
بین الاقوامی عدالت انصاف (ICJ) موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے اپنی پہلی قانونی رائے دینے والی ہے، جسے بین الاقوامی قانون میں ایک تاریخی موڑ قرار دیا جا رہا ہے۔
یہ مقدمہ جنوبی بحرالکاہل کے جزیرہ نما ملک وانوآتو اور دیگر ممالک کی جانب سے دائر کیا گیا ہے، جس میں یہ سوال اٹھایا گیا ہے کہ دنیا کے ممالک پر ماحولیاتی تبدیلی کو روکنے کی کیا قانونی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔
مزید پڑھیں: عالمی عدالت انصاف کا اسرائیل کو رفح پر حملے نہ کرنے کا حکم
عدالت کے 15 جج حضرات نے اس مقدمے کی سماعت کے دوران دسیوں ہزار صفحات پر مشتمل تحریری دلائل کا جائزہ لیا اور دو ہفتوں تک زبانی دلائل سنے۔
اب وہ بدھ کو دی ہیگ، نیدرلینڈز میں واقع پیس پیلس میں اپنا فیصلہ سنائیں گے۔ اس فیصلے کو عالمی سطح پر ماحولیاتی قانون کے لیے ایک معیار بنانے کی کوشش قرار دیا جا رہا ہے۔
یہ رائے کئی سو صفحات پر مشتمل ہو سکتی ہے، جس میں اقوام کو ماحولیاتی آلودگی سے بچاؤ کی ذمہ داریوں کی وضاحت کی جائے گی اور ان ممالک کے لیے ممکنہ قانونی نتائج بیان کیے جائیں گے جو ان ذمہ داریوں سے کوتاہی کے مرتکب ہوئے ہیں۔
مزید پڑھیں: پاکستان نے عالمی عدالت انصاف میں مسئلہ فلسطین پر اپنا موقف پیش کردیا
وانوآتو نے عدالت سے اپیل کی تھی کہ وہ صرف اقوام متحدہ کے فریم ورک کنونشن پر انحصار نہ کرے بلکہ انسانی حقوق کے قوانین اور سمندری قوانین سمیت بین الاقوامی قانون کے تمام پہلوؤں کو مدنظر رکھے۔
وانوآتو کے وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی، رالف ریگینوانو نے امید ظاہر کی ہے کہ عدالت فیصلہ دے گی کہ ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنا ریاستوں کی قانونی ذمہ داری ہے۔
مزید پڑھیں: عالمی عدالت انصاف میں نسل کشی کا مقدمہ نہ سننے کی اسرائیلی درخواست مسترد
عدالت سے یہ بھی توقع کی جا رہی ہے کہ وہ ان ممالک کے لیے ممکنہ ذمہ داریوں کا تعین کرے گی جو تاریخی طور پر سب سے زیادہ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کے ذمہ دار رہے ہیں، جیسا کہ امریکہ.
اگرچہ پیرس معاہدہ 2015 میں ماضی کے نقصانات کی براہ راست تلافی کی کوئی شق موجود نہیں، تاہم 2022 میں اقوام متحدہ کی ماحولیاتی کانفرنس میں امیر ممالک نے ایک فنڈ قائم کرنے پر اتفاق کیا تھا تاکہ کمزور ممالک کو نقصان سے نمٹنے میں مدد مل سکے۔
وانوآتو کے ساتھ اس مقدمے کو آگے بڑھانے والے طلبہ رہنما ویشال پرساد کا کہنا ہے کہ “یہ ہمارے نوجوانوں کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ ہمیں ہر مد و جزر کے ساتھ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کا سامنا ہے”۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News