
سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججز کے خط پر ازخود نوٹس کیس کا تحریری حکم نامہ جاری کر دیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے پہلی سماعت کا تحریری حکم نامہ جاری کرتے ہوئے تجاویز طلب کر لی ہیں کہ اس معاملے پرعدلیہ کا بطور ادارہ ردعمل کیا ہوگا؟
جسٹس اطہر من اللہ نے حکم نامے کے پیراگراف 12 سے عدم اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ پیراگراف 1 سے 12 تک سے اتفاق کے لیے خود کو قائل نہیں کر سکا۔
اس حوالے سے پاکستان بار کونسل، سپریم کورٹ بار اور وفاق سے تجاویز طلب کرلی ہیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اس معاملے پر وزیراعظم کو طلب کیا جا سکتا ہے یا نہیں اس پرغورکرنا ہے، وزیراعظم کو طلب کرنے سے متعلق فل کورٹ نے غور کرنا ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ کے مطابق کمیشن بنانے سے آزادی متاثر ہوتی ہے یا نہیں ابھی طے ہونا ہے اور جو سوال عدالت کے سامنے ہے ان پر ابھی رائے دینا مناسب نہیں ہے۔
تحریری حکم نامے میں جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ ججز کا خط بتاتا ہے کہ وہ ہر متعلقہ فورم پر معاملہ اٹھاتے رہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ معاملے کی سنجیدگی کے باوجود ادارے نے جواب نہیں دیا، ججز نے وہی کیا جو ہر جج حلف کے مطابق کرنے کا پابند ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ ہائیکورٹ کے 6 ججز پرشک کی کوئی وجہ موجود نہیں ہے، ہائیکورٹ کے ججز نے آئین کی پاسداری کاحلف اٹھایا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سیاسی اثرات رکھنے والے کیسز میں مداخلت کوجھٹلا نہیں سکتے، اور ذوالفقارعلی بھٹو ریفرنس میں عدالت خود یہ مان چکی ہے، مداخلت کس حد تک ہے یہ دکھانے کیلئے اصغر خان کیس کافی ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ جسٹس یحیحیٰ آفریدی نے خود کو سماعت کرنے والے بینچ سے الگ کر لیا
جسٹس یحیحیٰ آفریدی نے کہا کہ ججز نے خط سپریم جوڈیشل کونسل کو رائے لینے کیلئے لکھا ہے، سوموٹو سے ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کے اختیار میں مداخلت ہو گی۔
جسٹس یحیحیٰ آفریدی نے مزید کہا کہ مناسب ہوگا سپریم جوڈیشل کونسل ہی خط پرمثبت جواب دے۔
عدلیہ میں مبینہ مداخلت پر ازخود نوٹس کی سماعت 30 اپریل تک ملتوی کر دی گئی ہے۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News