Advertisement
Advertisement
Advertisement

کے پی، پنجاب الیکشن از خود نوٹس کیس کی سماعت مکمل، سپریم کورٹ آج فیصلہ سنائے گی

Now Reading:

کے پی، پنجاب الیکشن از خود نوٹس کیس کی سماعت مکمل، سپریم کورٹ آج فیصلہ سنائے گی
سپریم کورٹ

پنجاب، کے پی انتخابات کی تاریخ کیلئے سیاسی جماعتوں کو مشاورت کرنے کا حکم

سپریم کورٹ نے پنجاب اورخیبر پختون خوا کے انتخابات میں تاخیر سے متعلق از خود نوٹس کیس کی سماعت کے معاملے پر فیصلہ محفوظ کرلیا جو آج 11 بجے تک سنایا جائے گا۔

چیف جسٹس پاکستان عمرعطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی لارجربنچ نے کیس کی سماعت کی۔ جسٹس منصورعلی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس محمد علی مظہربنچ میں شامل ہیں۔

سپریم کورٹ میں انتخابات میں تاخیر پر ازخود نوٹس کیس کی سماعت شروع ہوئی تو سپریم کورٹ بار کے صدرعابد زبیری دلائل دینے کے لیے آئے۔

اس موقع پر اٹارنی جنرل نے عابد زبیری پر اعتراض اٹھا تے ہوئے کہا کہ عدالتی حکم سے سپریم کورٹ بار کے صدر کا نام نکال دیا گیا تھا۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کو ادارے کے طور پر جانتے ہیں، جو عدالت میں لکھوایا جاتا ہے وہ عدالتی حکم نامہ نہیں ہوتا، جب ججز دستحط کر دیں تو وہ حکم نامہ بنتا ہے۔

Advertisement

عابد زبیری کے دلائل

سپریم کورٹ بار کے صدرعابد زبیری نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ ماضی میں قرار دے چکی ہے کہ انتخابات 90 دنوں میں ہی ہونے ہیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آئین کے تحت صدر اور گورنر فیصلے میں کابینہ کی ایڈوائس کے پابند ہیں، کیا الیکشن کی تاریخ صدر اور گورنر اپنے طور پر دے سکتے ہیں؟

چیف جسٹس نے کہا کہ آئین کے تحت نگراں حکومت کی تعیناتی اور الیکشن کی تاریخ پر گورنر کسی کی ایڈوائس کا پابند نہیں۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ جہاں صوابدیدی اختیار ہو وہاں کسی ایڈوائس کی ضرورت نہیں ہوتی۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اسمبلی کی تحلیل کا نوٹیفکیشن کون کرے گا؟

Advertisement

وکیل عابد زبیری نے جواب دیا کہ پنجاب اسمبلی کی تحلیل کا نوٹیفکیشن سیکریٹری قانون نے جاری کیا۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ 90 دن کا وقت اسمبلی کی تحلیل کے ساتھ شروع ہو جاتا ہے، اسمبلی کی تحلیل ہونے کے بعد وقت ضائع کرنے کی کیا ضرورت ہے؟

جسٹس منصور نے سوال کیا کہ کیا نگراں وزیرِ اعلیٰ الیکشن کی تاریخ کی ایڈوائس گورنر کو دے سکتے ہیں؟

عابد زبیری نے کہا کہ الیکشن کی تاریخ اور نگراں حکومت کا قیام ایک ساتھ ہوتا ہے۔

جسٹس منصورعلی شاہ نے سوال کیا کہ کیا گورنر نگراں حکومت کی ایڈوائس مسترد کرسکتے ہیں؟

وکیل عابد زبیری نے جواب دیا کہ نگراں حکومت کا کام تاریخ دینا نہیں، حکومتی امور سنبھالنا ہے، الیکشن کی تاریخ دینے کا اختیار گورنر کا ہے، وزیرِ اعلیٰ کا نہیں۔ سیف اللّٰہ کیس میں 12 ججز نے انتخاب کا عمل لازمی قرار دیا تھا۔

Advertisement

جسٹس مندوخیل نے کہا کہ آرٹیکل 48 کہتا ہے کہ صدرکا ہرعمل اور اقدام حکومت کی سفارش پر ہوگا۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آرٹیکل 48 کے مطابق تو الیکشن کی تاریخ دینا ایڈوائس پر ہوگا۔

وکیل عابد زبیری نے کہا کہ آئین میں اسمبلی کی تحلیل کے 4 طریقے بتائے گئے ہیں جس پرجسٹس منیب اختر نے کہا کہ نگراں حکومت تو 7 دنوں کے بعد بنتی ہے، آئین کی مختلف شقوں کی آپس میں ہم آہنگی ہونا ضروری ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ پنجاب کے کیس میں گورنر نے نہیں وزارتِ قانون نے نوٹیفکیشن جاری کیا۔

عابد زبیری نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 112 کے مطابق عدم اعتماد کی ایڈوائس پر یا پھر 48 گھنٹوں میں حکومت ختم ہوسکتی ہے۔

’’آج بھی حکومت گورنر سے انتخاب کا کہہ سکتی ہے‘‘

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آئین کے مطابق آج بھی حکومت گورنر سے انتخاب کا کہہ سکتی ہے۔ جسٹس منصور نے کہا کہ اگر حکومت کی تاریخ سے متعلق ایڈوائس آ جائے تو گورنر کیسے انکار کر سکتا ہے؟

وکیل عابد زبیری نے دلائل میں کہا کہ پنجاب میں 22 جنوری کو نگراں حکومت آئی تھی۔

Advertisement

جسٹس محمد علی مظہرنے کہا کہ بنیادی سوال یہ بھی ہے کہ گورنر کہہ رہے ہیں کہ اسمبلی میں نے تحلیل نہیں کی۔ وکیل عابد زبیری نے جواب دیا کہ تاریخ دینے کی بات کا ذکر صرف آئین کے آرٹیکل 105 (3) میں ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ حکومت کے انتخاب کی تاریخ دینے پر کوئی پابندی نہیں۔

وکیل عابد زبیری نے کہا کہ اتنے دنوں سے انتخابات کی تاریخ کا اعلان نہیں کیا گیا۔

’’90 دنوں میں الیکشن کرانا آئین کی روح ہے‘‘

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ کیا آپ کہہ رہے ہیں کہ حکومت آئینی ذمے داری پوری نہیں کر رہی؟ 90 دنوں میں الیکشن کرانا آئین کی روح ہے، اٹارنی جنرل سے کہیں گے کہ آئینی نکات پر معاونت کریں۔

وکیل عابد زبیری نے کہا کہ وقت کی میعاد مکمل ہونے پر اسمبلی ٹوٹ جائے تو صدر تاریخ دیں گے، میرا مؤقف ہے کہ انتخابات کی تاریخ دینا صدرِ مملکت کا اختیار ہے۔

Advertisement

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ گورنر جب بھی تاریخ دیں گے تو 52 دنوں کا مارجن رکھا جائے گا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ صدر کے اختیارات براہِ راست آئین نے نہیں بتائے، آئین میں اختیارات نہیں تو پھر قانون کے تحت اقدام ہو گا، قانون بھی آئین کے تحت ہی ہو گا۔

جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ اب تو آپ ہم سے پوچھنے لگ گئے ہیں کہ کرنا کیا ہے،صدرِ مملکت کس قانون کے تحت چٹھیاں لکھ رہے ہیں؟

وکیل عابد زبیری نے جواب دیا کہ صدرِ مملکت نے مشاورت کے لیے خط لکھے ہیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آئین میں تو کہیں مشاورت کا ذکر نہیں۔

جسٹس مندوخیل نے کہا کہ اگرمان لیا کہ قانون صدرِ مملکت کو اجازت دیتا ہے پھر صدر ایڈوائس کے پابند ہیں۔

Advertisement

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ نگراں حکومت بھی تاریخ دینے کا کہہ سکتی ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ دوسرے فریق کو سن کر فیصلہ کریں گے کہ صدر کو مشاورت کی ضرورت ہے یا نہیں۔

وکیل عابد زبیری نے کہا کہ گورنر الیکشن کی تاریخ دینے میں ایڈوائس کے پابند نہیں، گورنر والا ہی اختیار صدر کو بھی دیا گیا ہے، صدر بھی الیکشن کی تاریخ دینے میں ایڈوائس کے پابند نہیں۔

جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ گورنر کو اگر ایڈوائس کی جائے تو وہ اس کے پابند ہوں گے۔

اٹارنی جنرل کے دلائل

اسلام آباد ہائی کورٹ بار کے وکیل اور صدرسپریم کورٹ بارعابد زبیری کے دلائل مکمل ہونے کے بعد اٹارنی جنرل شہزاد عطا الہٰی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ صدرالیکشن کی تاریخ صرف قومی اسمبلی تحلیل ہونے پر دے سکتے ہیں، دوسری صورت میں ملک بھر میں انتخابات ہوں تو ہی صدر تاریخ دے سکتے ہیں۔

Advertisement

چیف جسٹس نے کہا کہ صدر کے صوابدیدی اور ایڈوائس پر استعمال کرنے والے اختیارات میں فرق ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ اگر گورنر اسمبلی کی تحلیل کے اگلے دن انتخابات کا کہہ دیں تو الیکشن کمیشن نہیں مانے گا۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ گورنر نے الیکشن ایکٹ کو بھی مدِنظر رکھنا ہے۔

اٹارنی جنرل پاکستان نے کہا کہ الیکشن 90 دنوں میں ہی ہونے چاہئیں، الیکشن کو 90ء دنوں سے آگے نہیں لے جانا چاہیے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ صدر الیکشن کی تاریخ صرف قومی اسمبلی تحلیل ہونے پر دے سکتے ہیں، دوسری صورت میں ملک بھر میں انتخابات ہوں تو ہی صدر تاریخ دے سکتے ہیں۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ صدر کے صوابدیدی اور ایڈوائس پراستعمال کرنے والے اختیارات میں فرق ہے۔

Advertisement

اٹارنی جنرل نے کہا کہ گورنر اسمبلی کی تحلیل کے اگلے دن انتخابات کا کہہ دیں تو الیکشن کمیشن نہیں مانے گا۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اٹارنی جنرل نے کہا کہ گورنر کو الیکشن ایکٹ کو بھی مدِ نظر رکھنا ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ الیکشن 90 دن میں ہی ہونے چاہئیں، آگے نہیں لے جانا چاہیے، انتخابات 90 دن سے آگئے کون لے کر جا سکتا ہے یہ الگ بات ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ کیا الیکشن کمیشن گورنر کی تاریخ پر تاخیر کر سکتا ہے؟ گورنر 85 ویں دن الیکشن کا کہے تو الیکشن کمیشن 89 دن کا کہہ سکتا ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ گورنر کو اسی وجہ سے الیکشن کمیشن سے مشاورت کا پابند کیا گیا ہے، صدرہو ںیا گورنر سب ہی آئین اور قانون کے پابند ہیں۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آج الیکشن کمیشن سے گورنر کی مشاورت کرائیں اور کل تاریخ دے دیں۔

Advertisement

سپریم کورٹ نے سماعت میں آدھے گھنٹے کا وقفہ کر دیا۔

وقفے کے بعد دوبارہ سماعت

وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو اٹارنی جنرل شہزاد الہٰی نے دوبارہ دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آئین کی تشریح پارلیمنٹ کی قانون سازی سے نہیں ہو سکتی، آئین سپریم ہے، صدرِ مملکت کو آئین انتخابات کی تاریخ دینے کی اجازت نہیں دیتا، صدر صرف انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرسکتا ہے، لاہور ہائی کورٹ نے واضح کہا ہے کہ انتخابات کرانا اور تاریخ کا اعلان الیکشن کمیشن کا اختیار ہے، انتخابات وفاق کا سبجیکٹ ہے۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ انتخابات کی تاریخ الیکشن کمیشن کو طے اور گورنر کو اعلان کرنا ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ جب سب واضح ہے تو جھگڑا کس بات کا ہے؟

