مقبوضہ کشمیر میں کنن پوش پورہ اجتماعی زیادتی کے سانحے کو33 سال مکمل
سری نگر: مقبوضہ کشمیر میں کنن پوش پورہ اجتماعی زیادتی کے سانحے کو33 سال مکمل ہوگئے ہیں۔
23 فروری 1991 کو قابض بھارتی فوج نے ضلع کپواڑہ کے گاوٴں کنن پوش پورہ میں 100 سے زائد بے گْناہ کشمیری خواتین کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی۔
اجتماعی زیادتیاں آزادی پسندوں کی طرف سے بھارتی فوج پر فائرنگ کے جواب میں انتقامانہ کارروائیوں کے طور پر کی گئیں۔
17 مارچ 1991 کو چیف جسٹس جموں و کشمیر کے تحقیقاتی کمیشن کے سامنے 53 کشمیری خواتین نے بھارتی فوجیوں کی طرف سے عصمت دری کا اعتراف کیا۔
15 سے 21 مارچ 1991 کے دوران ہونے والے طبی معائنوں میں 32 کشمیری خواتین پر تشدد اور جنسی زیادتی ثابت ہوئی۔
1992 میں امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی شائع کردہ رپورٹ میں بھی کہا گیا کہ کنن پوش پورہ سانحے میں بھارتی فوج کے خلاف اجتماعی زیادتی کے ناقابلِ تردید ثبوت موجود ہیں۔
مقامی لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت انصاف کے حصول کے لئے کنن پوش پورہ تحقیقاتی کمیشن تشکیل دیا جسے بھارتی حکومت نے جَبری ختم کردیا۔
بھارتی حکومت نے سانحہ کو پروپیگنڈہ قرار دے کر بھارتی فوج کو بری الزمہ قرار دے دیا تھا، بھارتی فوج نے سانحے کو چھپانے کی خاطر پولیس حکام کے متعدد بار تبادلے بھی کیے۔
اب تک عالمی حقوق کی بین الاقوامی تنظیمیں بھارتی حکومت سے سانحہ کی تحقیقات کا کئی بار مطالبہ کرچکی ہیں جب کہ آج تک انسانی تاریخ کے بدترین سانحے کے متاثرین کو انصاف نہ ملنا نام نہاد بھارتی انصاف کے منہ پر طمانچہ ہے۔
32 سال گْزرنے کے باوجود کنن پوش پورہ کے مجرمان بھارتی ریاستی سرپرستی میں آزاد ہیں، بھارتی حکومت نے فوج کو کشمیر میں عصمت دری کو بطور ہتھیار استعمال کرکے تحریکِ آزادی کو کْچلنے کی کھلی اجازت دے رکھی ہے۔
جولائی 1990ء میں کشمیر میں کالا قانون عائد کیا گیا جسے بھارتی فوج کشمیریوں پر مظالم کے لئے استعمال کرتی ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ یہ کالا قانون مقبوضہ جموں کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا باعث بن رہا ہے، کالے قانون کے باعث مقبوضہ جموں و کشمیر میں تعینات بھارتی فوج کو انسانی حقوق کی دھجیاں بکھیرنے کا پورا موقع فراہم کیا گیا ہے۔
خیال رہے کہ اس قانون کے باعث بھارتی فوج کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ خواتین کی عصمت دری کریں یا نہتے کشمیریوں کو گولیوں سے بھون دیں۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ بھارتی فوجیوں کے خلاف کبھی کوئی شفاف انکوائری نہیں کی گئی بلکہ انہیں انسانیت کے کھلواڑ کے لئے کھلی چھوٹ دی گئی ہے۔
تنظیموں کا کہنا ہے کہ خواتین کی عصمت دری میں ملوث کبھی کسی فوجی اہلکار کے خلاف کوئی انکوائری نہیں ہوئی نہ ہی کسی کو ابھی تک سزا ہوئی۔
کنن پوشپورہ اجتماعی عصمت دری، شوپیاں میں عصمت دری اور دہرے قتل اور کٹھوعہ میں کمسن بچی سے زیادتی اور قتل جیسے واقعات بھارتی فورسز کے ظالمانہ چہرے کی عکاسی کرتے ہیں۔
1989 سے اب تک 11 ہزار سے زیادہ عصمت دری اور اجتماعی زیادتیوں کے واقعات رونما ہوچکے ہیں۔
کیا عالمی حقوق کی تنظیمیں اجتماعی زیادتی کے بدترین سانحہ کو بغیر تحقیقات کے نظر انداز کر دیں گی؟ پاکستان میں خواتین کے حقوق کا پرچار کرنے والی نام نہاد تنظیمیں کنن پوش پورہ سانحے پر خاموش کیوں ہیں؟۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News
