سول جج عاصم حفیظ کونوکری سےبرخاست کرنےکی درخواست سماعت کیلئے منظور
اسلام آباد کی مقامی عدالت نے گھریلو ملازمہ تشدد کیس میں ملزمہ سومیا کی ضمانت کی درخواست مسترد کرتے ہوئے گرفتاری کا حکم دے دیا۔
ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد میں دس بجے کے وقفے کے بعد کم عمر ملازمہ رضوانہ تشدد کیس میں سول جج کی اہلیہ ملزمہ سومیا عاصم کی درخواست ضمانت پرسماعت شروع ہوئی۔
ڈیوٹی جج ایڈیشنل سیشن جج فرخ فرید بلوچ نے سماعت کی جبکہ ملزمہ عدالت کے سامنے پیش ہوئیں، جج نے استفسارکیا کہ ملزمہ سومیاعاصم کے خلاف کیس کا ریکارڈ کدھر ہے؟
ملزمہ سومیاعاصم کو روسٹرم پربلا لیاگیا، وکیلِ ملزمہ بھی پیش ہوئے اوربتایا کہ ملزمہ سومیاعاصم جی آئی ٹی کے سامنے پیش ہوئی اور اپنی بےگناہی کا اظہار کیا، ریکارڈ میں پولیس نے لکھا کہ ملزمہ سومیاعاصم نے تشدد نہیں کیا۔ آج دوپہر کو جی آئی ٹی نے بچی کی ماں کو بلایا ہوا ہے، شام تک انتظار کرلیا یائے تو بہتر ہوگا، جے آئی ٹی کی تفتیش مکمل ہو جائےگی۔
جج فرخ فرید نے کہا کہ تاحال کوئی دلیل درخواست ضمانت میں توسیع کرنے کے لیے کافی نہیں، وکیل صفائی نے جواب دیا کہ مقدمے کی پہلی پانچ لائنیں ہی جھوٹ پر مبنی ہیں جس پرجج فرخ فرید نے کہا کہ میں یہاں ٹرائل کے لیے نہیں بیٹھا، درخواست ضمانت پر دلائل دیں۔
وکیل ملزمہ نے کہا کہ جے آئی ٹی مجھے گناہگارقراردیتے ہیں تو ضرور جیل جانا چاہیے جس پرجج نے کہا کہ ایسا ممکن نہیں کہ جے آئی ٹی رپورٹ آنے تک سماعت ملتوی کی جائے۔
جج فرخ فرید نے درخواست ضمانت پردلائل دینے کی ہدایت کردی جس کے بعد وکیل صفائی نے کہا کہ کیس کے ملتوی ہونے سے ہمارے گواہان پر بھی اثرانداز ہونے کا خطرہ ہے، دو گھنٹے بچی بس اسٹاپ پر صحیح سلامت بیٹھی نظرآرہی ہے، بچی ماں کے ساتھ بھی بس اسٹاپ پر بیٹھی ہے اور صحیح سلامت نظر آرہی، الزام ہے کہ سول جج کے گھر گئے تو بچی زخمی تھی اور رو رہی تھی، الزام لگایاگیاکہ بچی کا سر زخمی تھا اور کیڑے پڑے ہوئے تھے۔
وکیل صفائی نے کہا کہ بچی بس اسٹاپ پر ڈھائی گھنٹے بیٹھی رہی اور ایک بار بھی سر نہیں کھجایا، میڈیکل رپورٹ 24 جولائی کی سرگودھا کی ہے، مقدمہ 25 جولائی کا ہے، الزام لگایاگیاکہ بچی پر روز ڈنڈوں سے تشدد ہوتاتھا، بھوکا پیاسا رکھاگیا، بچی سرگودھا بھی جاتی ہےاورمہمانوں سے بھی ملتی ہے، سومیاعاصم کے خلاف من گھڑت کہانی بنائی گئی ہے، تفتیشی افسرنے سرگودھا میں بس اسٹینڈ کی ویڈیو نہیں لی، ویڈیو میں دو کردار اور بھی ہیں جن کی وڈیو مقامی ہوٹل سے ملی۔
وکیل نے دلائل دیے کہ عدالت سے پہلے سومیاعاصم کا میڈیا ٹرائل شروع کردیاگیا، رپورٹ کے مطابق بچی ہسپتال 3 بجے صبح پہنچتی ہیں، یہ والی رپورٹ کہاں ہے؟ طبی رپورٹ کے مطابق 23 جولائی 5 بجے انجری ہوئی، پولیس کو کہاگیاکہ بچی اپنا بیان دینے کے حال میں نہیں، سرگودھا تک بچی بلکل ٹھیک گئی، کوئی ٹریٹمنٹ کی ضرورت نہیں تھی، 3 بجے سرگودھا پہنچنے کے بعد طبی معائنے کی ضرورت کیسے اچانک پڑ گئی بچی کو، اگر گرفتاری کے بعد بھی ضمانت ملنی ہی ہے تو ملزمہ کو جیل نہیں بھیجنا چاہیے، قانون کے مطابق عورت کو ضمانت ضرور ملنی چاہیے، کیس میں حقائق مسخ کیے گئے۔
وکیل صفائی نے کہا کہ جے آئی ٹی کیوں بجی ہے؟ کیا مقصد ہے؟ ممبران کون ہیں؟ کیا جے آئی ٹی کے ممبران پولیس افسران ہیں؟ جب ممبران پولیس اہلکار نہیں تو جے آئی ٹی میں کیوں شامل ہے؟
جج فرخ فرید نے کہا کہ ابھی تو آپ کہہ رہے تھے کہ جے آئی ٹی کے سامنے دوپہر میں پیش ہوناہے۔ وکیل صفائی نے جواب دیا کہ میں کس کس کے پاس جاؤں تاکہ اصل حقائق منظرعام پر آئیں، شفاف تفتیش کا مطلب ہی دونوں طرف سے حقائق کو منظرعام پر لانا ہوتاہے، تاخیری حربے استعمال کرکےبیان کو تاخیر سے ریکارڈ کروایا گیا۔
جج فرخ فرید نے تفتیشی افسرسے مکالمہ کیا کہ موبائل فون کی سی ڈی آر لی گئی ہے؟ وکیل صفائی نے جواب دیا کہ نہیں کال ریکارڈ ڈیٹا کیوں لیں گے، کہانی کو یکطرفہ جو چلانہ ہے، تفتیشی افسرکو بتایاگیاکہ بچی کو صحیح سلامت بس میں بٹھا دیاگیاتھا، مقدمے میں صحیح سلامت بچی کو بس اڈے پہنچنے کا ذکر نہیں، تفتیشی افسر کڑی سے کڑی نہیں ملا پارہا، جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے۔ اگر بچی کو مارنا ہی مقصد ہوتاتو بچی سومیاعاصم کے ساتھ کیوں بس اسٹینڈ پر پائی گئی؟
وکیل صفائی نے دلائل دیے کہ بچی تو خود سومیاعاصم کے ساتھ موجود دکھائی گئی، کیا تفتیشی افسر نے بچی کے والدین کو شامل تفتیش کرنے کی توفیق کی؟ سومیاعاصم کی تو زندگی کو خطرہ ہوگیاہے، میڈیا پر مجرم بنا دیاگیاہے، بچی کے والدین کو کیوں شامل تفتیش نہیں کیا جارہا؟ فلم کا ڈائریکٹر جانتاہے کہ سول جج بچی کو تنخواہ دینے کے معاملے میں پھنس سکتاہے۔
وکیل صفائی نے کہا کہ سومیاعاصم تمام ثبوت پولیس کو دینے کے تیار ہے، 7 جولائی کو مالی نے دیکھا بچی باغیچے میں مٹی کھا رہی تھی، الرجی اسی وجہ سے ہوئی، مٹی کھانے کی عادت سے بچی کو الرجی ہوئی جس کی دوائی بھی لے کردی، فارمیسی کی سلپ بھی موجود ہے جہاں سے جِلد کی الرجی کی دوائی لے کر دی۔
مدعی کے وکیل نے کہا کہ کس بنیاد پرسومیاعاصم اپنی ضمانت میں توسیع مانگ رہی ہے، کیا عورت کوئی بھی جرم کرلے اور اس کو ضمانت دے دی جائے؟ اگرعورت کو ایسے ہی ضمانتیں ملتی رہیں تو معاشرہ ختم ہوجائےگا۔
جج فرخ فرید نے کہا کہ مرحوم پرویزمشرف کے دور میں ایسا ہی ایک کیس ہوا تھا۔
مدعی وکیل نے دلائل دیے کہ الزام لگایاگیاکہ بچی کے والدین نے بلیک میل کیا، کیوں ہوئے بلیک میل؟ حقیقت ہےکہ بچی کے والدین سے رابط کیاگیا اور پیسوں کی آفرکی گئی، بچی کی طبی رپورٹ کو تو آج تک سومیاعاصم کے وکلا نے چیلنج نہیں کیا، اتنے زیادہ زخم ہیں، کیا کوئی والدین اپنی بیٹی کو اتنا زخمی کرسکتے؟ کوئی اتنا تشدد کرسکتاہے لیکن کبھی کوئی ماں باپ اپنی بیٹی پراتنا تشدد نہیں کرسکتے۔
مدعی وکیل نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ایک بارنہیں، بچی پر کئی بار تشدد کیاگیا، بچی کے کچھ زخم بھرگئے، کچھ بھر رہے ہیں، کم سن بچی رضوانہ کی عمر 13 سے 14 سال ہے، قانون کے مطابق کم سن بچی کو ملازمہ رکھنا ہی ایک جرم ہے، سول جج اور ان کی اہلیہ کو معلوم ہونا چاہیے تھا کہ کم سن ملازمہ رکھنا جرم ہے۔
سماعت کے دوران رضوانہ کی والدہ کمرہ عدالت میں آبدیدہ ہوگئیں جس پر کے بعد پراسیکیوٹر وقاص حرال نے عدالت کو بتایا کہ وکیل صفائی طبی رپورٹ مانگ رہے، سب کچھ ریکارڈ پر دستیاب ہے، گواہان، طبی رپورٹ، شواہد سب کچھ ریکارڈ پرموجود ہے۔
پراسیکیوٹروقاص حرال نے ملزمہ سومیاعاصم کی گرفتاری کی استدعا کردی جس کے بعد عدالت نے ملزمہ سومیا کی درخواست ضمانت مسترد کرتے ہوئے گرفتار کرنے کا حکم جاری کردیا۔
جج فرخ فرید بلوچ نے کہا کہ ملزمہ کو کمرہ عدالت سے باہر لے جائیں، میرے لیے بھی مشکل ہے میرے کولیگ کی اہلیہ ہیں، لیکن جہاں انصاف کی بات ہوگی تو میں نے انصاف کرنا ہے۔
اس سے قبل سماعت کے دوران کم عمرملازمہ رضوانہ تشدد کیس میں پولیس نے ریکارڈ عدالت میں پیش کیا۔ متاثرہ کم عمرملازمہ ضوانہ کے والدین اور وکیل بھی عدالت میں موجود تھے۔
اگر آپ حالاتِ حاضرہ سے باخبر رہنا چاہتے ہیں تو ہمارےفیس بک پیج https://www.facebook.com/BOLUrduNews/ کو لائک کریں۔
ٹوئٹر پر ہمیں فالو کریں https://twitter.com/bolnewsurdu01 اور حالات سے باخبر رہیں۔
پاکستان سمیت دنیا بھر سے خبریں دیکھنے کے لیے ہمارے کو سبسکرائب کریں اور بیل آئیکن پر کلک کریں۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News
