
صوبہ سندھ کے ضلع تھرپارکر میں واقع ایک تاریخی قصبے مٹھی نے فن اور موسیقی کے میدان میں کئی نامور شخصیات کو جنم دیا۔ مائی بھاگی، فوزیہ سومرو، سوڈھل فقیر، صادق فقیر، کالو فقیر، مائی سونی اور رجب فقیر جیسے فنکاروں اور موسیقاروں نے کلاسیکی اور لوک گائیکی کے میدان میں اپنی شناخت بنائی، جنہیں سندھ کے ہر گھر میں جانا جاتا ہے۔
تاہم، ایک ایسے دور میں جہاں عصری موسیقی کلاسیکی روایات سے دور ہوتی جا رہی ہے، عباس فقیر جیسے گلوکار اب بھی اپنی جاندار آوازوں کے ذریعے نوجوان سامعین کو لوک موسیقی کی جانب کھینچنے کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔رجب فقیر اورنزاکت فقیر کے ساتھ ساتھ عباس کو سندھی کلاسیکی اور لوک موسیقی کے جدید اسالیب میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ انہوں نے سندھی زبان کے نامور شاعروں حسن درس، شنکر ساگر، ممتاز نوہریو اور سائیں داد ساند کے لکھے ہوئے اشعار گا کر بہت کم عرصے میں موسیقی کے میدان میں اپنی الگ پہچان بنائی۔ 13 اپریل 1994ء کو مٹھی میں پیدا ہونے والے عباس مشہور موسیقار اور گلوکار حسین بخش فقیر کے فرزند ہیں، جنہیں شاعری اور موسیقی سے گہرا لگاؤ تھا اور ان کا شمار 1980ء کی دہائی میں سندھ کی ممتاز شخصیات میں کیا جاتا تھا۔
عباس فقیر نے اپنے والد کو بڑے اشتیاق کے ساتھ یاد کرتے ہوئے بتایا کہ میرے والد کو موسیقی کی سائنس پر خاص طور پر صوتی نوڈز پر خاص عبور حاصل تھا کیونکہ وہ موسیقی کی مختلف اصناف آسانی سے گا سکتے تھے۔ لوک گائیکی کی جانب رجحان کے بارے میں پوچھے گئے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ کسی شخص کے لیے اس چیز کے اثرات سے بچنا ناممکن ہوتا ہے وہ جس کے حصار میں ہو۔ انہوں نے مزید کہا کہ انہوں نے کم عمری سے ہی سندھی موسیقی کے شعبے سے تعلق رکھنے والے بڑے ناموں کو اپنے والد سے انتہائی احترام کے ساتھ ملتے دیکھا۔ موسیقاروں کی یہ خصوصیت جس کا انہیں ابتدائی طور پرسامنا ہوا،اس نے عباس فقیر کو اس شعبے کی طرف راغب کیا۔
ان نامور موسیقاروں کے بارے میں بات کرتے ہوئے جنہیں ان کے والد نے تربیت دی، عباس فقیر نے بتایا کہ میں ہمیشہ ہر ایک سے بہت فخر کے ساتھ کہتا ہوں کہ استاد صادق فقیر، استاد کریم فقیر اور پیارو فقیر جیسے گلوکاروں نے موسیقی کے بنیادی رموز میرے والد سے سیکھے۔انہوں نے مزید کہا کہ صادق اور مائی جیسے گلوکاروں نے ان جیسے کئی نوجوان گلوکاروں کے لیے لوک موسیقی کے میدان میں داخل ہونے کی راہ ہموار کی۔
عباس فقیر نے انکشاف کیا کہ میں استاد رجب فقیر سے بھی ربط میں رہا ہوں جنہوں نے میری صلاحیتوں کو جلا بخشی۔
ان کےمشہور گانوں میں ’سارا ٹھک لاہی وایا ‘، ’جوانی جیاں لڈی آہی‘، ’پیار جی پہریں نظر’، ’ہک گلابی ہر جہڑی چھوکری‘،’ہوش ناتھو ہٹ کیر سنبھالے‘،’چھا بُدایان ٹا مون لائے چھا آہیں‘،’چھا بدھاں ٹا مون لائے چھہ آہین‘،’ہر جائے پرین ہر محفل میں‘،’ہر جائے پرین ہر محفل میں‘،’روح رازی کرن جامشور ھلن ‘ اور بہت سے دیگر گانے شامل ہیں۔
فن اور موسیقی کو فروغ دینے کے حوالے سے محکمہ ثقافت سندھ کے کردار کے بارے میں پوچھے گئے سوال پر انہوں نے کہا کہ گزشتہ چند سال سے محکمہ ثقافت نے سندھ کے چھپے ہوئے ٹیلنٹ کو ایک پلیٹ فارم دینے کے لیے مختلف ایونٹس متعارف کرائے ہیں۔ مزاروں پر سالانہ تہوار ابھرتے ہوئے گلوکاروں کو اپنے فن کو بڑے اجتماعات کے سامنے پیش کرنے کا ایک سنہری موقع فراہم کرتے ہیں۔
اپنے پسندیدہ گلوکاروں کے بارے میں سوال کا جواب دیتے ہوئےعباس فقیر نے کہا کہ میں برصغیر کے تمام لیجنڈ گلوکاروں کو سنتا ہوں، لیکن ان میں مہدی حسن، غلام علی، لتا منگیشکر، میڈم نور جہاں اور ہری ہرن نمایاں ہیں، تاہم میں نے خود جدید موسیقی سے دور نہیں رکھا، اور کبھی کبھی میں اسے بھی سنتا ہوں۔ عباس فقیرنے بیرون ملک آذربائیجان، دبئی اورسعودی عرب وغیرہ بھی اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہوئے خوب دادوتحسین وصول کی۔
فن اور موسیقی کے شعبے میں ان کی خدمات پر انہیں لوک ورثہ ایوارڈ، ساگا ایوارڈ سیمت دیگر کئی اعزازات سے نوازا گیا ہے۔ لوک موسیقی کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے عباس فقیر نے کہا کہ یہ صنف نہ صرف ہماری روحوں کو پاک کرتی ہے بلکہ فطرت کے لیے ہمارے جذبات کو منور کرتی ہے۔ وہ امید کرتے ہیں کہ نوجوان نسل سندھ میں کلاسیکی لوک موسیقی کی روایات کی پاسداری، تحفظ اور برقرار رکھے گی۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News