نواز شریف العزیزیہ ریفرنس میں بری
اسلام آباد ہائیکورٹ نے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے سابق وزیراعظم نواز شریف کو العزیزیہ ریفرنس میں بری کردیا
اسلام آباد ہائی کورٹ نے العزیزیہ ریفرنس احتساب عدالت کو بھیجنے کی نیب کی استدعا مسترد کرتے ہوئے نوازشریف کی اپیل منظور کرلی اورانھیں العزیزیہ ریفرنس کیس سے بری کردیا۔
العزیزیہ ریفرنس میں نواز شریف بری
اسلام آباد ہائیکورٹ میں نواز شریف کی پیلیں منظور
العزیز یہ ریفرنس دوبارہ احتساب عدالت بھیجنے کی نیب استدعا مسترد
براہ راست دیکھیں: https://t.co/w7GLQEhGrd #BOLNews #NawazSharif pic.twitter.com/lHqYviU80Z— BOL Network (@BOLNETWORK) December 12, 2023
اسلام آباد ہائی کورٹ میں سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کی العزیزیہ ریفرنس میں سزا کے خلاف اپیل پر چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس گل حسن اورنگزیب نے سماعت کی۔
سماعت کے آغاز میں وکیل امجد پرویز نے ٹرائل کورٹ کے فیصلے کے مختلف حصے پڑھ کر سنائے۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ نیب کچھ بھی کرسکتا ہے۔ آپ جو ڈاکیومنٹ پیش کررہے ہیں اس سے کچھ بھی ثابت نہیں ہوتا، یہ ڈاکومینٹ ثابت نہیں کرتا ہے کہ نوازشریف کا العزیزیہ مل سے تعلق تھا۔
ایڈووکیٹ امجدپرویزکے دلائل
نوازشریف کے وکیل امجد پرویزنے عدالت سے کہا کہ زیرکفالت کے ایک نکتے پر صرف بات کرنا چاہتا ہوں جس پرچیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ آپ کے دلائل تو مکمل ہوگئے ہیں۔ امجدپرویزایڈووکیٹ نے جواب دیا کہ میں صرف ایک نکتے زیر کفالت کے معاملے پر بات کرنا چاہتا ہوں۔
عدالت نے استفسارکیا کہ کیا نیب نے نواز شریف کے زیر کفالت سے متعلق کچھ ثابت کیا ہے؟ وکیل امجدپرویزنے جواب دیا کہ استغاثہ کےاسٹارگواہ واجد ضیا نےاعتراف کیا تھا کہ زیرکفالت سے متعلق کوئی شواہد موجود نہیں ہیں۔
چیف جسٹس اسلام آبادہائی کورٹ نے کہا کہ نیب نے کوئی ثبوت دیا کہ اپیل کنندہ کے زیرکفالت کون تھے؟ وکیل امجدپرویزنے بتایا کہ بے نامی کی تعریف سے متعلق مختلف عدالتی فیصلے موجود ہیں، ہم نے ٹرائل کورٹ کے سامنے بھی اعتراضات اٹھائے تھے، مجھے صرف دو منٹ چاہییں ہوں گے۔
عدالت نے استفسارکیا کہ کیا زیرکفالت ہونے کے حوالے کوئی ثبوت پیش نہیں کیا گیا؟ امجدپرویز نے جواب دیا کہ نیب کے مرکزی گواہ نے مانا کہ وہ کوئی ایک ثبوت بھی اکٹھا نہیں کرسکے۔
امجد پرویزنے سماعت کے دوران ٹرائل کورٹ کے فیصلے کے مختلف حصےپڑھ کرسنائے۔ عدالت نے استفسارکیا کہ کس بنیاد پر کہا گیا کہ ان شواہد کی بنیاد پربار ثبوت نواز شریف پر منتقل ہوگیا ہے۔
وکیل نوازشریف نے جواب دیا کہ پانامہ کیس میں سپریم کورٹ میں حسین نواز کی دائر کردہ متفرق درخواستوں پر انحصارکیا گیا ہے، اگر ان متفرق درخواستوں کو تسلیم کرلیا جائے تو پھر بھی ثابت نہیں ہوتا کہ نوازشریف اسٹیل مل کے کبھی مالک رہے ہوں۔ جن متفرق درخواستوں پر ٹرائل کورٹ نے انحصار کیا ہے، ٹرائل کورٹ نے ان متفرق درخواستوں کو ریکارڈ کا حصہ نہیں بنایا۔
امجدپرویزایڈووکیٹ نے دلائل دیے کہ ٹرائل کورٹ نے تین چیزوں پر انحصار کیا، ٹرائل کورٹ نے پانامہ کیس میں دائرسی ایم اے کو بنیاد بنایا، تینوں سی ایم اے حسن نواز، مریم نواز اور حسین نواز نے جمع کرائیں، نواز شریف کی جانب سے ایک بھی سی ایم اے جمع نہیں کرائی گئی، ٹرائل کورٹ نے فیصلے میں کہا کہ یہ جمع کرائی گئی سی ایم ایز مجرمانہ مواد ہیں، ایک بھی سی ایم اے ثابت نہیں کرتی کہ نوازشریف ان اثاثوں کے مالک ہیں۔
وکیل نوازشریف نے دلائل دیے کہ استغاثہ اپنا کیس ثابت کرنے میں ناکام ہوئے تو شریک ملزم کے بیان پر انحصار نہیں کیا جاسکتا، حسین نوازنے ٹی وی انٹرویو میں کہا کہ جائیداد کا والد سے تعلق نہیں، حسین نواز کے ٹی وی انٹرویو پرانحصارکیا گیا ہے، نواز شریف کی قومی اسمبلی میں تقریر پر بھی انحصار کیا گیا۔
دلائل کے دوران امجد پرویزکےمختلف عدالتی فیصلوں کے حوالے
چیف جسٹس عامرفاروق نے کہا کہ یہ جوسی ایم ایزدائر کی گئی تھیں ان میں کیا تھا؟ ایڈووکیٹ امجدپرویزنے جواب دیا کہ سی ایم ایز کو ریکارڈ پر رکھا ہی نہیں گیا، سی ایم ایزکے ساتھ منسلک دستاویزکوریکارڈ پررکھا گیا۔ ان سی ایم ایز میں یہ کہیں نہیں لکھا کہ نواز شریف کی ملکیت تھی، بلکہ یہ لکھا گیا تھا کہ نوازشریف کا تعلق نہیں، یہ ایک اصول ہے کہ کسی ایک مقدمے کے ثبوت کو کسی دوسرے مقدمے میں نہیں پڑھا جا سکتا، خاص طورپرجب دونوں مقدمات کی نوعیت الگ الگ ہو۔
مختلف عدالتی فیصلوں کے حوالے سے دیتے ہوئے وکیل نوازشریف نے کہا کہ عدالتی فیصلے میں کہا گیا مقدمات میں ملزم کو معصوم سمجھا جاتا ہے، فیصلے میں کہا گیا کہ مقدمات میں استغاثہ کو الزام ثابت کرنا ہوتے ہیں، فیصلوں کے مطابق بار ثبوت استغاثہ پرہوتا ہے نہ کہ ملزم پر، ملزم کو اپنی معصومیت ثابت کرنے کیلئے مجبورنہیں کیا جاسکتا، یہی قانون اثاثوں کے مقدمات میں بھی لاگو ہوا ہے، پراسیکیوشن نے ثابت کرنا تھا کہ پبلک آفس ہولڈر تھے، پراسیکیوشن نے آمدن اور اثاثوں کی قیمت بتانا تھی، پراسیکیوشن نے ثابت کرنا تھا کہ جن کے نام اثاثے ہیں وہ تو زیر کفالت ہیں، پراسیکیوشن نے ثابت کرنا تھا کہ بے نامی جائیداد بنائی گئی، اگراس متعلق کوئی ثبوت نہیں دیا گیا تو یہ آمدن سے زائد اثاثوں کا کیس نہیں بنتا، میرا کیس یہاں پرختم ہوتا ہے۔
نیب پراسکیوٹرکے دلائل
نوازشریف کے وکیل امجد پرویز کے دلائل مکمل ہونے کے بعد نیب پراسیکیوٹرنے دلائل دیے کہ سپریم کورٹ نے ریفرنس دائر کرنے کی ہدایت کی، سپریم کورٹ نے28 جولائی کے فیصلے میں ریفرنس تیار کرکے دائر کرنے کی ہدایت کی، نیب نے اپنی تفتیش کی، اثاثہ جات کیس میں تفتیش کے دو تین طریقے ہی ہوتے ہیں، ہم نے جو شواہد اکٹھے کیے وہ ریکارڈ کا حصہ ہیں، اس میں 161 کے بیانات بھی ہیں۔
نیب پراسکیوٹرنے نوازشریف پرعائد کی گئی فرد جرم کے کچھ حصے پڑھے جس پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے ہدایت کی کہ آپ ڈائیریکٹ ثبوت کے حوالے سے بتائیں، ثبوت کیا پیش کیے؟؟ العزیزیہ میں ایکوزیشن ہوئی؟ کیسے ہوئی؟؟؟ بنیادی طورپراس کیس میں العزیزیہ اورہل میٹل کے الزامات ہیں، العزیزیہ میں پہلے بتائیں کتنے پیسے بھیجے کیسے بھیجے کب فیکٹری لگی؟ یہ بتائیں کہ العزیزیہ سٹیل ملز اور ہل میٹل کب بنی تھیں؟ میں شاید آپ کو سمجھا نہیں پارہا ہے، کوئی ڈاکیومنٹ ہوگا نا جس سے پراپرٹی کی ویلیولی گئی ہوگی۔
نیب پراسکیوٹرنے جواب دیا کہ یہ ڈاکیومنٹ ان کا اپنا ہے جس پرچیف جسٹس عامرفاروق نے کہا کہ العزیزیہ اور ہل میٹل، دو پرائم الزامات ہیں۔ یہ بتائیے کہ العزیزیہ کب لگی، کیسے لگی؟ آپ پراسیکیوٹر تھے، بتائیں آپ کے پاس کیا شواہد تھے؟ آپ بتائیں کہ آپ نے کس بنیاد پر بار ثبوت ملزم پر منتقل کیا؟
انھوں نے نیب کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ قانون کو چھوڑیں، قانون ہم نے پڑھے ہوئے ہیں، آپ سیدھا مدعے پرآئیں۔ کوئی ریکارڈ پر ثبوت ہوگا؟ کوئی گواہ موجود ہوگا؟ ذرا نشاندہی کریں۔
نیب کے وکیل نے جواب دیا کہ فرد جرم عائد کرتے ہوئے عدالت نے ملزمان معلوم ذرائع لکھے، نوازشریف پرکرپشن اور کرپٹ پریکٹس کےالزام کے تحت فرد جرم عائد کی گئی، ایس ای سی پی، بنک اور ایف بی آر کے گواہ عدالت میں پیش ہوئے، یہ وائٹ کالر کرائم کا کیس ہے، پاکستان میں موجود شواہد اکٹھے کیے ہیں، بیرون ملک شواہد کے حصول کے لیے ایم ایل اے لکھے گئے۔
عدالت نے کہا کہ آپ یہ بتائیں وہ کون سے شواہد ہیں جن سے آپ ان کا تعلق کیس سے جوڑ رہے ہیں، جائیدادوں کی مالیت سے متعلق کوئی دستاویز تو ہوگا ؟ آپ بتائیے العزیزیہ کب لگائی گئی نوازشریف کے ساتھ کیا تعلق ہے؟
نیب کے پراسکیوٹرنے جواب دیا کہ ثبوت میں دستاویزان کی اپنی ہے، جس پرچیف جسٹس نے استفسارکیا کہ یہ کس کے حوالے سے دستاویز ہے؟ آپ نے پچھلی سماعت پرکہا تھا کہ جج کے حوالے سے تعصب کا معاملہ موجود ہے۔
وکیل نیب نے جواب دیا کہ جج کی برطرفی کے بعد اس فیصلے پر انحصار نہیں کرنا چاہیے، لاہورہائیکورٹ کے ایک کیس میں تفتیشی افسرکے سامنے پیش ہوا تو اس نے مس کنڈکٹ کو ثابت کیا، اب اگر العزیزیہ ریفرنس میں اپیل پر فیصلہ کیا جاتا ہے تواس کا مطلب ہے جج ارشد ملک کا فیصلہ درست تھا پھر تو اس جج کو پینشن اور مراعات بھی دی جانی چاہئیں۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ نیب آپ کو بہت رعایت دے رہا ہے ، سمجھ نہیں آرہی آپ اسے قبول کیوں نہیں کررہے؟ یہ کیسی رعایت ہے کہ ایک بے بنیاد کیس میں ڈھیٹوں کی طرح کھڑے ہوکردلائل دے رہے ہیں، وکیل نواز شریف آپ کو بہت اچھے سے پتہ ہے کہ نیب کیا ہے؟ ان سے لکھا ہوا ثبوت لینا بہت مشکل ہے۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ نیب کچھ بھی کرسکتا ہے۔ آپ جو ڈاکومنٹ پیش کررہے ہیں اس سے کچھ بھی ثابت نہیں ہوتا، یہ ڈاکومینٹ ثابت نہیں کرتا ہے کہ نوازشریف کا العزیزیہ مل سے تعلق تھا، جے آئی ٹی کا واجد ضیا خود کہہ رہا ہے کہ میرے پاس کوئی ثبوت نہیں، پراسیکیوشن نے کوئی ڈاکومینٹری ٹریل تو بنائی ہوگی نا؟ صرف مفروضے پر کہ بیٹے نے جائیداد بنائی کیس ثابت نہیں کیا جاسکتا، ثبوت فراہم کریں ہم ثبوت دیکھیں گے، ہم سب یہ جانتے ہیں کہ آئی او کے بیان کی کیا ویلیو ہوتی ہے۔
نیب کے پراسیکیوٹر نے کہا کہ میں اپنے آئی او نہیں جے آئی ٹی کے آئی او کا بیان پڑھ رہا ہوں، اس کے ساتھ ہی نیب نے العزیزیہ ریفرنس دوبارہ احتساب عدالت کو بھیجنے کی استدعا کردی جس پراسلام آباد ہائیکورٹ نے العزیزیہ ریفرنس دوبارہ احتساب عدالت کو بھیجنے کی نیب کی استدعا مسترد کردی۔
گزشتہ سماعت پربھی عدالت نے کیس واپس احتساب عدالت بھیجنے کی نیب استدعا مسترد کی تھی، عدالت نے نیب پراسیکوٹر کو جے آئی ٹی رپورٹ کا انالیسزپڑھنے کی ہدایت کی جس پر نیب پراسیکوٹرنے جے آئی ٹی رپورٹ کا انالیسز پڑھ کر سنائے۔
چیف جسٹس نے پوچھا کہ یہ سب فوٹو کاپیاں ہی ہیں؟ ان میں چٹھیاں ہیں، ان میں کچھ بھی نہیں ہے۔
نیب کے وکیل نے جواب دیا کہ ہمارے پاس دو ہی چیزیں ہیں، ایک فوٹوکاپیاں دوسرا جے آئی ٹی رپورٹ کا تجزیہ۔ اس کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق وزیراعظم نوازشریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل مل ریفرنس کا فیصلہ محفوظ کرلیا۔
کمرہ عدالت میں مسلم لیگ ن کے قائدنوازشریف اور دیگرلیگی رہنما بھی موجود تھے۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News
