
صدارتی معافی کی طرح نیب سے معافیاں دی جا رہی ہیں، چیف جسٹس پاکستان
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ صدارتی معافی کی طرح نیب سے معافیاں دی جا رہی ہیں، بدنیت لوگوں کے ہاتھ میں اتھارٹی دی جاتی رہی، کئی لوگوں کے پاس منشیات اور دیگر ذرائع سے حاصل داغدار پیسہ موجود ہے۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمرعطابندیال کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی بنچ نے سپریم کورٹ میں چیئرمین تحریکِ انصاف کی نیب ترامیم کے خلاف درخواست کی سماعت کی۔
سماعت کے آغاز میں چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے چیئرمین پی ٹی آئی وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ خواجہ حارث صاحب اجازت ہو تو مخدوم علی خان سے ایک بات پوچھوں ؟ کل ہم نے ترمیمی قانون میں ایک اور چیز دیکھی۔ ایم ایل اے کے تحت حاصل شوائد کی حیثیت ختم کر دی گئی۔
انھوں نے کہا کہ اب نیب کو خود وہاں سروسز لینا ہوں گی جو مہنگی پڑیں گی۔ آپ نے کل کہا تھا کہ ایم ایل اے کے علاوہ بھی بیرون ملک سے جائیدادوں کی رپورٹ آئی ہے۔ قانون میں تو اس ذریعے سے حاصل شواہد قابل قبول ہی نہیں۔
وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ کل یہاں بہت کہا گیا کہ نیب تحقیقات پر اربوں روپے لگے۔ اربوں روپے نیب پر لگتے پھر انہیں شواہد ایم ایل اے کے ذریعے منگوا کر دیے جاتے۔ اٹارنی جنرل کس اتھارٹی کے ذریعے نیب کے لیے ایم ایل اے بھیجتے رہے۔ یہ سب کر کے بھی نیب مقدمات میں سزا کی شرح 50 فیصد سے کم تھی۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ہمارے کرمنل جسٹس سسٹم میں بھی سزا کی شرح 70 فیصد سے کم ہے۔ ان میں سے بھی کہیں مقدمات اوپر جا کر آپس میں طے ہو جاتے ہیں۔ ہم یہ ڈیٹا دیکھ رہے ہوتے ہیں یہ تشویش کی بات ہے۔ قتل کے مقدمات میں 30، 40 فیصد لوگوں کو انصاف نہیں ملتا۔ ریاست کا بنیادی کام ہی لوگوں کو انصاف دینا ہوتا ہے۔
وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ کئی متاثرین عدالتوں میں ملزمان کو شناخت کرنے سے انکار کر دیتے ہیں۔ متاثرین کو یقین ہی نہیں ہوتا کہ وہ ملزمان کی شناخت کے بعد محفوظ رہیں گے یا نہیں۔
سماعت کے دوران مخدوم علی خان نے ججز کو تین مختلف ملکی و غیرملکی کتابیں مطالعہ کیلئے پیش کر دیں۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ لگتا ہے نیب ترمیمی کیس ہمارے علم میں کافی اضافے کا باعث بنے گا۔
مخدوم علی خان نے کہا کہ عدالت نے ترامیم کے ماضی سے اطلاق پر دلائل دینے کا کہا تھا، احتساب کے تمام قوانین کا اطلاق ہی ماضی سے کیا جاتا رہا ہے، سال 1996 میں احتساب آرڈیننس آیا اطلاق 1985 سے کیا گیا، 1997 میں دو احتساب آرڈیننس آئے انکا اطلاق بھی 1985 سے ہوا، نیب قانون 1999 میں بنا اس کا اطلاق بھی 1985 سے ہی کیا گیا، چیلنج کی گئی 2022 کی دونوں ترامیم کا اطلاق بھی 1985 سے کیا گیا۔
وفاقی حکومے کے وکیل نے دلائل دیے کہ پی ٹی آئی دور میں ہونے والی ترامیم کا اطلاق بھی 1985 سے ہی کیا گیا تھا، نیب نے لوگوں کے گھروں میں چھاپے مارے دروازے توڑے لیکن ثابت کچھ نہیں ہوا، ہر بے نامی ٹرانزیکشن کا مطلب کرپشن نہیں ہوتا، کرپشن ثابت کرنے کیلئے کوئی شواہد تو ہونے ہی چاہییں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ دیکھنا ہوگا ملزم کے ذرائع آمدن اثاثوں سے مطابقت رکھتے ہیں یا نہیں، ذرائع آمدن بھی اگر ملزم نے نہیں بتانے تو جرم ثابت کیسے ہوگا؟
