
یورپی ممالک میں چیونٹیوں کی یلغار، حکومت روکنے میں ناکام
یورپی ممالک جیسے جرمنی، فرانس اور سوئٹزرلینڈ میں Tapinoma magnum نامی چیونٹیوں کی یلغار کو روکنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں، لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ ان سے چھٹکارا پانا تقریباً ناممکن ہے۔
یہ چیونٹیاں عموماً بحیرہ روم، مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں پائی جاتی تھیں، لیکن حالیہ برسوں میں ان کا یورپ میں تیزی سے پھیلاؤ دیکھنے میں آیا ہے۔ یہ چیونٹیاں جسامت میں صرف 3 ملی میٹر کی ہوتی ہیں، لیکن اپنے سائز کے باوجود دنیا کے کچھ ترقی یافتہ ممالک میں خوف پیدا کر چکی ہیں۔
ٹیپینوما چیونٹیاں بڑی تیزی سے وسیع علاقوں پر پھیلنے اور مضبوطی سے اپنے قدم جمانے کے لیے جانی جاتی ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ان چیونٹیوں کے سیکڑوں ملکہ چیونٹیاں ہوتی ہیں، جو کئی چھوٹی چھوٹی کالونیاں بناتی ہیں اور آپس میں جنگ کرنے کے بجائے ایک بڑی سپر کالونی بنا لیتی ہیں جس میں لاکھوں چیونٹیاں شامل ہوتی ہیں۔ یہ چیونٹیاں مسلسل وسائل کی تلاش میں رہتی ہیں، دیواروں، سڑکوں، یہاں تک کہ انٹرنیٹ اور بجلی کی تاروں کو بھی کاٹ ڈالتی ہیں۔
چند سال پہلے تک ٹیپینوما چیونٹیاں صرف فرانس کے جنوبی جزیرے کورسیکا میں پائی جاتی تھیں، لیکن اب یہ پورے فرانس میں پھیل چکی ہیں، یہ انفراسٹرکچر کو نقصان پہنچا رہی ہیں، لوگوں کے گھروں پر قبضہ کر رہی ہیں، انہیں کاٹ رہی ہیں اور ملک کے مضبوط زرعی شعبے کو خطرے میں ڈال رہی ہیں۔ مقامی حکام ان چیونٹیوں کے سامنے بے بس نظر آتے ہیں اور کچھ مایوس لوگوں نے تو اپنی جائیدادیں فروخت کر کے دوسرے علاقوں میں منتقل ہونا شروع کر دیا ہے۔
کوئی بھی صحیح طور پر نہیں کہہ سکتا کہ یہ چیونٹیاں شمالی افریقہ سے جرمنی کیسے پہنچیں، لیکن شواہد سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ سوئٹزرلینڈ سے ملک میں داخل ہوئیں۔ پہلی بار ان چیونٹیوں کو سرحدی قصبے لوراچھ میں دیکھا گیا تھا، لیکن جلد ہی یہ پھیل کر کھل، ہیڈیل برگ اورکارلسررہ تک پہنچ گئیں، اور اب اسٹیٹگرٹ شہر میں بھی داخل ہو چکی ہیں۔
کھل میں چیونٹیوں کا مسئلہ خاص طور پر شدید ہے۔ رہائشی مسلسل شکایت کرتے ہیں کہ یہ چیونٹیاں ان کے گھروں پر قبضہ کر رہی ہیں، ان کے بچوں اور پالتو جانوروں کو کاٹ رہی ہیں، لیکن مقامی حکام اس مسئلے کو قابو میں لانے میں ناکام ہیں۔ انہوں نے ان کی کالینیوں کو تباہ کرنے کے لیے مختلف طریقے آزمائے ہیں، لیکن چیونٹیاں ہر بار اور مضبوط ہو کر واپس آرہی ہیں۔
ٹیپینوما چیونٹیاں پہلے ہی کھل کے علاقے میں کئی بار بجلی کے بریک ڈاؤن کا سبب بن چکی ہیں اور انٹرنیٹ نیٹ ورکس کو مفلوج کر چکی ہیں، کیونکہ انہوں نے تاروں کو کاٹ ڈالا ہے، اور ان کی مسلسل سرگرمیوں کی وجہ سے کئی اضلاع میں سڑکوں میں دراڑیں پڑ رہی ہیں۔
چیونٹیاں لاکھوں سالوں سے موجود ہیں اور یہ سوائے انٹارکٹیکا کے ہر براعظم میں موجود ہیں، لیکن یورپ نے ٹیپینوما چیونٹیوں جیسی یلغار پہلے کبھی نہیں دیکھی۔ ان چیونٹیوں کی انتہائی تیز رفتار سے افزائش اور ان کی کسی بھی چیز کو کاٹنے کی شدید بھوک نے ماہرین کو بھی اس مسئلے کے حل کے بارے میں سر کھجانے پر مجبور کر دیا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹیپینوما چیونٹیوں کی اس یلغار کا ذمہ دار عالمی درجہ حرارت میں اضافے کو قرار دیا جا سکتا ہے، کیونکہ یہ چیونٹیاں گرم اور خشک آب و ہوا کو پسند کرتی ہیں۔ تاہم، ان کا یہ رجحان سرد موسموں میں ان کی بقا کو ناممکن نہیں بناتا۔ رپورٹس کے مطابق، یہ چیونٹیاں -6.6°C کی اوسط درجہ حرارت اور کم سے کم -15°C کے سخت ترین موسم کو بھی با آسانی برداشت کر سکتی ہیں، جس کی وجہ سے ان کا خاتمہ ایک بڑا چیلنج بن گیا ہے۔ البتہ ماہرین کا ماننا ہے کہ یہ چیونٹیاں سردیوں میں کمزور ہوتی ہیں۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News