Advertisement
Advertisement
Advertisement

سپریم کورٹ نے فیض آباد دھرنا کیس میں عملدرآمد سے متعلق رپورٹ طلب کرلی

Now Reading:

سپریم کورٹ نے فیض آباد دھرنا کیس میں عملدرآمد سے متعلق رپورٹ طلب کرلی
سپریم کورٹ

سپریم کورٹ نے فیض آباد دھرنا نظرثانی کیس کی سماعت یکم نومبر تک ملتوی کرتے ہوئے تمام فریقین کو 27 اکتوبر تک تحریری معروضات جمع کرانے کا حکم دے دیا۔ 

سپریم کورٹ آف پاکستان میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس امین الدین خان پر مشتمل تین رکنی بینچ نے فیض آباد دھرنا نظر ثانی کیس کی سماعت کی تاہم سماعت کے آغاز میں ہی فریقین نے اپنی درخواستیں واپس لے لیں۔

سماعت کے آغاز میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ توقع تھی ایک نظر ثانی درخواست آئے گی لیکن تین آگئیں اور آج فیصلہ درست مان رہے ہیں تو نظر ثانی درخواستیں کیوں دائر کی گئیں۔

وفاق اس کیس میں دفاع نہیں کرنا چاہتا، اٹارنی جنرل

اٹارنی جنرل عثمان منصور نے عدالت کو بتایا کہ وفاق اس کیس میں دفاع نہیں کرنا چاہتا، فیض آباد دھرنا نظرثانی درخواست واپس لے رہے ہیں جس پر چیف جسٹس نے سوال کیا کہ اب کیوں کیس واپس لینا چاہتے ہیں؟ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ جب نظرثانی اپیل دائر کی گئی تھی اس وقت حکومت اور تھی۔

Advertisement

چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ وکیل تو بڑے باہمت ہوتے ہیں سچ ہی بول دیں، عدالت نے پولیس کے حوالے سے بھی اہم ہدایات دی تھیں، عدالتی فیصلے پر من و عن عمل ہوتا تو سانحہ جڑانوالہ نہ ہوتا جب کہ احتساب کے بغیر مستقبل روشن نہیں ہوسکتا، اب تک فیصلے پر عملدرآمد کیوں نہیں ہوا؟

اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ اب نظرثانی اپیل واپس ہو رہی ہے تو فیصلے پر عملدرآمد ہوگا۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا دھرنا مظاہرین کے درمیان کوئی معاہدہ ہوا تھا؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ جی بالکل معاہدہ ہوا تھا۔ جیف جسٹس نے پوچھا کہ وہ معاہدہ ابھی ہے یا نہیں؟ کیا دھرنا معاہدہ ریکارڈ کا حصہ ہے؟ فیض آباد دھرنے کا معاہدہ ریکارڈ پر لے کر آئیں۔

پیمرا کی درخواست واپس لینے کی استدعا 

دوسری جانب پیمرا کے وکیل نے نظرثانی کی اپیل واپس لے لی جس پر چیف جسٹس نے پوچھا کہ آپ کس کی ہدایات پر واپس لے رہے ہیں؟ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس میں کہا کہ یہ ریگولربینچ ہے خصوصی بینچ نہیں، نظرثانی درخواستیں فوری مقرر ہوتی ہیں مگر یہ 4 سال مقررنہ ہوئیں، فیصلہ دینے والے ایک جج ریٹائرڈ ہوچکے اس لیے اُس بینچ کے سامنے کیس نہیں لگا۔

پی ٹی آئی کی درخواست واپس لینے کی استدعا

پاکستان تحریک انصاف نے بھی درخواست واپس لینے کی استدعا کی۔ پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر نے عدالت میں کہا کہ ہم درخواست کی پیروی نہیں کرنا چاہتے جس پر چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا آپ کو درخواست واپس لینے کا اختیار ہے؟ اگر آپ فریق بننا چاہتے ہیں تو عدالت آپ کو اجازت دے گی، علی ظفر نے جواب دیا کہ نہیں ہم اس کیس میں فریق نہیں بننا چاہتے۔

Advertisement

عدالت کا وقت ضائع کیا گیا، چیف جسٹس 

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پہلے کہا گیا کہ فیصلہ غلطیوں سے بھرا پڑا ہے، اب کیا فیصلے میں غلطیاں ختم ہوگئیں، عدالتی وقت ضائع کیا گیا اور ملک کو بھی پریشان کیے رکھا، اب سب آ کر کہہ رہے ہیں کہ درخواستیں واپس لینی ہیں، ہم تو بیٹھے ہوئے تھے کہ شاید ہم سے فیصلے میں کوئی غلطی ہو گئی ہو۔

