یورپی یونین کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے مشہور سوشل نیٹ ورک ’ایکس‘ کی جانب سے غلط معلومات پھیلانے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
عالمی خبر رساں ادارے کی خبر کے مطابق یورپی یونین کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے کہا کہ جانچ پڑتال کے بعد آن لائن پلیٹ فارم ’ایکس‘ جھوٹی اور غلط خبریں پھیلانے میں سب سے آگے ہے۔
یورپی کمیشن کی نائب صدر ویرا جورووا نے کہا کہ یورپی یونین کے ممالک اسپین، پولینڈ اور سلوواکیا میں تین ماہ تک کیے گئے تجزیے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ’ایکس‘ غلط معلومات کے خلاف معیارات پر یورپی یونین کے کوڈ آف پریکٹس میں بہت پیچھے رہ گیا ہے۔

’ایکس‘ سابقہ ٹوئٹر ان درجنوں کمپنیوں میں سے ایک ہے جو سوشل میڈیا نیٹ ورک چلا رہی ہے جس نے دیگر کمپنیوں کے ہمراہ 2018 میں لانچ ہونے پر رضاکارانہ کوڈ آف پریکٹس پر دستخط کیے تھے۔
لیکن ایلون مسک کی جانب سے ملکیت حاصل کرنے کے بعد کمپنی نے یورپی یونین کے کوڈ سے دستبرداری اختیار کرلی تھی۔

ویرا جورووا کا کہنا تھا کہ ’ایکس‘ جو پہلے ٹوئٹر تھا اب کوڈ کے تحت نہیں ہے اور یہ وہ پلیٹ فارم ہے جہاں غلط اور غلط معلومات پر مبنی پوسٹس کا تناسب سب سے زیادہ ہے۔
ان خیالات کا اظہار ویرا جورووا نے اس وقت کیا جب 44 کمپنیوں نے کوڈ آف پریکٹس پر دستخط کیے جن میں فیس بک کی میٹا، یوٹیوب کی مالک گوگل اور چینی ملکیت والی ٹک ٹاک بھی شامل ہیں۔
اگرچہ رضاکارانہ طور پر کوڈ کے پہلو یورپی یونین کے نئے قانون سازی کے کچھ حصوں کو نمایاں کرتے ہیں جسے ڈیجیٹل سروسز ایکٹ کے نام سے جانا جاتا ہے۔

یہ ایکٹ جو گزشتہ ماہ نافذ ہوا تھا اور جس کی خلاف ورزی کرنے والی کمپنیوں کے لئے عالمی ٹرن اوور کے چھ فیصد تک بھاری جرمانے کا خطرہ ہے۔
جورووا کا کہنا تھا کہ ایلون مسک جانتے ہیں کہ وہ کوڈ آف پریکٹس کو چھوڑ کر اپنی من مانی نہیں کر سکتے کیونکہ اب ہمارے پاس ڈیجیٹل سروسز ایکٹ مکمل طور پر نافذ ہے۔
یورپی کمیشن کی نائب صدر ویرا جورووا نے کہا کہ ’ایکس‘ کے لیے میرا پیغام یہ ہے کہ آپ کو سخت (ڈی ایس اے) قانون کی پاسداری کرنی ہوگی اور ہم دیکھیں گے کہ آپ کیا کر رہے ہیں.
اگر آپ حالاتِ حاضرہ سے باخبر رہنا چاہتے ہیں تو ہمارےفیس بک پیج https://www.facebook.com/BOLUrduNews/ کو لائک کریں
ٹوئٹر پر ہمیں فولو کریں https://twitter.com/bolnewsurdu01 اور حالات سے باخبر رہیں
پاکستان سمیت دنیا بھر سے خبریں دیکھنے کے لیے ہمارے کو سبسکرائب کریں اور بیل آئیکن پر کلک کریں
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News
