آئندہ سال ہونے والے چیمپئینز ٹرافی کا انعقاد اب ایک گھمبیر مسئلہ بن گیا ہے۔ پاکستان جو اس ایونٹ کا میزبان ہے اس کے ارمانوں پر گزشتہ دنوں ز اس وقت اوس پڑھ گئ جب انڈیا نے پاکستان آنے سے انکار کردیا۔ اگرچہ اس بات کا خدشہ سب کو تھا کہ انڈیا آخری لمحات میں ایونٹ کی منتقلی کے لیے ایسا قدم اٹھائے گا کہ آئ سی سی مجبور ہوکر ایونٹ کا مکمل یا جزوی انعقاد پاکستان سے منتقل کردے گی
چیمپئنز ٹرافی کی میزبانی جب پاکستان کو ملی تھی دنیائے کرکٹ میں حیرت کا اظہار کیا گیا تھا کیونکہ انڈیا جو گزشتہ 15 سال سے پاکستان میں کسی بھی ایونٹ کو ناکام بنانے کے لیے سرگرم عمل ہے۔ وہ کس طرح چیمپئینز ٹرافی جیسے اہم ایونٹ کو پاکستان میں برداشت کرسکتا ہے۔ ماضی میں آئ سی سی کے ایونٹس میں انڈیا ایسی کوشش کرتا رہا کہ پاکستان سے میچ نہ ہو۔ اب چیمپئینز ٹرافی کے لئے اس کے حالیہ انکار نے عالمی کرکٹ کو مایوس کردیا ہے۔
پاکستان اور انڈیاکے درمیان میچ ہر لحاظ سے نفع بخش ہوتے ہیں اور دنیا بھر میں سب سے زیادہ دیکھے جاتے ہیں گزشتہ ٹی ٹوینٹی ورلڈکپ میں انڈیا پاکستان کے درمیان ایک میچ سے اسقدر آمدنی ہوئ تھی کہ پورے ٹورنامنٹ کا خرچہ پورا ہوگیا۔ اس سے قبل آسٹریلیا میں ملبورن میں ایک لاکھ تماشائیوں نے میچ دیکھا تھا جبکہ انڈیا میں احمدآباد میں پاکستان اور انڈیا کے دوران میچ میں سوا لاکھ لوگ اسٹیڈیم میں موجود تھے
انڈیا کے انکار کے بعد کیا ہوگا
انڈیا کے پاکستان آنے سے انکار پر سب سے پہلا سوال یہ ہے کہ اگر انڈیا نہیں آتا ہے تو کیا چیمپئینز ٹرافی منعقد ہوسکے گی ؟ انڈیا جو دنیائے کرکٹ کا سب سے اہم رکن ہے اور اس کے بغیر اب عالمی کرکٹ کا وجود لامعنی ہے۔ دو دفعہ ورلڈکپ اور دو دفعہ ٹی ٹوینٹی ورلڈکپ جیتنے والی انڈین ٹیم اب تک چیمپئنیز ٹرافی کا کوئ ایڈیش نہیں جیت سکی ہے۔
انڈیا کی ٹیم کے پاکستان کے ساتھ گزشتہ دس سال میں دس میچ بھی نہیں ہوئے ہیں لیکن جتنے بھی میچ ہوئے وہ ٹورنامنٹ کی جان تھے۔ بھرے ہوئے اسٹیڈیم اور اربوں کی آمدنی سے آئ سی سی کے تمام رکن ممالک فائدہ اٹھاتے ہیں۔ انڈیا نے اگرچہ پاکستان سے کھیلنے سے انکار نہیں کیا ہے لیکن پاکستان میں کھیلنے سے انکار کیا ہے۔ وہ ایک ہائبرڈ ماڈل چاہتا ہے جس کے تحت انڈیا کے تمام میچ پاکستان سے باہر کسی اور ملک میں کھیلے جائیں انڈیا نے آئ سی سی کو باقاعدہ مطلع کردیا ہے کہ وہ چیمپئینز ٹرافی کے میچ کھیلنے پاکستان نہیں جائے گا۔
پی سی بی کا موقف
پی سی بی نے اس اچانک افتاد کا سختی سے جواب دیا ہے۔ پی سی بی کے چئیرمین محسن نقوی نے ان خدشات کے پیش نظر دو ماہ قبل ہی مختلف ماڈل انڈین کرکٹ بورڈ کو پیش کیے تھے جن میں ایک ہی شہر میں میچز اور میچ کھیل کر واپس انڈیا روانگی جیسی پیشکش شامل تھی۔ لیکن بی سی سی آئ نے اس پر کوئ جواب دینے کے بجائے ایونٹ سے 100 دن قبل آنے سے انکار کردیا۔ پی سی بی کو ایک مختصر سی ای میل کے ذریعے آئ سی سی نے آگاہ کیا ہے کہ انڈین ٹیم پاکستان نہیں آنا چاہتی۔