چیف جسٹس نے وکلاء کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ سچ انسان کو آزاد کر دیتا ہے، اللہ تعالی کا بھی حکم ہے کہ سچے لوگوں کا ساتھ دو، عدالتی فیصلے کو آپ سب نے سچا مان لیا اب دیکھتے ہیں آپ سچے لوگوں کا ساتھ دیتے ہیں یا نہیں، ہم تو امتحان سے پاس ہوگئے اب آپکی باری ہے۔

چاہتے ہیں اہم مقدمات کی سماعت براہ راست ہو، چیف جسٹس 

چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ چاہتے ہیں اہم مقدمات کی سماعت براہ راست ہو، پریکٹس اینڈ پروسیجر کو پائلٹ پراجیکٹ کے طور پر لے رہے ہیں، عدالت نے کمیٹی تشکیل دیدی ہے جو معاملے کا جائزہ لے رہی ہے۔

بعد ازاں عدالت نے ایم کیو ایم اور شیخ رشید کو وکلاء کی عدم موجودگی پر ایک اور موقع دیتے ہوئے کہا کہ شیخ رشید کے وکیل امام اللہ کنرانی کی سماعت ملتوی کرنے کی استدعا منظور کرتے ہیں، جو وکلاء آج پیش نہیں ہوئے آئندہ سماعت پر حاضری یقینی بنائیں، عدالت کو بتایا گیا کہ فیصلے کے کچھ نکات پر عملدرآمد ہوچکا ہے۔

Advertisement

سماعت یکم نومبر تک ملتوی 

سپریم کورٹ نے فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے پر عملدرآمد کی تفصیلات کی رپورٹس 27 اکتوبر تک طلب کرتے ہوئے  سماعت یکم نومبر تک ملتوی کردی۔

عدالتی حکمنامے میں کہا گیا کہ آج سب فریقین موجود نہیں تھے، فریقین کو حاضری کا ایک اور موقع دیا جاتا ہے، وزارت دفاع نے کہا کہ ہم نظرثانی درخواست واپس لے رہے ہیں، آئی بی اور پیمرا نے بھی نظر ثانی واپس لینے کی درخواست کی ہے، پی ٹی آئی نے بھی نظر ثانی واپس لینے کی درخواست کی ہے، اعجاز الحق کے وکیل نے تحریری بیان حلفی جمع کرانے کی مہلت مانگی، الیکشن کمیشن کے وکیل نے بھی نظرثانی واپس لینے کی استدعا کی، کچھ فریقین عدالت میں موجود نہیں، تمام فریقین کو ایک اور موقع فراہم کرتے ہیں اور اٹارنی جنرل عدالتی فیصلے پر عملدرآمد بارے رپورٹ دیں۔

عدالت نے مزید کہا کہ اٹارنی جنرل اور دیگر فریقین نے کہا فیصلہ پر عملدرآمد کو ریکارڈ پر لائیں گے، کچھ فریقین نے کہا عدالت نے فیصلے سے پہلے ان کو سنا نہیں، ایسے بیانات سرپرائزنگ تھے کیونکہ سماعت اوپن کورٹ میں تھی۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو کتنا وقت دیں جس پر اٹارنی جنرل نے 2 ماہ کا وقت دینے کی استدعا کی۔ عدالت نے اٹارنی جنرل کی 2 ماہ دینے کی استدعا مسترد کر دی۔

واضح رہے کہ الیکشن کمیشن، پی ٹی آئی ، ایم کیو ایم اور اعجازالحق نے فیض آباد دھرنا فیصلے کے خلاف نظر ثانی درخواستیں دائر کی تھیں جب کہ شیخ رشید کے وکیل نے مقدمے میں التوا کی درخواست دائر کررکھی ہے۔

Advertisement
Advertisement
مزید پڑھیں

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
 لاہور: شہری سے 17 لاکھ کی 4 وارداتوں میں ملوث سب انسپکٹر گرفتار
ایس پی عدیل اکبر کی مبینہ خودکشی، اعلیٰ سطح انکوائری کمیٹی متحرک
کراچی میں ای چالان کا آغاز، صرف 6 گھنٹوں میں سوا کروڑ روپے سے زائد کے چالان
بحیرہ عرب میں ڈپریشن کی تشکیل، کراچی میں تیز خشک ہواؤں کا امکان
آزاد کشمیر حکومت کی تبدیلی: مسلم لیگ ن کا اہم اجلاس آج طلب
وزیراعظم شہباز شریف کی سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سے ملاقات
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر