
نوبیل امن انعام کے اعلان سے ایک روز قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا نام عالمی توجہ کا مرکز بن گیا ہے۔ ٹرمپ دعویٰ کرتے ہیں کہ انہوں نے دنیا کی آٹھ بڑی جنگوں میں امن قائم کرایا، مگر ماہرین کے مطابق ان کے بیشتر دعوے مبالغہ آمیز اور متنازع ہیں۔
ناروے کی نوبیل کمیٹی جمعہ 10 اکتوبر کو 2025 کا امن انعام دینے جا رہی ہے، جبکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنی کامیابیوں کو بنیاد بنا کر خود کو اس انعام کا حقدار قرار دے رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں ٹرمپ نے کہا، “میں نے سات جنگوں کا خاتمہ کیا، کوئی بھی صدر یا وزیر اعظم میرے قریب نہیں پہنچا۔”
انہوں نے ان جنگوں میں کمبوڈیا-تھائی لینڈ، کوسوو-سربیا، جمہوریہ کانگو-رونڈا، پاکستان-بھارت، اسرائیل-ایران، مصر-ایتھوپیا، اور آرمینیا-آذربائیجان کے تنازعات کو شامل کیا۔
تاہم غیر ملکی ماہرین کے مطابق، ان میں سے کئی تنازعات میں ٹرمپ کی براہِ راست یا مؤثر ثالثی ثابت نہیں ہو سکی۔ بعض صورتوں میں تو امریکہ خود لڑائی میں شریک رہا، جیساکہ جون میں ایران اور اسرائیل کے درمیان تصادم کے دوران جب ٹرمپ نے ایرانی جوہری تنصیبات پر حملے کی اجازت دی۔
اسی طرح، بھارت اور پاکستان کے درمیان مئی میں ہونے والی فضائی جھڑپوں کے بعد ٹرمپ نے جنگ بندی کا اعلان کیا، مگر نئی دہلی کے مطابق امریکہ کا کردار محدود تھا۔
کمبوڈیا اور تھائی لینڈ میں اگست میں پانچ روزہ جھڑپوں کے بعد فریقین نے جنگ بندی کا اعلان کیا، مگر صرف کمبوڈیا نے ٹرمپ کا شکریہ ادا کیا۔
کو سوو اور سربیا کے درمیان تعلقات میں بظاہر بہتری 2020 میں ٹرمپ کی پہلی صدارت کے دوران ہونے والے معاہدے سے آئی، تاہم کشیدگی اب بھی برقرار ہے۔
ماہرین کا مؤقف
نارویجن پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ اوسلو کی ڈائریکٹر نینا گریگر کا کہنا ہے کہ اگرچہ ٹرمپ کو غزہ میں جنگ بندی کی کوششوں پر کچھ کریڈٹ دیا جا سکتا ہے، مگر ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ ان کی امن تجویز پائیدار نتائج دے گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ ٹرمپ کا بین الاقوامی اداروں سے انخلا، نیٹو اتحادی ڈنمارک سے گرین لینڈ لینے کی خواہش، اور ملک کے اندر جمہوری اقدار پر حملے، نوبیل کے منشور سے مطابقت نہیں رکھتے۔
تنازعات کا پہلو
ٹرمپ کی صدارت میں امریکہ نے ایران، یمن، صومالیہ اور وینزویلا سمیت کئی ملکوں پر حملے کیے۔ انہوں نے گرین لینڈ، کینیڈا اور پاناما کینال کو “ضم کرنے” کے بیانات بھی دیے۔
ماضی کے متنازع انعامات
نوبیل امن انعام ماضی میں بھی تنازع کا شکار رہا۔
1973 میں امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر کو ویتنام جنگ ختم کرنے پر انعام دیا گیا، حالانکہ ان کی پالیسیوں سے جنگ طویل ہوئی۔
1994 میں یاسر عرفات، اسحاق رابن اور شمعون پیریز کو اوسلو معاہدے پر انعام ملا، جب کہ پیریز اسرائیل کی کئی عسکری کارروائیوں میں ملوث رہے۔
برما کی آنگ سان سوچی اور سابق امریکی صدر باراک اوباما کی فتوحات بھی بعد ازاں تنقید کی زد میں رہیں۔
نامزدگیاں اور حمایت
نومبر 2025 کے انعام کے لیے نامزدگیاں 31 جنوری کو بند ہوئیں۔
اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو، کمبوڈیا کے وزیر اعظم ہن مانیت، آرمینیا کے وزیر اعظم نکول پاشینیان، اور آذربائیجان کے صدر الہام علییف نے ٹرمپ کی نامزدگی کی حمایت کی۔
پاکستانی حکومت نے بھی اگلے سال (2026) کے نوبیل امن انعام کے لیے ٹرمپ کی باضابطہ نامزدگی کی تصدیق کی ہے۔
اگر ٹرمپ نہ جیتے تو؟
ورجینیا میں فوجی افسران سے خطاب میں ٹرمپ نے کہا تھا کہ اگر مجھے نوبیل انعام نہ ملا تو یہ امریکہ کی توہین ہوگی۔ انہوں نے طنزاً کہا کہ یہ انعام شاید کسی ایسے شخص کو دے دیا جائے جو میرے ذہن پر کتاب لکھ رہا ہو۔
ناروے کے وزیر خارجہ ایسپن بارتھ ایڈ کے مطابق، نوبیل امن انعام کے فیصلوں میں نارویجن حکومت کا کوئی کردار نہیں ہوتا۔
خلاصہ:
اگرچہ صدر ٹرمپ نے کئی جنگوں میں ثالثی یا دباؤ ڈالنے کا کردار ادا کیا ہے، مگر بیشتر ماہرین کے مطابق ان کی کوششیں ابھی پائیدار امن کی ضمانت نہیں۔ نوبیل کمیٹی کے فیصلے میں محض دعووں سے زیادہ مستقل اور اصولی امن کردار کو اہمیت دی جاتی ہے۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News