’’معاہدے میں درخت کاٹنے کی بات کیوں ہے؟ درخت کو منتقل کرنے کی بات کیوں نہیں؟‘‘
سندھ ہائی کورٹ میں ریڈ لائن منصوبے کی تعمیرکے دوران درختوں کی کٹائی کے خلاف درخواست کی سماعت کے دوران عدالت نے استفسار کیا کہ معاہدے میں درخت کاٹنے کی بات کیوں ہے؟ درخت کو منتقل کرنے کی بات کیوں نہیں؟‘‘
سماعت کے دوران وکیل درخواست گزارنےعدالت کو بتایا کہ ریڈ لائن منصوبے پر اب تک 30 ہزار درخت کاٹے جا چکے ہیں، اس پرعدالت نے استفسارکیا کہ کون کون سے درخت تھے جو کاٹے گیے ہیں، ریڈ لائن منصوبہ کہاں سے شروع ہوکر کہاں تک ختم ہورہا ہے؟
وکیل درخواست گزارنے جواب دیا کہ تمام مقامی درخت تھے منصوبہ ماڈل کالونی سے ایم اے جناح روڈ تک ہے۔
عدالت نے درخواست گزارسے استفسارکیا کہ تیس ہزاردرخت کی تعداد کا تعین کیسے طے کیا گیا؟
عدالت نے کے ایم سی کے وکیل سے استفسار کیا کہ کون کنفرم کرے گا یہ نمبر درست ہے یا نہیں؟ کتنے درخت ہیں؟ وکیل کے ایم سی نے جواب دیا کہ میرے پاس ابھی تفصیل نہیں ہے۔
وکیل کانٹریکٹرنے بتایا کہ کانٹریکٹ میں کاٹے جانے والے درختوں کی تعداد لکھی ہے، سروے کے مطابق تین ہزارآٹھ سو درخت تھے، اب تک ایک ہزار5 سو 64 درخت کاٹے جا چکے ہیں، ان درختوں میں پچہتر فیصد درخت کونوکارپس کے تھے۔
وکیل درخواست گزارنے بتایا کہ سیکریٹری ٹرانسپورٹ نے تمام تفصیل اپنی رپورٹ میں فراہم کی ہوئی ہے۔ اس پرعدالت نے پوچھا کہ تیس ہزار سے تین ہزار آٹھ سو درخت ہوگئے؟
وکیل کانٹریکٹرنے جواب دیا کہ یہ بلاک ون کی رپورٹ ہے ملیر ہالٹ سے موسمیات تک ہے۔
وکیل درخواست گزارنے کہا کہ کانٹریکٹرنے معاہدے کے مطابق ایک کے بدلے پانچ درخت لگانے ہیں، دو ہزار دو سو 29 درخت کاٹے جائیں گے سیکریٹری ٹرانسپورٹ کی رپورٹ کے مطابق۔
وکیل کانٹریکٹرنے دلائل دیے کہ سولہ ہزارسے زائد درخت ہمیں لگانے ہیں، نیم، گل مہر، پام اوردیگر درخت لگائے جائیں گے، سیکڑوں درخت جامعہ کراچی میں لگائے جاچکے ہیں۔
عدالت نے پوچھا کہ کوئی اسٹڈی ہے کراچی کے لیے کون سے درخت فائدہ مند ہیں؟ سڑک کنارے لگانے والے درختوں سے پرندوں کو ماحول فراہم کرنا ہوتا ہے۔
وکیل کانٹریکٹرنے جواب دیا کہ پام کے درخت لگائے جاسکتے ہیں، اس عدالت نے پوچھا کہ محکمہ جنگلات سے کوئی ہے عدالت میں؟
سرکاری وکیل نے جواب دیا کہ آخری سماعت میں تھے، عدالت نے انہیں استثنی دیا تھا۔
عدالت نے کہا کہ پیپل اور برگد کے درخت شہر میں ہوتے تھے، ان کی عمر بھی زیادہ ہوتی تھی، پرندے بھی اپنے گھونسلے بناتے تھے۔
وکیل کانٹریکٹرنے جواب دیا کہ نیم، گل مہراورسکھ چین درخت ہیں جو لگائے جائیں گے۔ اس پرجسٹس ظفر احمد راجپوت نے پوچھا کہ یہ سکھ چین کونسا درخت ہے؟ کراچی میں ہوتا ہے؟ کراچی میں تو نا سکھ ہے نا چین ہے، کراچی میں نیم، برگد، پیپل مقامی درخت ہیں، یہ الگ بات ہے کھجور کے درخت لگا کر دس ہزارکے بجائے بیس ہزار کا بل بنادیا جائے گا، ایسے ہی کراچی کا ایکو سسٹم تباہ ہوگیا ہے۔
وکیل درخواست گزارنے کہا کہ معاہدے کے مطابق کانٹریکٹر اپنی نرسری بنائیں گے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ معاہدے میں درخت کاٹنے کی بات کیوں ہے؟ درخت کو منتقل کرنے کی بات کیوں نہیں؟
سیکریٹری ٹرانسپورٹ نے جواب دیا کہ نرسری میں دو ہزار درخت تیار کیے جارہے ہیں، کوریڈور تیار ہونے کے بعد درخت لگائے جائیں گے، جو فائدہ مند مقامی درخت ہیں وہی لگائے جائیں گے، محکمہ جنگلات سے مشاورت کی گئی تھی، مزید مشاورت کرکے ماحول دوست درخت لگائیں گے۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ کراچی کی فضا سے طوطے ختم ہوچکے ہیں، ایکو سسٹم تباہ کریں گے تو یہی ہوگا، جو درخت آپ بتا رہے ہیں ان کی کیا افادیت ہے؟ ایک ہفتے کی مہلت دے رہے ہیں بتایا جائے کون کونسے درخت فائدہ مند ہیں۔
سندھ ہائی کورٹ نے رپورٹ طلب کرتے ہوئے مزید سماعت 29 اکتوبر تک ملتوی کردی۔ عدالت نے آئندہ سماعت پر محکمہ جنگلات کے حکام کو بھی طلب کرلیا۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News