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ میں انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت 14، 14 دن ملتوی ہو رہی ہے، اتنے اہم آئینی سوال پر اتنے لمبے التواءکیوں ہو رہے ہیں؟ الیکشن کمیشن کے پاس انتخابات کی تاریخ کا اختیار آئین کی کس شق کے تحت آیا؟

Advertisement

جسٹس محمدعلی مظہر نے کہا کہ آئین کے تحت الیکشن کمیشن کے اختیارات انتخابات کی تاریخ کے اعلان کے بعد شروع ہوتے ہیں۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ تاریخ میں صدر کے کچھ جمہوری کچھ غیر جمہوری اختیارات تھے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ اگر صدر انتخابات کی تاریخ نہیں دے سکتے تو سیکشن 57 ختم کیوں نہیں کر دیتے؟ کیا کسی نے سیکشن57 کو آئین سے متصادم ہونے پر چیلنج کیا؟

جسٹس محمد علی مظہر نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ آپ کی رائے میں انتخابات کی تاریخ دینا کس کا اختیار ہے؟

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ انتخابات کی تاریخ دینے کا اختیار الیکشن کمیشن کے پاس ہے۔

جسٹس مندوخیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو اعلان کرنا ہے تو کسی سے مشاورت کی ضرورت نہیں۔

Advertisement

’’کیا صدر کا کردار صرف نیوز کاسٹر کا ہے‘‘

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آئین اور قانون کی منشا کو سمجھیں، الیکشن کمیشن کو اعلان کرنا ہو تو صدر اور گورنر کا کردار کہاں جائے گا؟ کیا صدر کا کردار صرف نیوز کاسٹر کا ہے کہ وہ اعلان کرے؟ اعلان تو کوئی چھت پر چڑھ کے بھی کر دے، اعلان ہی کرنا ہے تو الیکشن کمیشن اپنی ویب سائٹ استعمال کرے۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا کردار ہر صورت میں اہم ہے، آپ کے مطابق الیکشن کمیشن کا کردار مرکزی ہے، دوسری جانب کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن کا کردار مشاورتی ہے۔

جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ کیا انتخابی مہم کا دورانیہ کم نہیں کیا جا سکتا؟

الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ بیلٹ پیپرز کی چھپائی کے لیے وقت درکار ہوتا ہے، انتخابی مہم کا دورانیہ 2 ہفتے تک کیا جا سکتا ہے۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آئین پر عمل کرنا زیادہ ضروری ہے۔

Advertisement

اٹارنی جنرل نے کہا کہ انتخابات 90 دن میں ہی ہونا لازمی ہیں تو 1988ء کا الیکشن مشکوک ہو گا؟ 2008ء کا الیکشن بھی مقررہ مدت کے بعد ہوا تھا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ 2008 ء میں بہت بڑا سانحہ ہوا تھا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ پہلا سوال تو یہ ہے کہ تاریخ دے گا کون؟ الیکشن کمیشن کی تاریخ آنے پر ہی باقی بات ہو گی، قانون میں تاریخ دینے کا معاملہ واضح کر دیا جاتا تو آج یہاں نہ کھڑے ہوتے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آرٹیکل 254 کا جہاں اطلاق بنتا ہو وہاں ہی کریں گے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے گورنرز کو تاریخیں تجویز کیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ کیا نگراں کابینہ گورنرز کو سمری بھجوا سکتی ہے؟

Advertisement

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ گورنر اور کابینہ دونوں آئین کے پابند ہیں، نگراں کابینہ الیکشن کی تاریخ کے لیے سمری نہیں بھجوا سکتی۔

جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ وزیرِ اعظم ایڈوائس نہیں دیتے تو صدر کو کب تک انتظار کرنا ہے؟

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کئی قوانین گھنٹوں میں بنائے گئے، آج بھی قانون بنا کر ذمے د اری دے دیتے۔

اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آج کی قانون سازی پر طعنہ ملتا ہے کہ پارلیمنٹ نامکمل ہے، الیکشن کمیشن کو انتخابات کی تاریخ دینی چاہیے، 90 دن کی مدت مکمل ہو رہی ہے، الیکشن کمیشن کی نیت پر شک نہیں کر رہا، اگر انتخابات کی تاریخ پر ڈکٹیشن کہیں اور سے آنا ہے تو الیکشن کمیشن باقی ذمے داریوں سے بھی انکار کر سکتا ہے، الیکشن کمیشن اپنی ذمے داریوں سے نہیں نکل سکتا۔

اس کے ساتھ ہی اٹارنی جنرل کے دلائل مکمل ہو گئے جس کے بعد الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل شہریار سواتی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن کو آئین کے تحت کام کرنا ہے، الیکشن کمیشن انتخابات کے لیے 3 طرح کی تاریخ دے سکتا ہے، الیکشن کمیشن سینیٹ، صدارتی اور ضمنی الیکشن کی تاریخ دے سکتا ہے، ہم صرف پنجاب اور کے پی کے الیکشنز کی بات کر رہے ہیں، ہمارا پہلے دن سے ہی مؤقف ہے کہ تاریخ کا اعلان گورنر کو کرنا ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ وزیرِ اعلیٰ کی اسمبلی توڑنے کی ایڈوائس کا اپنا اثر ہے، حتیٰ کہ گورنر اسمبلی نہ بھی توڑے پھر بھی وہ عمل درآمد ہوتا ہے۔

Advertisement

جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ آپ کا کہنا ہے کہ گورنر اسمبلی تحلیل کرے یا نہیں، وہ تاریخ دے گا؟

الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ پنجاب کے گورنر کہتے ہیں کہ میں نے اسمبلی تحلیل نہیں کی۔

جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا کہ کیا وہ آج تک اس مؤ قف پر قائم ہیں؟

الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ ہم نے گورنر پنجاب کو 9 سے 13 اپریل تک الیکشن کی تاریخ دینے کے لیے خط لکھا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ گورنر آنکھیں بند کر کے تاریخ دیتے ہیں یا مشاورت سے؟ گورنر کو الیکشن کمیشن کے شیڈول کا کیا علم؟ گورنر نے مشاورت کے لیے آپ کو بلایا یا نہیں؟

الیکشن کمیشن کے وکیل نے بتایا کہ گورنر کی الیکشن کمیشن سے مشاورت تقاضہ نہیں ہے۔

Advertisement

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ گورنر نے مشاورت کی بجائے انٹرا کورٹ اپیل دائر کر دی، ہائی کورٹ نے مشاورت کر کے تاریخ دینے کا حکم دیا تھا۔

الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ عدالتی حکم پر الیکشن کمیشن نے گورنر سے ملاقات کی۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا گورنر کے پی سے تاریخ کے لیے بات ہوئی ہے؟

الیکشن کمیشن کے وکیل نے جواب دیا کہ گورنر کے پی کو یاد دہانی کا خط بھی لکھا تھا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ پشاور ہائی کورٹ بھی نوٹس نوٹس ہی کر رہی ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ تمام ادارے انتخابات میں الیکشن کمیشن کی معاونت کے پابند ہیں۔

Advertisement

الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ گورنر کے پی نے مشاورت کی، نہ ہی تاریخ دی، گورنر کے پی نے کہا کہ صوبے میں امن و امان کی صورتِ حال خراب ہے، گورنر نے ایجنسیوں سے رجوع کرنے کا کہا۔

’’اداروں سے رجوع کر کے تاریخ کا تعین کیا جائے‘‘

چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے ہدایت کی کہ گورنر کے پی کے مطابق دیگر اداروں سے رجوع کر کے تاریخ کا تعین کیا جائے، انتخابات پر متحرک ہونا الیکشن کمیشن کی ذمے داری ہے، الیکشن کمیشن کا کام تھا کہ مکمل تیاری کے ساتھ دوبارہ گورنرز سے رجوع کرتا، الیکشن کمیشن صرف چٹھیاں نہ لکھے، پنجاب میں گورنر سمیت دیگر اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے بعد الیکشن کی تاریخ کا اعلان کیا جائے۔

