Advertisement
Advertisement
Advertisement
Advertisement

ارطغرل  سے  بھی   آ گے  جانے  کی  لگن

Now Reading:

ارطغرل  سے  بھی   آ گے  جانے  کی  لگن

آپ نے آخری بار پی ٹی وی کب دیکھا تھا؟ ارطغرل غازی کو 2020ء میں سرکاری نیٹ ورک پر نشرکرنے سے پہلے، زیادہ تر ناظرین نے اس سوال کا درست جواب تلاش کرنے  کی کوشش تو کی ہوگی۔ ترکی کی تاریخی فکشن سیریز ‘ دیرلیس ارطغرل ‘ کا ایک ڈب شدہ ورژن، سابق وزیر اعظم عمران خا نے  قوم کو تجویز کیا ۔ یہ  بلاشبہ ایک  غیر معمولی  لیکن اہم کارنامہ ہے ۔

 پی ٹی وی نے ایک بار ڈب شدہ ورژن کو نشر کرنے کے  حقوق  حاصل  کرلئے تو یہ سلسلہ   بڑی کامیابی ثابت ہوا ۔ محتاط اعداد و شمار کے مطابق  ‘ارطغرل غازی ‘نے مئی 2020ء تک 130 ملین ناظرین کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ ڈرامے کی مقبولیت کی وجہ سے جون 2020ء میں پی ٹی وی کے یوٹیوب چینل کے سبسکرائبرز میں 50 لاکھ سے زائد کا اضافہ ہوا۔ اسی سال  ستمبر تک یہ تعداد 10 ملین سے تجاوز کر گئی۔اس  سیزن کی مقبولیت  نے  میڈیا پنڈتوں کو  یہ سوچنے  پر مجبور کردیا کہ  پی ٹی وی ، ایک طرح  سے  بحالی کی طرف گامزن ہے ۔  چاہے جیسا بھی ہو، مقبول غیر ملکی مواد نے  شائقین کی توجہ حاصل کرنے کا درست  طریقہ تلاش کر لیا ہے۔ تجزیہ کاروں کو یہ مشورہ دیا  گیا کہ وہ  معاملے کو مکمل طور پر سمجھے بغیر  مستقبل  کے امید  افزا نتائج پر نہ جائیں۔ اس قسم کے مفروضوں پر  کسی کو قصور وار   ٹھہرانا غلط ہوگا۔

سال 2000ء کے اوائل سے ہی ، پاکستان کا الیکٹرانک میڈیا  پوشیدہ  قوتوں کی گرفت میں  رہا ۔ بے شمار  ٹی وی چینلز کو کسی حد تک آزادی ملی تو  لاتعداد ناظرین کومتوجہ کرنے کے لیے سخت مقابلے  کی فضا پیدا ہوگئی ۔  نجی ملکیت والے چینلز کی آمد کے ساتھ، سرکاری  ٹیلی ویژن سسٹم  نےتجارتی  عملداری کے بارے میں خدشات کو دور کرنے میں بڑی حد تک کوشش کی ۔  تاہم، پی ٹی وی ریاست سے منسلک چینل ہے اور ترجیحات کے مختلف سیٹ پر کام کرتا ہے جس کی  کامیابی یا ناکامی کومحض منافع کی چمک   دمک سے نہیں پرکھا  جاسکتا ۔ روایتی حکم کے مطابق  سرکاری ٹیلی ویژن اسٹیشنوں کو اپنے آپ کو مکمل طور پر تجارتی منطق سے الگ  رکھنا  چاہیے۔ اس فلسفے کے   حامیوں کا خیال ہے کہ ریاست سے وابستہ میڈیا کو عوامی مفادات کے تحفظ کی نیت سے کام کرنا چاہیے اور ترقی پر مبنی ایجنڈے پر  کاربند رہنا چاہیے۔ کہا جاتا ہےکہ  توقع اور حقیقت  کے درمیان   کافی فاصلہ  ہوتا ہے ۔ دنیا بھر میں سرکاری  اعانت  سے  چلنے والے چینلز کے لیے ان معیارات پر سختی سے عمل کرنا اکثر آسان  نہیں ہوتا۔ برطانیہ میں، سرکاری طور پر چلنے والے  چیبل بی بی سی کو ناظرین کی طرف سے سالانہ ادا کی جانے والی ٹیلی ویژن لائسنس فیس کی مد میں خصوصی طور پر   رقم   فراہم کی جاتی ہے،بی بی سی کے مقامی چینلز پر اشتہارات نہیں دکھائے جاتے ۔ تاہم  بی بی  سی کے ذریعے چلنے والے بین الاقوامی چینل سبسکرپشنز اور اشتہارات سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔اسی طرح، پی ٹی وی نے بھی   ریاست  کے  انتظام  ماڈل کی سختی سے تعمیل نہیں کی ۔ اپنے قیام کے بعد سے پی ٹی وی نیٹ ورک ، اشتہارات نشر کر رہا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ پی ٹی وی کی اشتہاری آمدنی نے ہمیشہ نیٹ ورک کو برقرار رکھنے کا کوئی قابل عمل ذریعہ فراہم نہیں کیا اور مالی بقا کو یقینی بنانے کے لیے لائسنس فیس متعارف کرائی۔

 اس لیے پی ٹی وی کو چاہیے کہ وہ عوامی بھلائی  کےلیے  اپنی تجارتی عملداری کو محفوظ بنائے اور  توازن قائم کرے۔

نجی  چینلز پر تجارتی بنیادوں پر چلنے والے نقطہ نظر نے  کمائی کا آغاز کردیا ہے ۔   سامعین پی ٹی وی پر نشر کیے جانے والے ماضی کے پاکستانی ڈراموں کو آج بھی یاد کرتے ہیں ۔ ہم عصرٹی وی ڈراموں کی بڑی  تعداد کو ان کے رجعت پسند نقطہ نظر کی وجہ سے تنقید کا  بھی  سامنا کرنا پڑا ۔ ناقدین کا  خیال ہے کہ  یہ ڈرامے سرکاری چینل کے شاندار دور میں تیار کیے جانے والے مواد کی پیمائش نہیں کر سکتے۔

Advertisement

 اگر اس منطق  کو ایک پیمانے کے طور پر  سمجھ لیں تو  پی ٹی وی نے اپنے پرانے دور میں ایک ایسا معیار قائم کیا ہے جسے سامعین نجی چینلز پر  بھی  دیکھنا  چاہیں گے  ۔ بدقسمتی سے، ریاست کے زیر انتظام نیٹ ورک نے ان معیارات کو برقرار رکھنے کے لیے بہت کم کام کیا ہے جو اس نے کبھی  فعال انداز میں  پیش کیا تھا۔ ان حالات میں، پی ٹی وی کو 1970ء اور 1980ء کی دہائیوں میں اپنے  مقام کو دوبارہ حاصل کرنے کے لیے مشکل کام انجام دینا چاہیے تھا  ۔ ایسا  نہیں ہوسکتا کہ  نیٹ ورک خود ، غیر ملکی مواد فراہم کرنے کے لئے  ڈسٹری بیوٹر کے طور پر کام کرنے لگے ۔

پس منظر میں، ارطغرل غازی  کے حقوق  خریدنے کے  فیصلے نے 2020ء میں کاروباری  نکتے میں جان ڈالی ۔ سیریز کے نشر ہونے سے چند ماہ قبل اخباری رپورٹس میں بتایا گیا تھا  کہ پی ٹی وی ، نیٹ ورک  کوچلاتے رہنے کے لیے جدوجہد کررہا تھا اور اس کے پاس کوئی ٹھوس کاروباری منصوبہ نہیں تھا۔ 2020ء کے  اوائل میں  شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق پی ٹی وی، ٹی وی لائسنس فیس میں 65 روپے کا اضافہ کر کے  صارفین پر 20 ارب روپے کا اضافی بوجھ منتقل کرنا چاہتا ہے۔ اس اقدام کو وفاقی کابینہ نے چند ماہ بعد مختلف وزراء کے اعتراضات کے بعد موخر کر دیا۔

ارطغرل غازی کے نشر ہونے کے بعد ہمارے معاشرے پر اس کے اثرات کو لے کر سوشل میڈیا کے محاذ پر کئی جنگیں لڑی گئیں ۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ اس سیریز نے اسلامی ثقافت اور ورثے کی گہری جھلک پیش کی اور مغربی میڈیا اور ہندوستانی فلموں کے ذریعے مسلمانوں کی بے تکی تصویر کشی کے خاتمے کے طور پر کام کیا ۔ شک و  شبہات  میں گھرے  رہنے والوں نے محسوس کیا کہ غیر ملکی مواد نشر کرنے کے فیصلے سے ہماری مقامی تفریحی صنعت پر منفی اثرات  مرتب ہوں گے ۔ بہت سے لوگ اس بحث میں  کافی حد تک آگے چلے گئے اور کہا کہ پی ٹی وی ارطغرل غازی کو چلانے کے لیے موزوں ترین چینل نہیں تھا کیونکہ ریاست سے وابستہ نیٹ ورک قومی مفادات کو پورا کرنے کا پابند ہے۔

یہ فیصلہ حکومتی دباؤ میں لیا گیا ہو یا اپنی مالی بقا کی ضمانت کے لیے؟ پی ٹی وی کو اب ارطغرل کے جنون سے آگے بڑھ کر دیکھنا ہوگا۔ اس نازک موڑ پر، ریاستی نیٹ ورک کو تخلیقی خطرات مول لینے اور اپنی کھوئی ہوئی ساکھ کو بحال کرنے کے لیے جدید طریقے تلاش کرنے کی ضرورت ہے ۔ ایک ایسے دور میں جب پرائیویٹ چینلز ایسے فارمولک ٹی وی ڈرامے پیش کر رہے ہیں جو صرف  ازدواجی تعلقات  پر  توجہ دے رہے ہیں  اور خواتین کی  دقیانوسی سوچ  کی بھرپور  عکاسی  کرنے میں مصروف ہیں ۔ پی ٹی وی کو  کچھ مختلف کرنے کےلیے  ہمت  کرنا ہوگی ۔ چینل کو ایسے اسکرپٹ رائٹرز  کو ایک موقع ضرور  دینا چاہیے جو  بار بار دہرائے جانے والے، یا پیش گوئی کرنے والے  فارمولے پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائے اسکرین کے لئے کچھ اور تیار کریں ۔ ایسا کرکے ہی پی ٹی وی  تفریح کے میدان میں  نیا معیار قائم کرنے میں  کامیاب ہوسکتا ہے ۔

ریاست سے وابستہ نیٹ ورک کو اصل مواد کو  فراہم کرکے ہی  اپنے مقام کو حاصل اور اپنی  ساکھ کو دوبارہ  بحال کرنا ہوگا ۔ سماجی مسائل کوڈراموں کی شکل میں اجاگر کرنے کے لیے ایک ٹھوس کوشش لازمی کی جانی چاہیے۔ ان موضوعات پر لکھنا  چاہیئے جن کو ابھی تک نظر انداز کیا گیا ہے۔ سامعین مسلسل نئے اور تازگی  فراہم کرنے والے مواد کی تلاش میں رہتے ہیں ۔ اگر پی ٹی وی انہیں ایسے ڈرامے فراہم کر سکتا ہے تو اس بات کا امکان نہیں ہے کہ وہ نجی چینلز پرکثرت سے نشر ہونے والے شور شرابے والے  شوز کا انتخاب کریں ۔

نئے تصورات کے ساتھ خطرات مول لینے کے ساتھ پی ٹی وی کو اپنے صارفین کی ترجیحات کے بارے میں پہلے سے موجود معلومات پر بھی بھروسہ کرنا چاہیئے ۔ مثال کے طور پر، ارطغرل غازی کی کامیابی سے ثابت ہوا کہ تاریخی دور کے ڈراموں کی شدت سے کمی محسوس کی  جارہی تھی ۔ ریاستی نیٹ ورک کو ان تاریخی شخصیات کے بارے میں ٹی وی سیریل بنانے پر بھی غور کرنا چاہیے جنھیں پاکستان میں قدر کی نگاہ سے  دیکھا  جاتا یے ۔

Advertisement

غیر ملکی مواد کو بیساکھی کے طور پر استعمال کرکے پی ٹی وی اپنی کھوئی ہوئی مقبولیت اور گذرا ہوا  کامیاب دور واپس نہیں لاسکتا ۔  چینل صرف اصلیت پر زور دیتے ہوئے مقامی  ٹیلنٹ سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی مقبولیت میں اضافہ کر سکتا ہے۔

Advertisement
Advertisement

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
کوشش ہوگی بابر اعظم کو آؤٹ کرکے شائقین کو چپ کروائیں، جنوبی افریقی کپتان
17 سال بعد فیصل آباد میں کرکٹ کی واپسی؛ شاہین آفریدی جیت کے لیے پرعزم
حکومت کے معاشی استحکام کے واضح ثبوت سامنے آگئے، وزیر خزانہ کی معاشی ٹیم کے ہمراہ اہم پریس کانفرنس
علیحدگی کے بعد بھی ٹام کروز اور آنا دے آرمس کا دوستانہ رشتہ قائم
نبیل ظفر کا ای چالان پر دلچسپ تبصرہ سوشل میڈیا پر وائرل
مدینہ منورہ؛ عشقِ رسولﷺ اور عثمانی ورثے کی زندہ علامت
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر