جنوبی کوریا میں ہونے والے غیر معمولی صدارتی انتخابات میں، لبرل جماعت “ڈیموکریٹک پارٹی” کے امیدوار لی جی میونگ نے 49.42 فیصد ووٹ حاصل کر کے اپنی حریف جماعت “پیپلز پاور پارٹی” کے امیدوار کم مون سو کو شکست دی۔
یہ انتخابات سابق صدر یون سوک یول کی معزولی کے بعد کرائے گئے تھے، جنہوں نے دسمبر 2024 میں مارشل لا نافذ کیا تھا۔
انتخابی عمل میں 79.38 فیصد رجسٹرڈ ووٹرز نے حصہ لیا، جو 1997 کے بعد سب سے زیادہ ٹرن آؤٹ ہے۔
لی جی میونگ نے اپنی کامیابی کو “یون کے مارشل لا کے خلاف عوامی فیصلہ” قرار دیا۔ انہوں نے اپنی تقریر میں معیشت کی بحالی، شمالی کوریا کے ساتھ بات چیت اور امریکہ کے ساتھ سیکیورٹی تعلقات کو مستحکم کرنے کا عہد کیا۔
ان کی فتح نے جنوبی کوریا کی مالیاتی منڈیوں میں مثبت ردعمل پیدا کیا ہے، جہاں اقتصادی اصلاحات کی توقع کی جا رہی ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ نے لی جی میونگ کی فتح کو آزاد اور منصفانہ قرار دیا ہے، تاہم چین کے اثر و رسوخ پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
سابق صدر یون کی معزولی کے بعد، امریکی صدر ٹرمپ کی انتظامیہ نے جنوبی کوریا کی درآمدات پر 25 فیصد ٹیرف عائد کیے تھے، جس سے تجارتی تعلقات میں تناؤ آیا ہے۔
نئی حکومت کو معیشت کی بحالی، امریکہ کے ساتھ تجارتی مذاکرات اور چین و جاپان کے ساتھ تعلقات میں توازن قائم کرنے جیسے چیلنجز کا سامنا ہے۔
لی جی میونگ نے “جالسنیزم” کے نام سے ایک وژن پیش کیا ہے، جس میں چار دن کا کام کا ہفتہ، ریٹائرمنٹ کی عمر میں اضافہ اور قانون سازوں کے لیے ریکال سسٹم شامل ہیں۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News
