Advertisement
Advertisement
Advertisement

2018 اور2024 کےانتخابات کی بنیاد پرمخصوص نشستوں کی تقسیم کیسے کی تھی؟ الیکشن کمشن سے فارمولا طلب و دستاویزات طلب 

Now Reading:

2018 اور2024 کےانتخابات کی بنیاد پرمخصوص نشستوں کی تقسیم کیسے کی تھی؟ الیکشن کمشن سے فارمولا طلب و دستاویزات طلب 
سپریم کورٹ

2018 اور2024 کےانتخابات کی بنیاد پرمخصوص نشستوں کی تقسیم کیسے کی تھی؟ الیکشن کمشن سے فارمولا طلب و دستاویزات طلب 

2018 اور2024 کےانتخابات کی بنیاد پرمخصوص نشستوں کی تقسیم کیسے کی تھی؟ سپریم کورٹ آف پاکستان نے مخصوص نشستوں سے متعلق کیس میں الیکشن کمشن سے فارمولا اوردستاویزات طلب کرلیں۔

سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان قاضی فائزعیسیٰ کی سربراہی میں 13 رکنی فل کورٹ نے سنی اتحادکونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت کی۔ سنی اتحاد کونسل اورالیکشن کمیشن کے وکلا نے دلائل دیے۔ پی ٹی آئی نے بھی کیس میں فریق بننے کی درخواست دائر کر رکھی ہے۔

دوران سماعت الیکشن کمیشن کے وکیل سکندربشیرنے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن ایکٹ کے تحت پارٹی سے وابستگی سرٹیفکیٹ اورفارم 66 ریکارڈ  پر ہیں،  تحریک انصاف نے پارٹی سے  وابستگی سرٹیفکیٹ اور فارم 66 جاری کیے جن پرچیئرمین گوہرعلی خان نے دستخط کیے۔

Advertisement

وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ وابستگی سرٹیفکیٹ اورفارم 66 جاری ہوئے توپی ٹی آئی نےانٹراپارٹی انتخابات نہیں کرائےتھے، پی ٹی آئی نے فارم66 بائیس دسمبر اور پارٹی سے وابستگی سرٹیفکیٹ 13جنوری کو جاری کیے جب کہ پی ٹی آئی کو پارٹی سے وابستگی سرٹیفکیٹ کاغذات نامزدگی کے ساتھ لگانے چاہیے تھے.

جسٹس جمال مندوخیل نے وکیل الیکشن کمیشن سے سوال کیا کہ بتائیں غلطی کہاں اور کس نے کی؟ جسٹس منیب نے پوچھا  آپ کہہ رہے ہیں کہ سرٹیفکیٹ غلط ہیں کیونکہ تب تک چیئرمین منتخب نہیں ہواتھا؟ اس پر سکندر بشیر نے جواب دیا کہ کاغذات نامزدگی میں بلینک کا مطلب آزاد امیدوار ہے، سرٹیفکیٹ جمع کراتے وقت جب چیئرمین منتخب نہیں ہوئے تو کاغذات نامزدگی درست نہیں۔

جسٹس محمدعلی مظہر  نے کہا کہ  یعنی امیدوار نے جو ظاہر کیا اسی پر کاغذات نامزدگی منظور ہوئے، جسٹس نعیم افغان نے سوال کیا آپ نے کاغذات نامزدگی میں پارٹی اسٹیٹس دیکھا یا خود ہی آزاد ڈیکلیئر کردیا؟ اس پر الیکشن کمیش کے وکیل نے بتایا کہ میں نے خود سے آزاد امیدوار ڈیکلیئر نہیں کیا،کاغذات نامزدگی کو دیکھا، حامدرضا کی درخواست دیکھی جس میں کہا گیا کہ آزاد امیدوار ڈیکلیئر کردیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ پی ٹی آئی انٹراپارٹی انتخابات کا معاملہ تو کئی سال قبل سے آرہا تھا، تحریک انصاف بار بار انٹراپارٹی انتخابات کے لیے وقت مانگ رہی تھی، بطور وزیراعظم درخواست دی کہ انٹراپارٹی انتخابات کے لیے سال دےدو، تسلیم شدہ بات ہے پی ٹی آئی سال کا وقت لینے کے باوجود انٹراپارٹی انتخابات نہیں کروا سکی، سپریم کورٹ پر مت ڈالیں الیکشن کمیشن پہلے یہ دیکھ سکتا تھا۔

اٹارنی جنرل کے دلائل

Advertisement

وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع تو اٹارنی جنرل منصوراعوان نے دلائل دیے اوروفاق کا مؤقف پیش کرتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 51 اشارہ کرتا ہے کہ مخصوص نشستوں کا مطلب خواتین کو با اختیار بناناہے، 2002 میں پہلی مرتبہ خواتین کو قومی، صوبائی، سینیٹ میں نمایندگی ملی۔