سپریم کورٹ نے گورنر کے پی کی جانب سے پیش ہونے والے ایڈووکیٹ جنرل کے پی کو روسٹرم پر بلا لیا اور ان سے چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ گورنر کے پی کے خط کا کیا مطلب ہے؟

ایڈوکیٹ جنرل کے پی نے جواب دیا کہ گورنر اسمبلی تحلیل کرے تو تاریخ دینے کا مجاز ہے۔

جسٹس محمد علی مظہرنے کہا کہ گورنر نے خط میں کہیں نہیں لکھا کہ وہ تاریخ نہیں دیں گے۔

Advertisement

ایڈوکیٹ جنرل کے پی نے کہا کہ گورنر کے پی نے اسمبلی وزیرِ اعلیٰ کی ایڈوائس پر تحلیل کی، الیکشن کمیشن نے 3 فروری کو گورنر کو صوبائی حکومت سے رجوع کرنے کا کہا، خط میں الیکشن کمیشن نے اپنی مشکلات کا بھی ذکر کیا۔

وقفے کے بعد سماعت

سپریم کورٹ میں الیکشن نہ کرانے کےازخود کیس کی سماعت عدالتی وقفے کےبعد دوبارہ شروع ہوئی تو وکیل فاروق ایچ نائیک نے عدالت کو بتایا کہ میں نے مشاورت کی ہے۔ ہمارا مؤقف ہےکہ انتخابی تاریخ سیاسی جماعتیں مقررنہیں کرسکتیں۔

منصوراعوان نے کہا کہ ہمیں مشاورت کےلے کل تک کا مزید وقت درکار ہے۔

فاروق ایچ نائیک کے دلائل

عدالت کے روبرو فاروق ایچ نائیک نےدلائل دیتے ہوئے کہا کہ قیادت سے ہدایت لے کر اگاہ کروں گا۔

Advertisement

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ اصل طریقہ یہی ہے کہ مل کر فیصلہ کیا جائے۔ جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ آرٹیکل 254 سب ٹھیک کر دے گا تاریخ تو آجائے۔ قانونی باتوں کو ایک طرف رکھ کر سوچیں۔

 چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ عدالت کا کام رکا ہوا ہے اس لیے کل تک انتطارنہیں کر سکتے۔ جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ آپس میں تاریخ طے کرنی یا نہیں فیصلہ کرکے عدالت کو بتائیں۔ عدالت صرف یہ بتا سکتی ہے کہ تاریخ کس نے دینی ہے۔

وکیل فاروق ایچ نائیک نے دلائل دیے کہ معلوم نہیں زردای صاحب کہاں ہیں جس پر چییف جسٹس پاکستان نے کہا کہ اپ نے فون پر ہی بات کرنی ہے،ابھی کریں۔ پی ٹی آئی بھی اپنی قیادت سے بات کرے تاریخ کیا ہوسکتی ہے۔عدالت صرف تاریخ دینے والے کا ہی بتا سکتی ہے۔

فواد چوہدری نے کہا کہ یہ فیصلہ ہو گیا کہ الیکشن نوے دن سے آگے جاسکتا ہےتو مستقبل میں مشکل ہوگی۔ اسمبلی جاکر آئینی ترمیم کے لیے تیار ہیں۔ ایسی روایت نہیں ڈالنی چاہتے کہ الیکشن نوے دن سے آگے جائیں۔

Advertisement
Advertisement
مزید پڑھیں

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
کراچی میں آج موسم کیسا رہے گا؟
مسئلہ کشمیر کے بغیر بھارت سے کوئی بات نہیں ہوسکتی، وزیراعظم
بابا گرونانک کی 486 ویں برسی، پہلے روز دنیا بھر سے 2 ہزار یاتری کرتارپور پہنچے
تنازعات عالمی امن کو خطرے میں ڈال رہے ہیں،شہبازشریف، عالمی یوم امن پر پیغام
محسن نقوی قومی ٹیم کی حوصلہ افزائی کےلئے پریکٹس سیشن میں پہنچ گئے
3 لاکھ 50 ہزار حج درخواست گزاروں کا ڈیٹا ڈارک ویب پر لیک
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر