
کیا اے آئی اور حقیقی آوازوں کو درمیان فرق کو پہچانا جاسکتا ہے؟
مصنوعی ذہانت نے جہاں ہر شعبے میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے وہی یہ کسی بھی تحریری مضمون کو آواز دے کر آپ کو حیران بھی کرسکتا ہے۔
ایسا ہی کچھ معاملہ اس وقت پیش آیا جب ایک تجربے کے دوران ایک ہی مضمون کو انسانی اور اے آئی سے تیار کی جانے والی آوازوں میں سنایاگیا، جن میں مصنوعی اور حقیقی آوازوں کو پہچنا کافی مشکل تھا۔
ڈیپ فیک آڈیو یعنی ایسی آڈیو جس میں اے آئی کا استعمال کرتے ہوئے آواز کو بنایا گیا ہے لوگوں کو اس وقت بھی دھوکہ دے سکتی ہے جب سننے والے انہیں جانتے ہیں کہ وہ شایداے آئی سے تیار کردہ آواز سن رہے ہیں ۔
اے آئی سے چلنے والے ڈیٹیکٹرز جسے عموماً کسی بھی طالب علم کی تحریر کو یہ جاننے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے یہ اے آئی کے ٹول یعنی چیٹ جی پی ٹی سے تیار کیا گیا ہے طالب علم نے خود لکھا ہے۔ تاہم ان ڈیٹیکٹرزکو لوگوں کے ڈیپ فیکس کو مستند انسانی تقریر سے الگ کرنے میں مدد کے علاوہ بھی مزید ترقی دینے کی ضرورت ہے۔
یہاں تک کہ جب لوگ جانتے ہیں کہ وہ اے آئی سے تیار کردہ تقریر سن رہے ہیں، تب بھی انگریزی اور مینڈارن دونوں بولنے والوں کے لیے جعلی آواز کا قابل اعتماد طریقے سے پتہ لگانا مشکل ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اربوں لوگ جو دنیا کی سب سے زیادہ بولی جانے والی زبانوں کو سمجھتے ہیں، جب ڈیپ فیک یا غلط معلومات کے سامنا کرتے ہیں تو ممکنہ طور پر پریشان ہوجاتے ہیں۔
یونیورسٹی کالج لندن میں کمبرلی مائی اور ان کے ساتھیوں نے 500 سے زیادہ لوگوں کو چیلنج کیا کہ وہ متعدد آڈیو کلپس کے درمیان تقریر کے ڈیپ فیکس کی شناخت کریں۔ کچھ کلپس میں انگریزی یا مینڈارن میں عام جملے پڑھنے والی خاتون مقرر کی مستند آواز تھی، جبکہ دیگر خواتین کی آوازوں پر تربیت یافتہ جنریٹیو اے آئی کے ذریعے تخلیق کردہ ڈیپ فیکس تھے۔
مطالعہ کے شرکاء کو تصادفی طور پر دو مختلف گروپس میں ممکنہ تجرباتی سیٹ اپ کے لیے تفویض کیا گیا تھا۔ ایک گروپ نے اپنی مادری زبان میں آواز کے 20 نمونے سنے اور انہیں یہ فیصلہ کرنا تھا کہ کلپس اصلی ہیں یا جعلی۔
لوگوں نے انگریزی اور مینڈارن آواز کے نمونوں کی اسی وقت جب وہ آڈیو سن رہے تھے تقریباً 70 فیصد ڈیپ فیکس اور مستند آوازوں حوالے اپنی رائے سے آگاہ کیا تاہم باقی کے لیے وہ اتنے پر اعتماد نہیں تھے کہ وہ کس کی آواز سن رہے ہیں۔
اس سے پتہ چلتا ہے کہ حقیقی زندگی میں ڈیپ فیکس کا انسانی پتہ لگانا شاید اس سے بھی بدتر ہو گا کیونکہ زیادہ تر لوگ پہلے سے اس ابت سے آگاہ ہی نہیں ہوں گے کہ وہ جو آواز یا تقریر سن رہے ہیں وہ اے آئی سے تیار کردہ ہے۔
دوسرے گروپ کو 20 تصادفی طور پر منتخب کردہ آڈیو کلپس کے جوڑے دیے گئے۔ ہر جوڑے میں وہی جملہ دکھایا گیا جو انسان اور ڈیپ فیک کے ذریعے بولا گیا تھا۔ تاہم نتائج سے پتا چلا کہ بہت سے لوگوں نے غلط جواب دیا کیونکہ وہ انسانی اور اے آئی سے تیار کردہ آواز میں فرق پہچان نہیں سکے۔
اگر آپ حالاتِ حاضرہ سے باخبر رہنا چاہتے ہیں تو ہمارے فیس بک پیج https://www.facebook.com/BOLUrduNews/ کو لائک کریں
ٹوئٹر پر ہمیں فولو کریں https://twitter.com/bolnewsurdu01 اور حالات سے باخبر رہیں
پاکستان سمیت دنیا بھر سے خبریں دیکھنے کے لیے ہمارے کو سبسکرائب کریں اور بیل آئیکن پر کلک کریں
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News