
اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کے تین سابق سربراہان سمیت 250 سے زائد سابق اہلکاروں اور افسران نے غزہ پر جاری جنگ کے فوری خاتمے اور فلسطینی مزاحمتی گروہوں کے قبضے میں موجود یرغمالیوں کی واپسی کا مطالبہ کیا ہے۔
یہ مطالبہ ایک مشترکہ بیان میں سامنے آیا جس نے اسرائیلی حکومت کی موجودہ پالیسیوں پر سنجیدہ سوالات اٹھا دیے ہیں۔
بیان کے مطابق یہ قدم سابق موساد مذاکرات کار ڈیوڈ میدان کی جانب سے جاری کیا گیا ہے، جس پر ڈینی یاتوم، افرایم ہالیوی اور تامیر پاردو جیسے اہم سابق موساد سربراہان کے دستخط موجود ہیں۔
سابق اہلکاروں نے اپنے بیان میں واضح کیا ہے کہ غزہ میں جاری جنگ یرغمالیوں اور اسرائیلی فوجیوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال رہی ہے۔
بیان میں اسرائیلی حکومت پر زور دیا گیا ہے کہ وہ ریاست اور اس کے شہریوں کے تحفظ کے حوالے سے ذمہ داری کا مظاہرہ کرے۔
اس سے قبل اسرائیلی فضائیہ کے 1,000 سے زائد ریزرو فوجیوں نے بھی ایک کھلے خط کے ذریعے حکومت سے جنگ کے خاتمے کا مطالبہ کیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ جنگ ملکی سلامتی کے بجائے سیاسی اور ذاتی مفادات کے لیے لڑی جا رہی ہے۔
اس خط کی حمایت میں اسرائیل کی بدنام زمانہ انٹیلیجنس یونٹ ‘یونٹ 8200’ کے 250 سے زائد سابق اہلکاروں نے بھی آواز بلند کی ہے، جب کہ اسرائیلی بحریہ کے 150 سے زائد سابق اہلکاروں نے بھی جنگ کے خلاف موقف اپناتے ہوئے حکومت کو خط لکھا ہے۔
مزید برآں، اسرائیلی فوج میں خدمات انجام دینے والے درجنوں ریزرو ڈاکٹرز نے بھی اسرائیلی وزیر دفاع، آرمی چیف اور فوج کے چیف میڈیکل آفیسر کو ایک خط لکھا ہے، جس میں انہوں نے کہا کہ 7 اکتوبر کے حملے کے بعد بعد ہم نے اپنے ملک کے لیے خدمات انجام دیں، لیکن اب، 550 روز بعد، ہمیں یقین ہے کہ یہ جنگ ذاتی اور سیاسی مقاصد کے لیے لڑی جا رہی ہے
ان تمام بیانات اور خطوط نے وزیر اعظم نیتن یاہو کی جنگی پالیسی پر شدید دباؤ ڈال دیا ہے۔
مبصرین کے مطابق جنگ کے طویل ہونے، یرغمالیوں کی رہائی میں ناکامی اور سیاسی مفادات کے الزامات نے حکومت کی ساکھ کو مزید نقصان پہنچایا ہے۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News