
سائفر کیس؛ بانی پی ٹی آئی اور شا ہ محمود قریشی کی ضمانت منظور
سپریم کورٹ آف پاکستان نے سائفر کیس میں بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کی ضمانت منظور کر لی۔
تفصیلات کے مطابق سائفر کیس میں سابق چیئرمین پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کی درخواست ضمانت پر سماعت ہوئی۔ قائم مقام چیف جسٹس سردارطارق مسعود کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے سماعت کی۔
پراسیکیوٹر ایف آئی اے نے عدالت سے کہا کہ شاہ محمود قریشی کی درخواست ضمانت پر نوٹس نہیں ہوا جس پر قائم مقام چیف جسٹس نے کہا کہ ابھی نوٹس کر دیتے ہیں آپ کو کیا جلدی ہے۔
وکیل سابق چیئرمین پی ٹی آئی نے دلائل میں کہا کہ ٹرائل کورٹ نے جلدبازی میں 13 گواہان کے بیانات ریکارڈ کر لیے ہیں۔
قائم مقام چیف جسٹس نے کہا کہ سپیڈی ٹرائل ہرملزم کا حق ہوتا ہے، آپ کیوں چاہتے ہیں ٹرائل جلدی مکمل نہ ہو؟
سائفر کیس میں بانی چیئرمین پی ٹی آئی اور شا ہ محمود قریشی کی درخواست ضمانت منظور
براہ راست دیکھیں:https://t.co/d9lAsOIKwT#BOLNews #PTI #Imrankhan pic.twitter.com/EM0QnD0yii— BOL Network (@BOLNETWORK) December 22, 2023
سلمان صفدر نے دلائل دیے کہ اِن کیمرا ٹرائل کیخلاف آج ہائی کورٹ میں بھی سماعت ہے جبکہ وکیل حامد خان نے دلائل دیے کہ دوسری درخواست فرد جرم کیخلاف ہے۔
قائم مقام چیف جسٹس سردارطارق مسعود نے کہا کہ جو فرد جرم چیلنج کی تھی وہ ہائی کورٹ ختم کرچکی ہے۔ نئی فرد جرم پر پرانی کارروائی کا کوئی اثر نہیں ہوگا۔
وکیل حامد خان نے کہا کہ ٹرائل اب بھی اسی چارج شیٹ پر ہو رہا ہے جو پہلے تھی، جس پرعدالت نے کہا کہ 23 اکتوبر کو چارج لگانے کی کاروائی کو ہائیکورٹ ختم کر چکی ہے، ابھی اس حکم کو ختم کردیں تو کیا ہوگا، التوا مانگ رہے تو پھردونوں مقدمات میں ہوگا، چارج شیٹ وہی ہوگی لیکن چارج فریمنگ کا حکم نیا ہے۔
جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ اس حکم پر بحث کر رہے ہیں جو عدالت کے سامنے ہی نہیں۔
وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ ضمانت کے مقدمہ میں ہماری کچھ تشویش ہے جس کے بعد عدالت نے چارج فریمنگ سے متعلق کیس ملتوی کردیا۔
سپریم کورٹ نے شاہ محمود قریشی کی درخواست ضمانت پر حکومت اور ایف آئی اے کو نوٹس جاری کر دیا اورسرکاری وکیل کو شاہ محمود قریشی کی درخواست ضمانت پر بھی آج ہی دلائل دینے کی ہدایت کی۔
قائم مقام چیف جسٹس سردار طارق نے کہا کہ پرانی چارج شیٹ کے خلاف درخواست غیرموثر ہوچکی ہے، نئی فرد جرم پر اعتراض ہے تو ہائی کورٹ میں چیلنج کریں۔
وکیل حامد خان نے استدعا کی کہ مناسب ہوگا آج ہائی کورٹ کے فیصلے کا انتظار کیا جائے جبکہ سلمان صفدرنے کہا کہ ایسا نہ ہو آئندہ سماعت تک ٹرائل مکمل ہوجائے، شام چھ بجے تک ٹرائل چلتا ہے، عدالتی اوقات کار کے بعد بھی ٹرائل چل رہا ہوتا ہے۔
عدالت نے کہ لوگ کہتے ہیں ہمارے کیس چلتے نہیں، آپ کا چل رہا تو آپ کواعتراض ہے، فرد جرم والی درخواست غیرموثر ہونے پر نمٹا دیتے ہیں۔
وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ حامد خان درخواست میں ترمیم کر چکے ہیں اب اسے نئی درخواست کے طور پر لیا جائے۔
جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ ترمیم شدہ درخواست بھی ہائیکورٹ سے پہلے ہم کیسے سن سکتے ہیں؟ سائفر کیس میں 13دسمبر کی فردجرم چیلنج ہی نہیں کی گئی۔
وکیل حامد خان نے جواب دیا کہ آج کی ہائی کورٹ کارروائی کا انتظار کیا جائے۔
قائم مقام چیف جسٹس نے کہا کہ ہائی کورٹ بری کر دے تو بھی اس درخواست پر کچھ نہیں ہوسکتا، فرد جرم کیخلاف درخواست غیرمؤثرہوچکی ہے۔
حامد خان نے کہا کہ آج التوا دیدیں آئندہ سماعت پر شاید واپس لے لوں جس پرعدالتِ عظمٰی نے کہا کہ کیس ملتوی ہوا تو ضمانت والا بھی ساتھ ہی ہوگا۔ اس کے ساتھ ہی سائفر کیس میں فرد جرم عائد کرنے کےخلاف درخواست پر سماعت ملتوی کر دی گئی اورعدالت نے وائس چیئرمین پی ٹی آئی شاہ محمود قریشی کی درخواست ضمانت پر کارروائی شروع کی۔
وکیل سلمان صفدرکے دلائل
بانی چئیرمین پی ٹی آئی کی درخواست ضمانت پر سلمان صفدر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سائفر کیس میں ایف آئی آر 17 ماہ کی تاخیر سے درج ہوئی، سیکریٹری داخلہ یوسف نسیم کھوکھرنے ایف آئی آر درج کروائی، پہلے فارن فنڈنگ کیس بنانے کی کوشش ناکام ہوئی، توشہ خانہ کیس میں سزا معطلی ہوئی، اسی شام سائفر میں گرفتاری ڈال دی گئی، سائفر میں طلبی کے نوٹس سات ماہ تک لاہور ہائیکورٹ سے معطل رہے، ایف آئی اے نے حکم امتناع کیخلاف کوئی کوشش نہیں کی۔
چیف جسٹس سردار طارق نے کہا کہ حکم امتناع تو آپ نے لے رکھا تھا پھر تاخیر تو آپ کے سبب ہوئی جس پر وکیل نے جواب دیا کہ طلبی کے نوٹسز میں کوئی ٹھوس چیز تھی ہی نہیں اس لیے معطل ہوئے، ایف آئی آر میں اعظم خان پر سائفر کے میٹنگ منٹس اور اس کے مندرجات خلاف حقائق تحریر کرنے کا الزام ہے، ایف آئی اے کے مطابق تحقیقات کے بعد مقدمہ درج کیا گیا ہے، ایف آئی آر میں کردار کے تعین کے باوجود اعظم خان کو گرفتار کیا گیا نہ اسد عمر کو۔
جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ ایف آئی اے کو کیسے معلوم ہوا کہ بنی گالا میں میٹنگ ہوئی تھی؟ وکیل نے جواب دیا کہ یہ ایف آئی اے ہی بتا سکتا ہے، سائفر وزارت خارجہ سے آیا، پراسیکیوشن کے مطابق ان کا سیکیورٹی سسٹم رسک پرڈالا گیا، وزارت خارجہ نے سائفر سے متعلق کوئی شکایت نہیں کی، سابق وزیراعظم کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، رانا ثنااللہ نے بطور وزیر داخلہ ایف آئی اے کو تحقیقات کرنے کا کہا، آفیشل سیکریٹ ایکٹ کا دائرہ وسیع کرکے سابق وزیراعظم پر لاگو کیا گیا، ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ سائفر کا مقدمہ بنا ہے، سائفر وزرات خارجہ کے پاس آتا ہے لیکن وزرات خارجہ اس میں شکایت کنندہ ہی نہیں۔
وکیل سلمان صفدرنے کہا کہ اس کیس میں تو آفیشل سیکرٹ ایکٹ لاگو ہی نہیں ہوتا، میں واضح کرتا ہوں کہ سائفر کسی کے ساتھ شیئر نہیں کیا گیا، سائفرڈی کلاسیفائی ہونے کے بعد اسپیکر قومی اسمبلی، سپریم کورٹ، صدر مملکت سمیت دیگر اہم شخصیات کے ساتھ شیئر کیا گیا۔
دوران سماعت سلمان صفدرنے سپریم کورٹ کے دو عدالتی فیصلوں کا حوالہ بھی دیا۔
جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ اس بات پرتوآپ متفق ہیں کہ حساس معلومات شیئر نہیں ہوسکتی۔ وکیل نے جواب دیا کہ دیکھنا یہی ہے کہ حساس معلومات شیئرہوئی بھی ہیں یا نہیں، سابق وزیراعظم کےخلاف سزائے موت یا عمر قید کی دفعات عائد ہی نہیں ہوتیں۔
قائم مقام چیف جسٹس نے کہا کہ سائفر کسی سے شیئر نہیں کیا لیکن اسے آن ایئر تو کیا ہی گیا ہے، جس پر سلمان صفدرنے جواب دیا کہ وزارت خارجہ سے سائفر اعظم خان کو بطور پرنسپل سیکرٹری موصول ہوا تھا، جس میٹنگ میں سائفر کا الزام ہے وہ 28 مارچ کو ہوئی۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ اصل سائفر تو وزارت خارجہ میں ہے اگر وہ باہر گیا ہے تو یہ دفتر خارجہ کا جرم ہے، سائفر کو عوام میں زیر بحث نہیں لایا جا سکتا۔ وکیل نے جواب دیا کہ اعظم خان نے کہا انکی موجودگی میں ہی بنی گالہ میں وزارت خارجہ نے بریفننگ دی۔
قائمقام چیف جسٹس سردار طارق نے کہا کہ کیا سیکریٹری خارجہ ملزم ہیں یا گواہ؟ ڈپٹی اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ اس وقت کے سیکریٹری خارجہ گواہ ہیں۔
سماعت کے دوران سلمان صفدر نے سابق وزیراعظم اور وزیرخارجہ کا جلسے میں خطاب کا متن پڑھا جس پر جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ بہترہوگا آپ دلائل ضمانت تک محدود رکھیں، پوری دنیا میں سفیر اپنے ممالک کو سائفر بھیجتے ہیں، انہیں کبھی پبلک میں زیر بحث نہیں لایا جاتا۔
قائم مقام چیف جسٹس سردار طارق مسعود نے شاہ محمود قریشی کی تقریرکا متن سن کر ریمارکس دیے کہ وزیرخارجہ سیانا تھا اس نے وزیراعظم کو آگےکردیا، وزیرخارجہ نے وزیراعظم کو کہہ دیا تم جانو تمہارا کام جانے۔
وکیل علی بخاری کے دلائل
وکیل سلمان صفدرکے دلائل مکمل ہونے کے بعد شاہ محمود قریشی کے وکیل علی بخاری نے دلائل کا آغازکرتے ہوئے کہا کہ شاہ محمود قریشی پرنہ سائفر رکھنے کا الزام ہے نہ ہی کسی سے شیئر کرنے کا، شاہ محمود قریشی پر واحد الزام تقریرکا ہے جس کا جائزہ عدالت پہلے ہی لے چکی ہے، شاہ محمود قریشی دس دن ریمانڈ پر رہے، کوئی برآمدگی نہیں ہوئی۔
جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ کیا شاہ محمود قریشی انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں؟ وکیل نے جواب دیا کہ شاہ محمود قریشی آج کاغذات جمع کرائیں گے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ انتخابات میں حصہ لینا ہی ضمانت کیلئے اچھی بنیاد ہے۔ سائفر کی ایک ہی اصل کاپی تھی جو دفتر خارجہ میں تھی، سائفر دفتر خارجہ کے پاس ہے تو باہر کیا نکلا ہے؟
پراسیکیوٹر رضوان عباسی کے دلائل
پراسیکیوٹر رضوان عباسی نے دلائل دیے کہ حساس دستاویزات کو ہینڈل کرنے کیلئے رولز موجود ہیں جس پرجسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ رولز کی کتاب کہاں ہیں؟
قائم مقام چیف جسٹس سردار طارق مسعود سائفرکا مطلب کیا ہے؟ جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ سائفر کا مطلب ہی کوڈڈ دستاویز ہے ڈی کوڈ ہونے کے بعد وہ سائفر نہیں رہتا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سائفر جب ڈی کوڈ ہوگیا توسائفرنہیں رہا۔ جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ سائفر کے حوالے سے قانون دکھائیں۔
راجہ رضوان عباسی نے کہا کہ سیکریٹری خارجہ نے میٹنگ میں یہ بات کہی تھی، جس پر جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ سیکریٹری خارجہ نے تحریری طورپرکیوں نہیں آگاہ کیا؟
قائم مقذم چیف جسٹس سردار طارق مسعود نے ریمارکس دیے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے توفیصلہ ہی کردیا ہے ماشاء اللہ، اب خالی رسی ہی رہ گئی ہے، یہ بتائیں کہ سائفر دستیاب نہیں تھا تو سلامتی کمیٹی کے دو اجلاس کیسے ہوئے، شہباز شریف نے کیوں نہیں پوچھا کہ وہ سائفر تو موجود ہی نہیں۔
پراسیکیوٹرراجہ رضوان عباسی نے جواب دیا کہ سیکریٹری خارجہ کا بیان ہے کہ انہوں نے اجلاس میں اپنی ماسٹر کاپی پیش کی۔بھارت میں سائفر لہرانے پر بہت واویلا ہوا۔
جسٹس منصورعلی شاہ نے پوچھا کہ پاک امریکا تعلقات خراب ہونے سے کسی اور ملک کا فائدہ ہوا اسکی تفتیش کیسے ہوئی؟ تعلقات خراب کرنے کا تو ایف آئی آر میں ذکر ہی نہیں۔
جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ کیا وزرائے اعظم کو وقت سے پہلے باہر نکالنے سے ملک کی جگ ہنسائی نہیں ہوتی؟ کیا وزرائے اعظم کو وقت سے پہلے ہٹانے پر بھی آفیشل سیکریٹ ایکٹ لگے گا؟
جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ انڈیا میں ہماری جگ ہنسائی تو کسی بھی وجہ سے ہوسکتی ہے اس پر کیا کرینگے؟
سپریم کورٹ نے سائفر کیس میں بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کی ضمانت منظورکرتے ہوئے دونوں ملزمان کو دس دس لاکھ روپے کے مچلکے جمع کرانے کا حکم دے دیا۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News