میں چاہتا ہوں ایسا آرڈر دوں کہ کسی کو برا نہ لگے، چیف جسٹس عامر فاروق
چیف جسٹس عامرفاروق نے کہا ہے کہ مجھے وقت دیں، میں چاہتا ہوں ایسا آرڈر دوں کسی کو برا نہ لگے۔ میں چاہتا ہوں کیس 22 جولائی تک رکھ لیں اس کے بعد روزانہ کی بنیاد پر سن کر فیصلہ کروں گا۔
تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس عامرفاروق نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں الیکشن ٹریبونل کی تبدیلی اورالیکشن ایکٹ ترمیمی آرڈیننس کے خلاف کیس کی سماعت کی۔ الیکشن کمیشن اور پی ٹی آئی کے وکلاء کمرہ عدالت میں پیش ہوئے۔
وکلا نے عدالت سے کہا کہ ایکٹ کے سکیشن 151 کو چیلنج کرنا ہمارا بنیادی حق ہے اس پرچیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے پوچھا کہ ٹریبونل کو کیا اسٹیٹس ہے؟
وکیل درخواست گزار نے جواب دیا کہ دوکیسزپیرکو لگے ایک کی آج سماعت ہوئی ہے، ٹریبیونل نے ریکارڈ مانگا ہے ابھی کچھ ریکارڈ آنا ہے۔ اس پرچیف جسٹس عمار فاروق نے استفسارکیا کہ اگرآپ کو کوئی مسلئہ ہے چیلنج کر دیں۔
وکیل الیکشن کمیشن نے جواب دیا کہ نہیں ہم وہاں نہیں جا سکتے ابھی آرڈر نہیں ہوا۔ اس پرعدالت نے کہا کہ آپ کے پاس حق موجود ہے آپ انٹرم حکم کو چیلنج کرسکتے ہیں۔ سکیشن 151 کے دو پہلوؤں ہیں ایک موٹو اوردوسرا درخواست پر ایکش لے سکتا ہے الیکشن کمیشن۔
چیف جسٹس عامرفاروق نے کہا کہ اگر الیکشن کمیشن سو موٹو لیتا تو ابھی قانون میں تضاد پربات ہو رہی ہوتی، کل میں نے یہاں الیکشن کمیشن کے فیصلے پڑھائےاوردرخواست گزاروں نے سب مانا ہے، شعیب شاہین نے عدالت نے بتایا تھا کہ جج صاحب نے کہا جو غلط بیان حلفی دے گا وہ جیل جائے گا۔
وکیل کامیاب امیدواران نے کہا کہ جج صاحب نے آراو گرفتارکرنے کی بات کی، اس پرعدالت نے کہا کہ کیا فیصلے میں آر او سے متعلق لکھا گیا؟ وکیل نے جواب دیا کہ جی بالکل فیصلے میں لکھا گیا تھا آراو کو گرفتار کریں گے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے اس آرڈر کو چیلنج کیوں نہیں کیا؟ کیا تعصب پسند ہونے کی بنیاد پر جج کو تبدیل کرنا درست فیصلہ تھا الیکشن کمیشن کا، درخواست میں تو استدعا یہی تھی۔
وکیل لیگی امیدوارنے بتایا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل نہیں بلکہ ٹریبونل کو دوبارا بحال کیا۔ میرا مطلب یہ ہے ایک آئینی ادارے نے سیکشن 151 کا قانونی اختیار استعمال کیا ہے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے سجیل سواتی سے کہا کہ میں ایک مشورہ دے دیتا ہوں،آپ کا قانون میں تضاد سے متعلق بھی کیس ہے، مجھے ٹائم دیں۔
شعیب شاہین نے کہا کہ انہوں نے ابھی تک فیصلے پرعملدرآمد نہیں کیا ان سے ٹریبونل نے فارمز مانگے تھے جو نہیں دیے۔
چیف جسٹس عامرفاروق نے کہا کہ مجھے وقت دیں، میں چاہتا ہوں ایسا آرڈر دوں کسی کو برا نہ لگے۔ میں چاہتا ہوں کیس 22 جولائی تک رکھ لیں اس کے بعد روزانہ کی بنیاد پر سن کر فیصلہ کروں گا، چھٹیاں ہیں کام اتنا نہیں، میں آسانی سے سن لوں گا۔ یہ ایک ٹیکنیکل چیز ہے مجھے سوچنے کے لیے وقت دیں۔
وکیل شعیب شاہین نے کہا کہ ابھی تک آراو نے بھی جواب نہیں دیا، اس پرچیف جسٹس نے کہا کہ میں یہ آرڈر کر دیتا ہوں کہ ٹریبونل ریکارڈ جمع کرنے کی حد تک سماعت کرے اگے نہ جائے، پھردو ہفتے بعد ہم اس کو سن کر فیصلہ کر دیں گے۔
شعیب شاہین نے کہا کہ الیکشن ٹربیونل کو فائنل آرڈر کرنے سے بے شک روک دیں۔ لیگی رہنماؤں کی جانب سے ٹریبونل کا کام کرنے سے روکنے کی استدعا کی گئی اس پراسلام آباد ہائیکورٹ نے الیکشن ٹریبونل کو کیسز کا ٹرائل شروع کرنے سے روک دیا۔
شعیب شاہین نے کہا کہ چارماہ ہو گئے ہیں اس کیس کو، 180 دن میں فیصلہ کرنا ہے۔ اس پرچیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ میں سب سمجھ رہا ہوں، میں یہ چاہتا ہوں جو جج کیسزسنے بغیرکسی سٹے سے سنے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے اٹارنی جنرل آف پاکستان اورایڈوکیٹ جنرل اسلام آباد کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت 22 جولائی تک ملتوی کردی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ 22 جولائی کے کیس روازنہ کی بنیاد پر سنیں گے۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News