پی سی بی نے ایک خط کے ذریعے آئ سی سی سے چند سوالات کیے ہیں کہ کیا بی سی سی آئ نے کوئ معقول وجہ بتائ ہے اور کب اس بات سے کس طرح آگاہ کیا ہے۔
پی سی بی نے اس معاملے پر حکومت سے رہنمائ حاصل کرکے ایک ٹھوس موقف اپنایا ہے کہ چیمپئینز ٹرافی کے تمام میچز پاکستان میں ہی کھیلے جائیں اور کوئ ہائیبرڈ ماڈل نہیں قبول ہوگا۔ پی سی بی کا موقف ہے کہ جب انگلینڈ آسٹریلیا سمیت بہت سی غیر ملکی ٹیمیں تواتر سے پاکستان کا دورہ کررہی ہیں اور کوئ سیکیورٹی کے مسائل نہیں ہیں تو انڈیا کے پاس کوئ وجہ نہیں کہ وہ آنے سے انکار کرے
پی سی بی نے مزید سخت موقف اختیار کرتے ہوئے آئ سی سی کو آگاہ کردیا ہے کہ پاکستان اب انڈیاکے ساتھ کسی بھی ایونٹ میں نہیں کھیلے گا۔ یہ ایک ایسا فیصلہ ہے جو براڈکاسٹرز کو مایوس کردے گا۔
انڈین بورڈ کا موقف
انڈین بورڈ نے ابھی تک اپنے کسی موقف کا سرکاری طور پر اعلان نہیں کیا ہے تاہم آئ سی سی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ انڈین بورڈ نے اپنے کھلاڑیوں کے تحفظات کے پیش نظر پاکستان نہ جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ انڈین بورڈ نے اپنی بلائنڈ کرکٹ ٹیم کو بھی پاکستان جانے سے روک دیا ہے۔ انڈین بورڈ اس سے قبل ایشیا کپ میں ہائیبرڈ ماڈل کے ذریعے پاکستان کی میزبانی کو زک پہنچا چکا ہے۔ اور اب چیمپئینز ٹرافی میں بھی اس کے انکار کے بعد ایونٹ کا انعقاد خطرے سے دوچار ہوگیا ہے۔ انڈیا کے جے شاہ اگلے ماہ آئ سی سی کی صدارت سنبھال رہے ہیں۔ بی جے پی حکومت کے وزیر داخلہ امیت شاہ کے فرزند جے شاہ نے جوانی میں ہی وہ مقام حاصل کرلیے ہیں جس میں لوگوں کو ساری زندگی لگ جاتی ہے۔ ان کی صدارت کے بعد آئ سی سی میں انڈیا کا اثر نفوذ مزید بڑھ جائے گا۔
آئ سی سی کی بے بسی
آئ سی سی اگرچہ اپنے قوانین کے اطلاق کے لیے جس قدر سختی کا مظاہرہ کرتی ہے وہ کلب سطح کی کرکٹ میں بھی نظر آتا ہے۔ لیکن انڈیا کے معاملے میں وہ بے بس ہوجاتی ہے۔ انڈیا اس سے قبل بھی اپنی من مانی کرچکا ہے۔ گزشتہ ورلڈکپ میں میچز کا شیڈول ہو یا پچز کی تیاری ، ہر جگہ انڈیا سب سے بالاتر نظر آتا ہے۔
انڈیا آئ سی سی سے آمدنی میں بھی سب سے زیادہ حصہ لیتا ہے۔ انڈیا اس وقت آئ سی سی سے 231 ملین ڈالر سالانہ لے رہا ہے۔ 38.5 % کل آمدنی میں حصہ لیکر انڈیانے اپنی بالادستی ثابت کردی ہے۔ اس کے مقابلے میں پاکستان آسٹریلیا اور انگلینڈ 6 فیصد کے آس پاس ہیں۔ آئ سی سی کو معاہدے کے مطابق 90دن پہلے چیمپئینز ٹرافی کا شیڈول جاری کردینا ہے ورنہ براڈکاسٹرز معاہدے کی خلاف ورزی پر کٹوتی کرسکتے ہیں۔ اسٹار اسپورٹس جس کے پاس اگلے دو سال آئ سی سی کے براڈکاسٹ رائٹس ہیں اس نے بھی آئ سی سی کو نوٹس دے دیا ہے کہ شڈول جلد جاری کیا جائے۔
آئ سی سی کی سب سے بڑی مشکل انڈیا سے 80 فیصد آمدنی کو برقرار رکھنا ہے جو اسے انڈین کمپنیز سے اسپانسر شپ اور براڈکاسٹ رائٹس کی مد میں ملتی ہے۔
انڈیا کے انکار کے بعد پاکستان کے سخت موقف نے آئ سی سی ایک بند گلی میں پہنچ گئ ہے۔ اگر انڈیا اور پاکستان اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹتے ہیں تو آئ سی سی کے لیے آخری راستہ چیمپئینز ٹرافی کا التوا ہوگا۔ جس کی صورت میں پاکستان میزبان اور اسٹار اسپورٹس براڈکاسٹر کی حیثیت سے مالی تاوان طلب کرسکتے ہیں۔ نیز آئ سی سی کے اپنے مستقبل کے پراجیکٹ بھی متاثر ہوسکتے ہیں
آئ سی سی 2009 کے ورلڈکپ میں انگلینڈ کی جانب سے زمبابوے کی ٹیم کو ویزوں کے اجرا نہ کیے جانے پر زمبابوے کی جگہ اسکاٹ لینڈ کو شامل کرچکی ہے اس وقت زمبابوے نے سیاسی مسائل پر ایونٹ تباہ ہونے کے بجائے خود کو علیحدہ کرلیا تھا۔ اگر آج انڈیا کو پاکستان جانے پر مسائل ہیں تو انڈیا خود رضاکارانہ طور پر الگ کرکے ایونٹ کو بچا سکتا ہے۔ لیکن انڈیا کا مقصد کچھ اور ہے۔
آئ سی سی نے 2002 کے ورلڈکپ میں انگلینڈ کے زمبابوے نہ جانے پر پوائنٹس منہا کرلیے تھے اور دنیا کو پیغام دیا تھا کہ اگر آئ سی سی کے شیڈول کی پیروی نہ کی تو سخت سزا ہوسکتی ہے۔ کیا آئ سی سی وہی پیمانہ آج بھی دوہرا سکتی ہے ؟
آئ سی سی کو یہ بھی اندازہ ہے کہ چیمپئینز ٹرافی کے نہ ہونے سے 300 ملین ڈالر کا نقصان ہوسکتا ہے جو ابتدائ آمدنی ہے۔ لیکن اس میں آخری تک اضافہ ہوسکتا ہے کیونکہ کچھ سیگمینٹ ابھی فروخت ہونا ہیں
دوسری طرف اگر چیمپئینز ٹرافی اگر پاکستان سے باہر منعقد ہوتی ہے تو پی سی بی کو 65 ملین ڈالر کا نقصان ہوسکتا ہے جبکہ اس میں مقامی فروخت شامل نہیں ہے۔ پی سی بی اس ایونٹ سے 80 ملین ڈالر کی توقع کررہا ہے لیکن پی سی بی کے لیے سب سے زیادہ پریشان کن بات ماضی میں اس کا مصالحانہ اور لچک دار رویہ ہے۔ جب 2011 کے ورلڈکپ کی میزبانی کے مشترکہ حقوق کے باوجود پاکستان میں میچز نہیں ہوئے اور پی سی بی ایک خطیر رقم لیکر پییچھے ہٹ گیا۔ اسی طرح ایشیا کپ میں ہائیبرڈ ماڈل کو قبول کرکے بھی پی سی بی نے خود کو کمزور ثابت کردیا تھا۔ اس وقت بھی چئیرمین ذکا اشرف نے رقم کے بدلے خود کو نیچے گرالیا تھا۔
کیا چیمپئینز ٹرافی اپنے شیڈول کے مطابق ہوسکے گی اور کون اپنے موقف سے پیچھے ہٹ جائے گا۔ یہ اگلے چند دن میں واضح ہوجائے گا۔ لیکن ایک بات واضح ہے کہ پی سی بی کے ماضی کے موقف نے اس کی پوزیشن کمزور کردی ہے اور آئ سی سی کو یقین ہے کہ زیادہ رقم کی پیشکش پر پی سی بی ہائیبرڈ ماڈل کو قبول کرلے گا۔
شاید آئ سی کچھ ایسا شیڈول بنائے جس سے دونوں ٹیمیں صرف فائنل میں آپس میں ٹکرائیں اور فائنل دبئ یا ساؤتھ افریقہ میں کھیلا جائے۔ اگر ایسا ماڈل قبول کرلیا گیا تو پی سی بی ایک بار پھر خود کو قابل فروخت ثابت کردے گا۔ جس کی گردان اس وقت انڈین میڈیا کررہا ہے۔ انڈین میڈیا کافی عرصہ سے چیمپئینز ٹرافی کو ہائیبرڈ ماڈل کہہ رہا ہے۔ اور ذرایع کے مطابق آئ سی سی نے بھی دو بجٹ بنائے تھے۔ اگر ہائیبرڈ ماڈل ہوا تو اخراجات زیادہ ہونگے۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News
