشاورت کرتا، ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کو گورنر سے مشاورت کرنے کی ہدایت کی۔

Advertisement

’’ملک بھرمیں کرکٹ ہورہی ہے تو الیکشن کیوں نہیں ہوسکتا‘‘

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ ملک بھر میں کرکٹ ہورہی ہے تو الیکشن کیوں نہیں ہوسکتا جس پرچیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ہمارے لیے صرف یہ ایشو ہے کہ الیکشن کی تاریخ کس نے دینی ہے۔

جسٹس منیب اختربولے کہ ابھی تو رشتہ طے ہونا ہے پھر تاریخ کی بات ہوگی، ابھی تو یہ بھی طے نہیں ہوا کہ تاریخ کس نے دینی ہے۔ آئین میں ہر چیز نہیں لکھی جاتی، قانون میں بہت سی چیزیں درج ہیں۔

جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ گورنر تاریخ نہ دے تو الیکشن کمیشن کو بڑھ کر تاریخ دینا چاہیئے؟ جس پروکیل نے جواب دیا کہ الیکشن کرانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے۔ گورنر اسمبلی تحلیل کرتا ہے تو تاریخ بھی گورنر دے گا۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ دوسری صورت ہوگی تو الیکشن کمیشن ایکٹ کرے گا، وکیل علی ظفر نے دلائل دیے کہ گورنر تاریخ نہ دے تو صدر مملکت تاریخ دے گا جس پرچیف جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ گورنر تاریخ دینے وقت صرف تاریخ دے یا اس پر کوئی غور و فکر کرسکتا ہے؟

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن راضی تو ہو لیکن وسائل نہ ہوں تو پھر کیا ہوگا؟ بیرسٹرعلی ظفر نے جواب دیا کہ  اس کا مطلب یہ نہیں کہ دس سال الیکشن نہ ہوں۔

Advertisement

کیس کی سماعت کل صبح 9 بجے تک ملتوی

سماعت کے آخر میں جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ سمری آنے پر اسمبلی تحلیل کا حکم جاری کرنا گورنر کی ذمہ داری ہے، گورنر اپنے حکم میں انتخابات کی تاریخ بھی دے گا۔

جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ کیا گورنر تاریخ نہ دے تو الیکشن کمیشن ازخود انتخابات کرا سکتا ہے؟ وکیل علی ظفر نے جواب دیا کہ الیکشن کمیشن آئینی ادارہ ہے اسے ہی اختیارہونا چاہیے۔ جسٹس منیب اختربولے آئین کو بالکل واضح ہونا چاہیے۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ پارلیمان نے الیکشن ایکٹ میں واضح لکھا ہے کہ صدر بھی تاریخ دے سکتے ہیں، پارلیمان کی بصیرت کا کیسے جائزہ لیا جا سکتا ہے؟

وکیل علی ظفر نے جواب دیا کہ الیکشن کمیشن نے گورنرز کو تاریخیں تجویزکررکھی ہیں۔

جسٹس محمد علی مظہرنے کہا کہ الیکشن کمیشن کو ہر وقت انتخابات کیلئے تیار رہنا چاہیے، کوئی بھی اسمبلی کسی بھی وقت تحلیل ہوسکتی ہے، جسٹس منیب اختر بولے کہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اس بنیاد پر انتخابات نہ ہوں کہ پیسے ہی نہیں ہیں۔

Advertisement

جسٹس منصورعلی شاہ ریمارکس دیے کہ کیا یہ عجیب نہیں ہے کہ صدر مشاورت سے تاریخ دیتا ہے اور گورنر اپنی مرضی سے؟ جس پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ گورنر کسی سے تو مشاورت کرتا ہی ہوگا۔

جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ اگرگورنر ایک ہفتے میں الیکشن کا اعلان کر دے تو الیکشن کمیشن کیا کرے گا؟ انتخابات کا سارا کام تو الیکشن کمیشن نے کرنا ہے۔

جسٹس محمد علی مظہرنے کہا کہ انتخابات کیلئے پورا شیڈیول دیا گیا ہے کہ کس مرحلے کیلئے کتنا وقت درکار ہوگا۔

سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کل صبح 9 بجے تک ملتوی کردی۔

گذشتہ سماعتوں میں عدالتِ عظمیٰ نے الیکشن کمیشن، پی ڈی ایم کی جماعتوں سمیت دیگر فریقین کو نوٹسز جاری کر رکھے ہیں جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی، ن لیگ اور جے یو آئی نے فل کورٹ تشکیل دینے کی استدعا کر رکھی ہے۔

فل کورٹ میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر نقوی کو شامل نہ کرنے کی بھی استدعا کی گئی۔

Advertisement
Advertisement
مزید پڑھیں

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
وزیراعظم کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کا اجلاس، ملک کی معاشی اور سیاسی صورتحال پر غور
پاکستان اور قازقستان کی مشترکہ فوجی مشقیں "دوستریم–5" جاری
لیاقت علی خان کی دیانت اور جمہوری اصول آج بھی قوم کیلئے مشعلِ راہ ہیں، صدر مملکت
بطور قوم ہمیں غذائی تحفظ اور موسمیاتی چیلنجز کے مقابلے کے لیے متحد ہونا ہوگا، وزیراعظم
پنجاب حکومت کا انتہا پسندی میں ملوث جماعت پر پابندی کی سفارش کا فیصلہ
شہید ملت لیاقت علی خان کی 74ویں برسی
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر