فلسطین کے محصور علاقے غزہ میں جاری غذائی بحران ایک نئے انسانی المیے کی شکل اختیار کر چکا ہے، جہاں شہری معمولی ترین خوراک سے بھی محروم ہوتے جا رہے ہیں۔
خان یونس میں پناہ گزین ایک 61 سالہ فلسطینی خاتون کنان نے غیر ملکی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو بھوک سے بچانے کے لیے کچھوے کا گوشت پکانے پر مجبور ہو گئیں۔
خاتون نے افسردگی سے بتایا کہ وہ بمباری سے بے گھر ہونے کے بعد اس وقت ایک خیمہ بستی میں زندگی گزار رہی ہیں۔
خاتون کا کہنا تھا کہ بچے کچھوے کھانے سے ڈر رہے تھے، لیکن ہم نے انہیں کہا کہ اس کا ذائقہ مچھلی جیسا ہے۔ کچھ نے کھا لیا، کچھ نے انکار کر دیا، لیکن ہمارے پاس اور کوئی چارہ نہیں تھا۔
یہ واقعہ غزہ میں جاری شدید غذائی قلت اور قحط کے خطرے کی سنگینی کو اجاگر کرتا ہے۔ عالمی سطح پر غذائی سلامتی پر نظر رکھنے والے ادارے آئی پی سی (IPC) کی حالیہ رپورٹ کے مطابق، غزہ کی نصف سے زائد آبادی فاقہ کشی کا شکار ہے۔
رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ اگر موجودہ حالات برقرار رہے تو مئی 2025 تک غزہ کے تمام شہری قحط کی لپیٹ میں آ سکتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے بھی غزہ میں قحط سے متعلق جاری کی گئی رپورٹ کو خطرناک فردِ جرم قرار دیا ہے اور عالمی برادری سے فوری مداخلت کا مطالبہ کیا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ غذائی امداد کی بندش، شدید بمباری، اور ضروری بنیادی سہولیات کی عدم دستیابی نے غزہ کو ایک کھلے قبرستان میں بدل دیا ہے، جہاں لاکھوں افراد، بالخصوص بچے، بھوک، بیماری اور بے گھری کے دہانے پر کھڑے ہیں۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News