خواتین کی نمایندگی سے متعلق اٹارنی جنرل منصوراعوان نے ماضی کی قومی اسمبلیوں میں سیٹیں بتائیں، کہا کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد 60 مخصوص نشستوں کا مطلب نمایندگی کو بڑھانا ہے، آرٹیکل 51 کا مطلب خواتین کے ساتھ غیر مسلمانوں کی نمایندگی بھی اسمبلیوں میں دینا ہے۔

اٹارنی جنرل منصوراعوان نے سپریم کورٹ کو سینیٹ، قومی اسمبلی میں ووٹنگ کے طریقہ کارسے آگاہ کیا، کہا کہ سیاسی جماعت ہی ووٹ حاصل کرکے مخصوص نشستوں کے لیے اہل ہوتی ہیں۔

جسٹس محمدعلی مظہرنے اٹارنی جنرل منصوراعوان کو ہدایت کی کہ پارٹی کے مطابق مخصوص نشستوں کا فارمولا بتائیں۔ جسٹس عائشہ ملک نے اٹارنی جنرل منصوراعوان سے سوالات کیے کہ 2002 سے کیا ایک ہی فارمولا استعمال ہورہا؟ کیا مستقل مزاجی سے ایک ہی فارمولا استعمال ہورہا؟ الیکشن کمیشن کب سے فارمولا استعمال کررہا؟ قانون کے بدلنے کے بعد کیا فارمولا تبدیل نہیں ہوا؟

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آئین لوگوں کے لیے بنائے جاتے ہیں، وکلا اورججز کے لیے آئین نہیں بنائے جاتے، آئین لوگوں کی پراپرٹی ہے، آئین ایسے بنایا جاتا تاکہ میٹرک کا طالب علم بھی سمجھ جائے۔

جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ کاش میرا چیف جسٹس جیسا دماغ ہوتا، پڑھتے ہی سب کچھ سمجھ جاتا لیکن میں عام آدمی ہوں۔ کمزورججز کو بھی ساتھ لے کر چلیں نا۔ اس جملے کے بعد عدالت میں قہقہے لگ گئے۔

Advertisement

جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ عدالت چاہتی جس سیاسی جماعت کا جو حق ہے اسے ملے، کسی کو کم زیادہ سیٹیں نہ چلی جائیں۔ اس پرچیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ حق کیا ہے؟ سپریم کورٹ نے آئین کو دیکھنا ہے۔

جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ فارمولا تو الیکشن کمیشن کے ہاتھ میں ہے، جس کو الیکشن کمیشن چاہے آزادامیدوار بنا دے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا کیا الیکشن کمیشن کا فیصلہ آزادامیدواروں نے چیلنج کیا؟ کیا ہمارے سامنے کوئی آزادامیدوار آیا؟

اٹارنی جنرل منصوراعوان نے جواب دیا کہ سنی اتحادکونسل کہتی آزادامیدوار سنی اتحاد میں شامل ہوناچاہتے جس کے بعد سنی اتحاد مخصوص نشستیں حاصل کرنے کی اہل ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائزعیسٰی نے کہا کہ ہم باریکیوں میں چلے جاتے ہیں، الیکشن کمیشن خودمختار آئینی ادارہ ہے جو کی کوئی حیثیت سمجھتا ہی نہیں، اگر دھاندلی ہوئی تو جب تک کیس نہیں آئےگا ہم نظرثانی نہیں کرسکتے۔ ہرانتخابات میں ایک ہی بات ہوتی، کسی نے آج تک نہیں کہا کہ الیکشن ٹھیک ہوا، ہارنے والا کہتاہے انتخابات ٹھیک نہیں ہوئے، ہم ادارے کی قدر نہیں کرتے۔ کوئی غیرآئینی کام ہوا ہے تو سپریم کورٹ بالکل اڑا دے گی۔

مخصوص نشستوں کے کیس کی سماعت کل صبح ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کردی گئی۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ کل 1:30 بجے تک سماعت کرینگے کیونکہ جوڈیشل کمیشن کا اجلاس ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ کل دلائل مکمل کرلونگا۔

جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ چیف صاحب کہہ رہے الیکشن کمیشن اتنا زبردست ادارہ ہے۔ جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن اگرکسی سیاسی جماعت کو فیصلے کی غلط تشریح کرکے نااہل کردے تو اصل سوال یہ ہے جس کو دیکھنا چاہیے۔

Advertisement
Advertisement
Advertisement
مزید پڑھیں

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
سندھ کے 14 اضلاع میں ضمنی بلدیاتی انتخابات کب ہوں گے؟ اعلان ہوگیا
جعلی ڈگری کیس؛ جمشید دستی کو 7 سال قید کی سزا
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا 80 واں اجلاس؛ وزیر اعظم لندن سے نیویارک روانہ
سیلاب دو دلوں کو ملنے سے نہ روک سکا، دلہا کشتی پر دلہن بیاہ لایا
وزیراعظم کی تجارت اور سرمایہ کاری کیلئے قابل عمل منصوبوں پر کام کی ہدایت
بلوچستان؛ فیلڈ مارشل عاصم منیر کی ہدایات پر منشیات کیخلاف فیصلہ کن مہم کا آغاز
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر