دبی ہوئی یا متبادل صنفی شناخت کی نمائندگی پرغم وغصے میں کمی کا تعلق لطافت سے بھی ہوسکتا ہے
غیرصنفی شمولیت ایک نیا رمزیہ لفظ ہے،جس نے نیٹ فلکس کومرکزی دھارے کے ٹیلی ویژن پرپس ماندہ برادریوں کے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک کی تاریخ کی تلافی پرمجبور کیا۔ اسٹریمنگ سروس پربڑی تعداد میں موجود مواد نسل اور صنف کی منصفانہ اورمستند نمائندگی کو ترجیح دیتا ہے۔ نصاب کی درستگی کی سوچ کے ساتھ اس سبسکرپشن پرمبنی او ٹی ٹی سروس پر پیش کیے جانے والے سٹ کام (مزاحیہ ڈرامے)، فلمیں اورڈرامہ سیریز یں یہاں تک کہ صنفی شناخت سے متعلق موضوعات کی کھوج میں گہرائی سے کام کیا ہے۔
اگراعداد وشمارکوتخمینے کے طورپرپیش کیا جائے تو صنفیت کو ایک جامع اندازمیں پیش کرنے کی مسلسل کوششوں کی وجہ سے نیٹ فلکس کو اپنے حریفوں پربرتری حاصل ہے۔ ایڈوکیسی گروپ گلاڈ کی جانب سے کیے گئے سالانہ مطالعے کے مطابق نیٹ فلکس نے اپنی مزاحیہ اور ڈرامہ سیریزمیں باقاعدہ یا باربارآنے والے 155 ہم جنس پرست کردارپیش کیے۔
یہ اعداد و شماران مسائل کے بارے میں بدلتے ہوئے رویوں کی عکاسی کرتے ہیں جنہیں کبھی خطرناک اورعوامی استعمال کے لیے غیرموزوں سمجھا جاتا تھا۔
ماضی میں، اورشاید تاحال، ٹیلی ویژن شوزاورفلموں میں ان موضوعات کی دقیانوسی تصویرکشی معمول رہی۔ اکثروبیشترایسے کرداروں کوتاریخی طورپریا توطنزاورمذمت کے طورپریا مزاحیہ ریلیف کے ذرائع کے طورپرپیش کیا گیا ہے۔ پس ماندہ گروہوں کی نیٹ فلکس سیریزمیں نمائندگی کے اضافے کے ساتھ نمائندگی کی سیاست کے حوالے سے نقطہ نظرمیں واضح تبدیلی دیکھی گئی ہے۔ جب کہ ناظرین نے پسماندہ طبقوں کی نمائندگی میں اضافے پرخوشی کا اظہار کیا ہے، تنگ نظروں نے اسٹریمنگ سروس پرتنوع کی بظاہرجبری تصویرکشی کے بارے میں اپنے شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے۔ بہت سے لوگوں نے اسے سطحی اورعلامتی حد تک قیاس کیا۔ نیٹ فلکس کے نقطہ نظرکی مخالفت کرنے والوں کے دعووں کے مطابق کسی کردارکے جنسی رجحان کو پیش کرنے پرتوجہ مرکوزکرنا ان کی شخصیت کی دیگرخصوصیات کودھندلا دیتا ہے۔
پاکستان کے سخت نقطہ نظرسے اس طرح کے رجحانات اخلاقی تشویش کوجنم دینے کا خطرہ رکھتے ہیں۔ بہرحال نیٹ فلکس کوکئی برس سے مقبولیت حاصل ہے اور لوگوں کی اکثریت ہرماہ نیٹ فلکس کی سبسکرپشن کے لیے ماہانہ 1500 روپے خرچ کرتی ہے۔ جب کہ دیگراپنے فراخ دل دوستوں کی جانب سے اکاؤنٹ شیئرکے ذریعے اس سہولت سے مستفید ہوتے ہیں۔ اگرچہ نیٹ فلکس پرپاکستانی مواد بہت کم پیش کیا گیا ہے تاہم اوٹی ٹی سروس نے پورٹلزکوسٹ کام اورڈرامہ سیریزکے متنوع مینو کے لیے کھول دیا ہے۔
متعدد سبسکرائبرزکے لیے اس پلیٹ فارم پرموجود مواد تجرباتی ہے اور ٹی وی پردستیاب تفریحی اختیارات کا مقابلے کے طورپرکردارادا کرتا ہے۔ ناظرین ان پابندیوں کے حوالے سے باشعورہو چکے ہیں جن کے تحت ٹی وی چینلزڈراموں کو نشرکرتے ہوئے سامنا کرتے ہیں۔ یہ کوئی راز نہیں ہے کہ مقامی ٹی وی ڈرامے ایک مخصوص فارمولے پرعمل پیرا ہوتے ہیں اوراس لیے ایک دوسرے سے مختلف نہیں ہوتے۔ ٹی وی ڈراموں کی بھرمار کے درمیان جو مایوپک ورلڈ ویوز کا پرچار کرتے ہیں، مرکزی دھارے میں انتہائی ضروری متبادل کے طورپرنیٹ فلکس ریگستان میں ایک نخلستان کے طورپرابھرا ہے۔
تاہم معمول کے تبصرہ نگاروں کو یہ غیرمعمولی لگ سکتا ہے کہ پاکستان جیسے ملک میں جہاں متنوع صنفی اور جنسی شناخت کو قبول کرنے میں پس و پیش پایا جاتا ہے، نیٹ فلکس کا مواد دیکھنے پر کوئی اعتراض نہیں پایا جاتا۔ غم و غصے کی سراسرغیرموجودگی کواس حقیقت سے منسوب کیا جا سکتا ہے کہ زیادہ ترسامعین سٹ کامزاورڈراموں کو ثقافت کے تخلیقی نتائج کے طورپردیکھتے ہیں۔ یہاں تک کہ اگرناظرین کو’’ان کپلڈ‘‘ جیسے سٹ کام سے نظریاتی اختلاف ہے تب بھی ان میں اتنا شعورہوگا کہ یہ ڈرامے کراچی میں نہیں بلکہ نیویارک میں نشرکیے جارہے ہیں۔
کرداروں کو ان کے سماجی تناظر میں ڈھالنے کی یہ صلاحیت ہی ہے جو ناظرین کو نیٹ فلکس سے جوڑے رکھتی ہے، چاہے وہ کتنے ہی شدید متنازع کیوں نہ ہوں۔ ناظرین اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ ان کی لیپ ٹاپ اسکرینوں پر دکھائے گئے حقائق ان کی دنیاوی حقیقتوں سے فرارہیں۔ ان میں سے کچھ انہیں خیالی بھی تصور کرسکتے ہیں۔
ایسا تب ہی ہوتا ہے جب ناظرین اپنی ثقافت کی بے ہنگم تصویرکشی سے بچانے کے لیے بآسانی اپنے اعتراضات بیان کرسکیں، حتیٰ کہ وہ نیٹ فلکس کو صحرا میں نخلستان کے طورپردیکھتے ہوں، چنانچہ نیٹ فلکس پرہم جنس پرستی کودیکھ کربے چینی محسوس کرنے والے ناظرین عدم اطمینان کے اظہارمیں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کریں گے، جوان کے نزدیک منفی ہو۔
چاہے جیسا بھی ہو، نیٹ فلکس پرجنسیت کی نمائندگی پرغم و غصے کی عدم موجودگی کا تعلق لطافت سے بھی ہوسکتا ہے۔ اس طرح کی تھیمز نیٹ فلکس سیریزمیں ہمیشہ مرکزکا درجہ نہیں رکھتیں، اورانہیں اس طرح بیان کیا جاتا ہے کہ وہ ناظرین کی توجہ دوسری سمت میں لے جاتا ہے۔ علامتی طور پیش کرنے کی یہ ایک ہوشیار تکنیک ہے جسے مقامی فلم سازوں اورٹی وی پروڈیوسروں نے بھی اپنایا ہے ۔
برسوں پہلے، ایک نجی ٹیلی ویژن چینل کو دومردوں کے درمیان مباشرت کا منظرپیش کرنے پر ناظرین کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ اگرچہ ناظرین کی حساسیت کے تحفظ کے لیے اس منظرکودھندلا کردیا گیا تھا، لیکن اسے ایک غیرمعمولی طورپرجرات مندانہ قدم سمجھا جاتا تھا، خاص طورپرایک ایسے ملک میں جہاں مرد اورعورت کے درمیان ایسا جیسا منظرنشرنہیں کیا جا سکتا۔
وہ دن گئے جب ممنوع مسائل کو اجاگرکرنے کی اس طرح کی کھلی کوششیں کی گئیں۔ ایسا لگتا ہے کہ فلم سازوں اور ٹی وی پروڈیوسروں نے شعوری فن میں مہارت حاصل کرلی ہے اوریہاں تک کہ جنسی شناخت سے متعلق ان خدشات کی تدبیرسے تصویرکشی کرکے تعریف بھی حاصل کی ہے۔ مثال کے طورپر، مقبول ٹی وی ڈرامے پری زاد کوایک ایسے کردار کے طورپرپیش کرنے کی کوششوں پر سراہا گیا ہے جوعورت سے مرد میں منتقل ہوا ہے۔
آزادانہ طورپرتیارکی جانے والی مختصر فلموں نے بھی واضح طورپرجنسی تصویر کشی سے پرہیز کیا ہے۔ عادت ایک نوعمر لڑکے کی کہانی ہے جو ایک مرد جنسی کارکن کی خدمات فراہم کرتا ہے۔ پہلے پہل یہ تصوربہت زیادہ خطرناک دکھائی دے سکتا ہے۔ اس کے بجائے، عادت پولیس کی بربریت اور ہماری فطری ضروریات کے اظہار کے لیے مناسب چینل تلاش کرنے میں ناکامی پر ایک دل خراش تبصرے کے طورپرسامنے آتا ہے۔ یہ تکنیک فلم کے فائدے کے لیے کام کرتی ہے کیونکہ یہ نوجوانوں کی حالت زارکوجبرکے عالمگیرموضوع سے جوڑتی ہے۔
مانگا ایک اورمختصرفلم ہے جو دبی ہوئی خواہش کا جائزہ پیش کرتی ہے۔ یہ دلچسپ امر یہ ہے کہ یہ کارروائی دیہی ماحول میں دکھائی گئی ہے اور موضوع کے ساتھ سلوک اس سے کہیں زیادہ دلیرانہ ہے۔ یہ فلم آج کا شارٹس کے عنوان سے ڈیجیٹل سیریزکا حصہ ہے اور اس کے ساتھ اس کے تخلیق کاروں کی طرف سے یوٹیوب پرایک مختصرتفصیل بھی ہے۔ جس میں لکھا ہے کہ ’’ہماری ڈیجیٹل سیریزکے تحت… ہم وقتاً فوقتاً کئی پلیٹ فارمزپرمختصر فلموں کی آزاد سیریز جاری کریں گے جو ہمارے معاشرے کی کثیرالجہتی نوعیت کا احاطہ کرتی ہیں۔ ہم آپ کے سامنے تاریک وزیادہ پریشان کن سماجی حقائق لاتے ہیں۔‘‘
پدرانہ اقدار پر یک چھوٹی سی تنقید ’مانگا‘ ایک زمین دارکی خفیہ زندگی کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ جس کے خاندان کو رازافشا ہونے کی صورت میں سب کچھ کھونے کا خوف ہے اوراس لیے وہ اسے کسی ناپسندیدہ انکشاف سے بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگرچہ تھوڑا سا تبلیغی رنگ ہے، لیکن یہ فلم گہری جڑوں والی طاقت کی حرکیات کو بتانے کے لیے دلیری پربہت زیادہ انحصار کرتی ہے اور یہ کہ وہ کس طرح استحصال کو فروغ دے سکتے ہیں۔
ایک زیادہ نفیس فلم جو اسی طرح کے موضوع پربنتی ہے وہ ہے گلزار (دی بولڈ اینڈ دی مسٹریس) ایک حقیقی ٹورڈی فورس، فلم یہ ظاہر کرنے کے لیے اردو شاعری اور موسیقی کا استعمال کرتی ہے کہ کس طرح مردانگی ایک ایسی پوشاک بن جاتی ہے جو شناخت کو زیادہ مضبوط بناتی ہے، اگر خوش مزاج نہ ہوتوگلزارحد سے تجاوز کرنے کے لالچ کے خلاف مزاحمت کرتا ہے، حالانکہ اس میں انحراف کے جذبے کو ہوا دی جاتی ہے۔
یہ تمام فلمیں یوٹیوب پردستیاب ہیں، ا ورتبصروں کے سیکشنزمیں ان کی بڑے پیمانے پرتعریف کی گئی ہے ۔ جو تخلیقی ذرائع کے ذریعے متنوع اور متنازع معاملات کی عکاسی کرنے میں باریک بینی کی طاقت کا اشارہ ہے۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News