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ قانون کا برا اور غیرآئینی ہونا الگ الگ چیزیں ہیں۔ ۔
وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ جرم کی سزا تبدیل کرنے کا مطلب آئین کی خلاف ورزی نہیں ہے، برطانیہ میں سنگین غداری پر پہلے سزائے موت دی جاتی تھی، برطانیہ نے غداری پر سزائے موت ختم کر دی ہے، سزائے موت ختم کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ غداری کو فروغ دیا جا رہا ہے، ثابت یہ ہوا کہ برطانوی پارلیمان غداری کو اب مختلف انداز میں دیکھ رہا ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ معلوم نہیں ترامیم کے وقت پارلیمان کی سوچ کیا تھی، ممکن ہے پارلیمان کی سوچ ہو کہ نیب قانون کافی سخت ہے اس لئے ترمیم کی گئی، نیب ترامیم کی باریکیوں میں جائے بغیر مجموعی جائزہ لینا چاہیے۔
وفاقی حکومت کے وکیل نے کہا کہ کرپشن کی بڑی وجہ اکانومی کا غیر دستاویزی ہونا ہے، رواں ماہ نیا آئی فون لینا چاہتا تھا کراچی میں کوئی ڈیلر چیک وصول کرنے پر آمادہ نہیں تھا، کراچی سے اسلام آباد آ کر موبائل فون خریدنا پڑا۔
وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ ترامیم کے بعد 50 کروڑ سے کم پلی بارگین کرنے والا درخواست دیکر صاف شفاف ہوجائے گا جس پر جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ پلی بارگین ختم کرانے والا کسی دوسرے قانون کی زد میں آ جائے گا۔
وکیل چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ ترامیم میں کہیں نہیں لکھا کہ نیب سے واپس ہونے والا مقدمہ کہاں چلے گا، پچاس کروڑ سے کم والا پیسے واپس لیکر نیب کے اختیار سے ہی نکل گیا۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ یہ سنجیدہ معاملہ ہے کہ 49 کروڑ کرپشن والا نیب سے بچ کر آزاد ہوجائے گا۔
خواجہ حارث نے کہا کہ جو جرائم نیب قانون میں درج ہیں وہ کسی اور قانون کا حصہ نہیں ہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ پارلیمان کرپشن ملزمان کو کسی اور قانون کے دائرے میں لانا چاہتی ہے تو اس میں کیا غلط ہے؟
خواجہ حارث نے کہا کہ نیب ترامیم سے سیکڑوں افراد کو کلین چٹ دی گئی۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ منتخب ایوان کے فیصلہ کا ہم غیر منتخب افراد ایک حد تک جائزہ لے سکتے ہیں۔
وکیل چیئرمین پی ٹی آئی نے دلائل دیے کہ عدالت پارلیمان کی مخصوص افراد کو فائدہ پہنچانے کی قانون سازی کا جائزہ لے سکتی ہے جس پرچیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ مخصوص افراد کیلئے قانون سازی ثابت کرنے کا پیمانہ کافی سخت ہے۔
خواجہ حارث نے کہا کہ اس حوالے سے عدالتی فیصلے موجود ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ نیب ترامیم کے ذریعے بین الاقوامی قانونی مدد کے ذریعے ملنے والے شواہد قابل قبول نہیں رہے۔
مخدوم علی خان نے کہا کہ ایف بی آر کو بیرون ممالک سے اثاثوں کی تفصیلات موصول ہوجاتی ہیں جس پرچیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ایف بی آرکو ملنے والی معلومات بطورثبوت استعمال نہیں ہوسکتیں۔
نیب ترامیم سے رواں سال فائدہ اٹھانے والوں کی تفصیلات سپریم کورٹ میں پیش، پڑھیں
وفاقی حکومت کے وکیل نے کہا کہ ملزم سے برآمد ہونے والا مواد بھی نیب نے ہی ثابت کرنا ہوتا ہے، بیرون ملک سے لائے گئے شواہد بھی ثابت کرنا نیب کی ہی ذمہ داری ہے، عدالتیں شواہد کو قانونی طور پر دیکھ کر ہی فیصلہ کرتی ہیں چاہے اپنے ملک کے کیوں نہ ہوں، سوئس عدالتوں نے آصف زرداری کیخلاف اپنے ملک کے شواہد تسلیم نہیں کیے تھے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ سوئس مقدمات تو زائدالمعیاد ہونے کی وجہ سے ختم ہوئے تھےعدم شواہد پر نہیں جس پر مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ اٹارنی جنرل نے سوئس حکام سے معاونت کس قانون کے تحت مانگی تھی کوئی نہیں جانتا۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ کیا قانون میں ملزم کیساتھ شکایت کنندہ کے حقوق بھی ہیں؟ جس پروفاقی حکومت کے وکیل نے دلائل مکمل کرتے ہوئے جواب دیا کہ آئین ملزم کو شفاف ٹرائل کا حق دیتا ہے شکایت کنندہ کا ذکر نہیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ہماری کریمنل جسٹس سسٹم میں سزا کاتناسب 70٪ ہے، ان 70 ٪مقدمات میں بھی آگے جاکرسیٹلمنٹ ہو جاتی ہے، پراسیکوشن اور تفتیش کا آپس میں تعاون نہیں، ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ قتل کے مقدمات میں 40 فیصد شکایت کنندگان کو انصاف نہیں ملتا، انصاف فراہم کرنا ریاست کو فریضہ ہے۔
وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ بہت سے مقدمات میں شکایت کنندگان خود ہی ملزم کو پہچاننے سے انکار کردیتے ہیں۔ انکار کی بڑی وجہ گواہان اسر شکایت کنندگان کو بریت کے بعد ملزمان کی جانب سے نشانہ بنایا جانا ہے۔
عدالت نے کہا کہ بعض اوقات پراسیکوشن کی ناکامی کی وجہ شکایت کنندگان بھی ہوتے ہیں۔ ایم ایک اے تحت باہر سے منگوائی گئی دستاویزات کی مجاز اتھارٹی تصدیق کرتی ہے۔
چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل خواجہ حارث نے جواب الجواب دیتے ہوئے کہا کہ اقوام متحدہ کا انسداد دہشتگری کا کنونشن نیب لا کا حصہ ہے، ٹوئنٹی ون جی کے تحت ایم ایل سے ذریعے منگوائی گئی دستاویزات کی دفترخارجہ تصدیق کرتا ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے خواجہ حارث سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آج آپ ساڑھے بارہ بجے تک دلائل مکمل کریں ہم سماعت مکمل کرنا چاہتے ہیں۔ جس پرایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے کہا کہ اٹارنی جنرل بھی آدھا گھنٹہ دلائل دینا چاہتے ہیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا ہے کہ پیر کو وہ کچھ وقت لیں گے۔
جسٹس اعجازِالاحسن نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ تحریری طور پر اپنی گذارشات دے دیں۔ پیرتک وقت نہیں تحریری طورپرمعروضات دے دیں ہم دیکھ لیں گے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا نیب کی زیر حراست ملزم کو دباؤ میں لاکر پلی بارگین کرنے کا تاثر موجود ہے۔
چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل نے دلائل دیے کہ یہ درست ہے کچھ مثالیں موجود ہیں جن میں دباؤ ڈال کر پلی بارگین کیا گیا۔
عدالت عظمٰی نے کہا کہ سندھ میں ایک کیس کی مثال موجود ہے، اس کیس میں پلی بارگین کرکے رقم طے کی گئی بعد میں تمام اثاثوں کا دوبارہ تخمینہ لگایا گیا، بتائیں پلی بارگین کی نیب شق میں کیسے بہتری لائی جا سکتی ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ترامیم کے بعد پلی بارگین کے تحت اقساط میں وصول کی گئی رقم بھی واپس کرنا ہوگی جب کہ چیف جسٹس پاکستان بولے کہ نیب کی زیرحراست ملزم کو دباؤ میں لاکر پلی بارگین کرنے کا تاثر موجود ہے۔
خواجہ حارث نے کہا کہ یہ درست ہے کچھ مثالیں موجود ہیں جن میں دباؤ ڈال کر پلی بارگین کیا گیا۔
نیب ترامیم کیخلاف کیس میں جسٹس منصورعلی شاہ نے اہم ریمارکس دیے، کہا کہ پارلیمانی جمہوری نظام آئین پاکستان کا مرکزی جزو ہے، کہا جا رہا ہے ایک پارلیمنٹ نے اپنے اوراہل خانہ کو فائدہ پہنچانے کیلئے قانون سازی کی، مجھے یوں محسوس ہو رہا ہے زور لگا لگا کر نیب ترامیم میں غلطی ڈھونڈی جا رہی ہے، ملک میں پارلیمنٹ اورعدلیہ کو اپنے اپنے طریقے سے چلنے دیں، اس وقت عام انتخابات سرپرہیں، میرے ذہن میں ایک ہی حل ہے کہ نئی پارلیمنٹ آکرترامیم کو ختم کردے، ورنہ ایسے تو پورا نظام ہی ختم جائے گا۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہر تو ہم ایک چھٹی پر بھی نوٹس لے سکتے ہیں، جسٹس منصور علی شاہ بولے کہ دیکھنا یہ بھی ہوگا وہ چٹھی کس نے بھیجی، پارلمینٹ کا فورم چھوڑکرعدالت آنے سے نیک نیتی کا سوال تو آئے گا۔
خواجہ حارث نے کہا کہ وہ انکا سیاسی فیصلہ تھا وہ مستعفی ہونے کا حق رکھتے ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ صدارتی معافی کی طرح نیب سے معافیاں دی جا رہی ہیں، بدنیت لوگوں کے ہاتھ میں اتھارٹی دی جاتی رہی، کئی لوگوں کے پاس منشیات اور دیگر ذرائع سے حاصل داغدار پیسہ موجود ہے، داغدار پیسے کا تحفظ کر کے سسٹم میں بہت سے لوگوں کو بچایا جاتا ہے، ریاست کی ذمہ داری ہے کہ منصفانہ اور فیئر معاشرہ قائم کرے، ریاست نے یقینی بنانا ہے کہ مجرمان آزاد نا گھومیں۔
انھوں نے ریمارکس دیے کہ معاشی مواقع چھیننے کی وجہ سے لوگ ملک چھوڑ کر جا رہے ہیں، معیشت کے شعبے کو سیاسی طاقتوروں کے لیے مختص کر دیا گیا ہے، بنیادی حقوق کے براہ راست تعلق کا سوال اٹھا رہے ہیں، ہم سمجھتے ہیں کہ بہت سے بنیادی حقوق نیب ترامیم سے متاثر ہو رہے ہیں، لوگ اپنے نمائندے کسی مقصد سے منتخب کرتے ہیں اور وہ مقصد آئین میں درج ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ دنیا بھرمیں آمدن سے زائد اثاثوں کے اصول کا استعمال کم کیا جاتا ہے، وہاں براہ راست ثبوتوں کو دیکھا جاتا ہے، ماضی میں نیب قانون کا غلط استعمال کیا جاتا رہا، قانون سازی کے ذریعے سرکاری افسران کو نیب سے تحفظ فراہم کیا گیا، آڈیٹر جنرل اہم آئینی ادارہ ہے، مضبوط آڈیٹرجنرل آفس صوبوں کے اکاؤنٹس کو بھی دیکھ سکتا ہے، نیب ترامیم سے براہ راست بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہوئی، نیب ترامیم سے بلاواسطہ حقوق متاثرہونے کا پہلو ضرورہے، بری طرز زندگی ہوگی یا مجرمانہ معاشرہ ہوگا تو لوگ چلے جائیں گے۔
سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کے خلاف کیس کی سماعت منگل تک ملتوی کردی۔
اگر آپ حالاتِ حاضرہ سے باخبر رہنا چاہتے ہیں تو ہمارےفیس بک پیج https://www.facebook.com/BOLUrduNews/ کو لائک کریں۔
ٹوئٹر پر ہمیں فالو کریں https://twitter.com/bolnewsurdu01 اور حالات سے باخبر رہیں۔
پاکستان سمیت دنیا بھر سے خبریں دیکھنے کے لیے ہمارے کو سبسکرائب کریں اور بیل آئیکن پر کلک کریں۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News