
سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کیس کی سماعت آئندہ ہفتے تک ملتوی
جسٹس منصورعلی شاہ نے ریمارکس دیے کہ ہر قانون عوامی اہمیت کا حامل ہوتا ہے، عدالت کیسے تعین کرے گی کہ کون سا قانون زیادہ اہمیت کا حامل ہے؟
سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کے خلاف عمران خان کی درخواست پرسماعت ہوئی جس میں اٹارنی جنرل پاکستان شہزاد عطا الہی نے نے عدالتی سوالات پر دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عدالت نے پی ٹی آئی ممبرز کی تنخواہوں سے متعلق سوال کیا تھا۔ قومی اسمبلی کے ایک ممبرکی مجموعی تنخواہ ایک لاکھ 88 ہزار ہے۔
اٹارنی جنرل پاکستان نے بتایا کہ پی ٹی آئی کے ممبران قومی اسمبلی نے اپریل سے کوئی تنخواہ وصول نہیں کی، پی ٹی آئی کے ممبران نے سفری اخراجات اور لاجز سمیت دیگر مراعات لیں، قومی اسمبلی ان معاملات کو دیکھ رہی ہے۔
دوران سماعت سوشل میڈیا پر چیف جسٹس پاکستان سے منسوب ریمارکس کی غلط رپورٹنگ سے متعلق عدالت کا اٹارنی جنرل سے مکالمہ بھی ہوا۔
حکومت وکیل کے دلائل
وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان روسٹرم پرآئے، چیف جسٹس پاکستان نے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ مخدوم صاحب! یادہانی کے لیے کہہ رہا ہوں کہ آپ کے دلائل میں 11 سماعتیں گزرگئیں۔
مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ دوسری جانب کے دلائل میں 6 ماہ لگے تھے جس پرچیف جسٹس پاکستان عمرعطا بندیال نے کہا کہ دوسری طرف کا ریکارڈ مت توڑیے گا۔
مخدوم علی خان نے دلائل دیے کہ سیاسی معاملات میں برطانیہ سمیت دیگرملکوں میں عدالتی کارروائی لائیو کیمروں میں ریکارڈ ہوتی ہے، لائیو اسٹریمنگ سے آفیشل ریکارڈ رہتا ہے اورابہام کی کوئی گنجائش نہیں رہتی۔
عدالت نے کہا کہ عدالتی کارروائی کی براہ راست نشریات کا معاملہ ہمارے پاس زیرالتوا ہے، جلد ہی فل کورٹ میں عدالتی کارروائی براہ راست دکھانے کا معاملہ رکھیں گے۔
وفاقی حکومت کے وکیل نے کہا کہ پی ٹی آئی کے 11 استعفے منظور ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائر کی گئی۔ یہ درخواست ان 11 استعفوں کی منظوری کے خلاف نہیں بلکہ دیگر استعفے منظور نہ ہونے کے خلاف تھی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے گزشتہ سال ستمبر میں یہ درخواست خارج کردی۔
حکومتی وکیل نے کہا کہ پی ٹی آئی نے استعفوں کی منظوری کے خلاف اور استعفے منظور نہ ہونے پر بھی درخواستیں دائر کیں۔ ایک رکن پارلیمنٹ کوعوام کے اعتماد کی ڈاکٹرائن پر جواب دہ ہونا چاہیے۔ پی ٹی آئی ارکان قومی اسمبلی کے استعفے آئے لیکن سینیٹرز نے استعفے نہیں دیے۔
مخدوم علی خان نے دلائل دیے کہ ایک قانون اگر پارلیمنٹ کے اکثریتی ارکان سے منظور نہ ہو تو اس کو غلط قرار نہیں دیا جا سکتا۔ جمہوریت میں اکثریت کی رائے سے قانون سازی ہوتی ہے۔ کبھی کسی قانون کے بارے میں یہ نہیں کہا گیا کہ یہ قانون ایک ووٹ سے بنا یا زیادہ ووٹوں سے۔ ایک ووٹ کی برتری سے بننے والا قانون بھی قانون ہوتا ہے۔
وفاقی حکومت کے وکیل نے کہا کہ اگر51 فیصد لوگ ووٹ ہی نہ ڈالیں تو بھی اسمبلی میں عوامی نمائندگی ہوگی۔ جمہوریت ہے ہی نمبرز گیم۔
جسٹس منصورعلی شاہ نے پوچھا کہ پی ٹی آئی نے قومی اسمبلی سے استعفے کب دیے تھے؟ جس پرمخدوم علی خان نے جواب دیا کہ تحریک انصاف کے ایم این ایز نے گیارہ اپریل کو استعفے دیے تھے۔
چیف جسٹس عمرعطابندیال نے کہا کہ پی ٹی آئی کے استعفے قسطوں میں منظور کیے گئے، استعفوں کی تصدیق کے حوالے سے عدالتی فیصلے موجود ہیں۔
مخدوم علی خان نے کہا کہ استعفے منظورہوچکے تو منظوری کیخلاف پی ٹی آئی عدالت چلی گئی، لاہورہائی کورٹ نے 44 استعفوں کی منظوری پرحکم امتناع دیا ہے۔
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ لاہورہائی کورٹ نے استعفوں کی منظوری کا اسپیکر کا حکم معطل نہیں کیا، ہائی کورٹ کے مطابق اسپیکرکا فیصلہ درخواست کے ساتھ لگایا ہی نہیں گیا تھا۔
مخدوم علی خان نے کہا کہ تحریک انصاف کے 20 ارکان نے استعفے نہیں دیے تھے وہ اسمبلی کا حصہ ہیں، امریکی تاریخ دان نے کہا تھا کہ سیاسی سوال کبھی قانونی سوال نہیں بن سکتا، امریکا تاریخ دان کی بات پاکستان کے حوالے سے درست نہیں لگتی۔ امریکی سپریم کورٹ بھی کہہ چکی ہے کہ عدالت سیاسی سوالات میں نہیں پڑے گی۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ پاکستان میں بنیادی حقوق اورآئینی سوالات پر فیصلے ہوتے رہے، سیاسی سوال قانونی تب بنتا ہے جب سیاسی ادارے کمزور ہو جائیں۔
حکومتی وکیل نے جواب دیا کہ پی ٹی آئی نے خود ہی آرڈیننس لاکر نیب ترامیم ڈیزائن کی تھیں، اپنی ہی ڈیزائن کردہ ترامیم چیلنج کرنا بدنیتی ہے، سپریم کورٹ وطن پارٹی اور طاہرالقادری کیس نیت اچھی نہ ہونے پر خارج کر چکی۔
جسٹس منصورعلی شاہ نے ریمارکس دیے کہ ہر قانون عوامی اہمیت کا حامل ہوتا ہے، عدالت کیسے تعین کرے گی کہ کونسا قانون زیادہ اہمیت کا حامل ہے؟
مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ عوامی اہمیت کسی بھی قانون کو چیلنج کرنے کی بنیاد نہیں، عوامی اہمیت کی بنیاد پر قوانین کا جائزہ لیا تو درخواستوں کا سیلاب آئے گا، کون سے مقدمات عوامی اہمیت کے ہیں آئین میں واضح نہیں، تحریک انصاف کو پہلے ہائی کورٹ سے رجوع کرنا چاہیے تھا۔ ہائی کورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں آتا توعدالت کیلئے زیادہ مناسب ہوتا۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ براہ راست سپریم کورٹ آنے سے ایک فریق کا اپیل کا حق ختم ہو جاتا ہے، بعض اوقات ایک صوبہ کسی قانون کو اچھا دوسرا برا کہتا ہے۔ ایسی صورتحال میں کوئی بھی عدالت سے رجوع کر سکتا ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ سپریم کورٹ خود تعین کرتی ہے کہ اس نے اپنا دائرہ اختیاراستعمال کرنا ہے یا نہیں جبکہ چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ماضی میں سپریم کورٹ ہائی کورٹس میں زیرالتواء مقدمات بھی منگواتی رہی ہے۔
حکومتی وکیل نے دلائل دیے کہ سپریم کورٹ کا چاررکنی بنچ کہہ چکا ہے کہ مقدمات منگوانے کا اختیار نہیں، سپریم کورٹ صرف مقدمات ایک سے دوسری ہائی کورٹ منتقل کرسکتی ہے۔
جسٹس منصورعلی شاہ نے سوال کیا کہ کیا آئین کسی ممبرکو منتخب ہونے کے بعد اسمبلی مدت مکمل کرنے کا پابند کرتا ہے؟ جس پر وفاقی حکومت کے وکیل نے جواب دیا کہ آئین کے تحت اگر اسمبلی رکن 40 دن تک بغیر اطلاع غیر حاضر رہے تو ڈی سیٹ ہو سکتا ہے، یہ پارلیمنٹ کی صوابدید ہے کہ ممبر کو ڈی سیٹ کرے یا نہیں۔
چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ تفصیل دیں آئینی خلاف ورزیوں پر نیب قانون کی شقوں کو سپریم کورٹ نے کب کب کالعدم قرار دیا۔
کیس کی سماعت 15 فروری تک ملتوی کردی گئی، چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی بنچ نے کیس کی سماعت کی۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News