Advertisement
Advertisement
Advertisement
Advertisement

دی واچر:کوئی تو پسِ دیوار دیکھتا ہے مجھے!

Now Reading:

دی واچر:کوئی تو پسِ دیوار دیکھتا ہے مجھے!

نیٹ فلکس کی اس سیریز میں پرت در پرت معاملات پر بہت زیادہ انحصار کیا گیا ہے مگر یہ نشیب و فراز ہمیشہ ناظر کو حیران نہیں کرپاتے

 کراچی

اگر خفیہ خطوط کا ایک سلسلہ آپ کی دہلیز پر ایک خطرناک باقاعدگی کے ساتھ پہنچے اور آپ کے ساتھ ساتھ آپ کے خاندان کے تحفظ کو بھی خطرہ میں ڈال دے تو آپ کیا ردعمل ظاہر کریں گے؟ اپنی حفاظت کی جبلت کے تحت، عام لوگ فوری پولیس میں شکایت درج کرائیں گے یا، اگر صورت حال قابو سے باہر ہوجاتی ہے، تو بسنے کے لیے کوئی اور محفوظ آبادی تلاش کریں گے۔

نیٹ فلکس کی سات حصوں کی محدود سیریز’’ دی واچر‘‘ میں برانوک خاندان عام لوگوں پر مشتمل نہیں ہے۔ خوشحال متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے محنتی اور پرجوش لوگوں کی طرح وہ بھی مساوات اور یکساں مواقع کے خواب کے پھندے میں پھنس جاتے ہیں اور اس کی تعبیر پانے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ یہ خاندان نیویارک میں شہری زندگی کی سنگین حقیقتوں سے بچنا چاہتا ہے اور اپنے آپ کو ایک مضافاتی آئیڈیل کی لاپروا خاموشی میں غرق کردینا چاہتا ہے۔ جب انہیں ویسٹ فیلڈ، نیو جرسی میں 657 بلیوارڈ پر ایک شاندار گھر مل جاتا ہے، تو انہیں اپنے خواب کی تعبیر سامنے دکھائی دینے لگتی ہے۔

مضافاتی رہائش گاہ، اگرچہ تھوڑی مہنگی ہوتی ہے، مگر برانوک خاندان سے ایک آرام دہ زندگی کا وعدہ کرتی نظر آتی ہے، اور وہ اس بات کو یقینی بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے کہ جائیداد بس ان کے ہاتھ آجائے۔ اس خوابوں جیسے گھر کے لیے ان کی اندھی چاہت عجیب و غریب حالات پیش آنے کے ساتھ ہی ختم ہوجاتی ہے جن )حالات ( سے ان کی سلامتی بھی خطرے میں پڑجاتی ہے۔

Advertisement

ان کا دہائیوں پرانا مضافاتی گھر لوگوں کے ایک طبقے کی غیرضروری توجہ حاصل کرلیتا ہے۔ سب سے پہلے، خاندان کو اپنے دخل انداز پڑوسیوں کی مخاصمت کو برداشت کرنا پڑتا ہے جو ان کی تزئین و آرائش کے بنیادی منصوبوں کے بارے میں اکثر ان کو برا بھلا کہتے ہیں۔ جب کہ برانوکس گھر کے مالک ہونے کی حیثیت سے ان جارحانہ مداخلتوں کے خلاف مزاحمت کرتے ہیں۔ حالات اس وقت غیر متوقع موڑ لے جاتے ہیں جب انہیں ‘دی واچر’ نامی کسی شخص کی طرف سے ناگوار خطوط موصول ہونے لگتے ہیں۔ان یادداشتوں کا لکھاری نہ صرف ان کے گھر میں گہری دلچسپی رکھتا ہے بلکہ اس کے مکینوں کی زندگیوں کے بارے میں تفصیلات سے بھی واقف ہے۔

جب انہیں پہلا خط موصول ہوتا ہے، تو ڈین برناک (باب کیناوال) اور ان کی بیوی نورا (نومی واٹس) کو پولیس کو مطلع کرنے کا احساس ہوتا ہے۔ بدقسمت واقعات کے ایک سلسلے کے بعد ، یہ خاندان عارضی طور پر اپنے بچوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے ایک موٹیل میں چلا جاتا ہے۔ تاہم، ڈین اور نورا کا گھر خالی کردینے اور کہیں اور بس جانے کا فیصلہ کمزور پڑنے لگتا ہے۔ اس کی معقول وجوہات ہوتی ہیں جن پر عموما سوال نہیں اٹھایا جاسکتا، کیونکہ آخرکار ان کے خوابوں کی رہائش گاہ آسیب زدہ نہیں ہے۔ محض اس کا پراسرار ماضی اس کا پیچھا کررہا ہے۔

ایک خواب سے جاگنے میں جوڑے کی ابتدائی ہچکچاہٹ جو ایک ڈراؤنے خواب میں تبدیل ہوگیا ہے، بلاشبہ ’’ دی واچر‘‘ کے لیے محرک کا کام کرتی ہے۔ شرپسندوں کے مکروہ چنگل سے اپنے بنائے ہوئے گھر کی حفاظت کے لیے ڈین اور نورا کا عزم سیریز میں ایک نئی جہت کا اضافہ کرتا ہے۔ بہت سے ناظرین کے ذہنوں میں ’’ دی واچر ‘‘ کی پیچیدگیوں میں غوطہ زن ہوتے ہوئے اس وقت کے بارے میں خیالات آسکتے ہیں جب انہوں نے ان گھروں کے بیرونی حصوں کی تعریف کی تھی جو انہیں راس نہیں آئے تھے۔

 ان عارضی لمحات سے متعلق ناظرین کے ذہنوں میں کچھ سوال سر اٹھا سکتے ہیں جیسے کہ کیا ان گھروں کے بیرونی حصے کی تعریف کرنے سے کسی شخص کو ان میں کوئی خاص حصہ داری ملتی ہے جو اصل مالک کے حقوق سے بالاتر ہے؟ کیا وہ صرف اس کی خوبصورتی کی تعریف کر کے گھر کا حصہ دار بن جاتا ہے؟

ان سوالوں کا جواب بلا شبہ ’نہیں‘ میں ہے۔ اس کے باوجود، یہ تجسس ہی ہے جو’’ دی واچر‘‘ کو دل چسپی کے ساتھ آگے بڑھاتا ہے۔ ایک فوری گوگل سرچ ہی سے ہمیں یہ پتا چل جاتا ہے کہ دولت اور آمدنی میں تفاوت تقریباً کسی بھی ترقی یافتہ ملک کے مقابلے امریکہ میں زیادہ ہے۔ سات اقساط پر مشتمل نیٹ فلکس کی سیریز کو ’’ میرے پاس ہے‘‘ اور’’ میرے پاس نہیں ہے‘‘ کے درمیان مسلسل بڑھتے ہوئے فرق پر کچوکے دار تنقید کے طور پر سمجھا جانا چاہیے۔

ایک سرمایہ دارانہ معاشرے میں جو اندرونی طور پر غیر مساوی ہے، معاشرے کے بالائی طبقے میں اپنے مقام کو برقرار رکھنے کے لیے ہمیشہ دباؤ بڑھتا رہتا ہے۔ برانوکس اس جنونی رجحان کے نادانستہ شکار ہیں اور ان کے مخالف بھی اس نظام کے قیدی ہیں جو عدم مساوات کو جنم دیتا ہے۔

Advertisement

 بہرحال ’’ دی واچر ‘‘ سامعین کو سنجیدہ سماجی تبصرے فراہم کرنے کے لیے موزوں نہیں ہے۔ اس کے بجائے، محدود سیریز غیر متوقع واقعات کی وجہ سے ایک زبردست کہانی کی شدت رکھتی ہے۔

سات حصوں پر مشتمل سیریز میں ایک واضح انواع کو پرکھنے والا معیار ہے کیونکہ یہ تیزی سے یکے بعد دیگرے ایک پراسرار سنسنی خیز فلم کی طرف گامزن ہوتی ہے جو ہولناکی پر منتج ہوتی ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ’’ دی واچر‘‘ ایک حقیقی، غیر حل شدہ کیس پر مبنی ہے جہاں ایک خاندان کو کسی ایسے شخص کی طرف سے خط موصول ہوئے جو ان کے گھر کو ‘دیکھ رہا’ تھا۔ چونکہ حقیقی زندگی کا ’’ واچر ‘‘ ابھی تک ملنا باقی ہے، اس لیے نیٹ فلکس سیریز بھی اسی طرح اس کیس کو بند نہیں کر سکتی۔

نتیجے کے طور پر، ’’ دی واچر ‘‘ سازشی نظریات اور امکانات کی ایک مکمل قوس قزح سے کام لیتی ہے تاکہ پلاٹ کو غیر متوقع سمتوں کی طرف لے جایا سکے۔ اس کے بعد جو شے ابھر کر سامنے آتی ہے وہ ایک دلکش شو ہے جو پیچیدہ موڑ پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے مگر یہ نشیب و فراز ہمیشہ ناظر کو حیران نہیں کرپاتے ۔ اگر تخلیق کاروں نے سنی سنائی بات کے دائرے سے آگے بڑھ کر ایک قطعی اور واضح کہانی بیان کرنے کی مخلصانہ کوشش کی ہوتی، تو ’’ دی واچر ‘‘ واقعی زبردست توجہ حاصل کرلیتی۔

اپنی موجودہ شکل میں، سیریز کو اپنی حقیقی پوٹینشل تک پہنچنے میں مشکل کا سامنا ہے۔ وہ گھر جو برانوک خاندان کو بھا جاتا ہے، اسے بھی توجہ حاصل نہیں ہوپاتی۔ اس کے بجائے، مسلط کردہ گھر جو کہ کہانی کے مرکز میں ہے اسے اس کی اپنی حیثیت میں ایک کردار کی بجائے محض ایک مقام کی طرح پیش کیا جاتا ہے۔ بدقسمت رہائش گاہ کے ساتھ مسئلہ کیا ہے، اس کے بارے میں لامتناہی امکانات کچھ ناظرین کو آخری قسط تک محظوظ کر سکتے ہیں، لیکن اگر کہانی کے جھول دور نہیں کیے گئے تو وہ دوبارہ مایوس ہوجائیں گے ۔

ان خدشات کے باوجود، ہمدرد ناظرین ’’ دی واچر ‘‘ کی خامیوں کو اس کی بنیادی طاقت کے طور پر دیکھ سکتے ہیں۔ اس حقیقت سے انکار کرنا مشکل ہے کہ ایک حل نہ ہونے والا اسرار اس کہانی سے کہیں زیادہ دلچسپ ہوتا ہے جس کی جہتیں اسرار کے دھواں دھار پردے میں نہ چھپی ہوں۔

بوب کیناوال اور نومی واٹس کو ایک تھکی ماندی جوڑی کے طور پر دیکھنا تازگی بخش ہے جو اپنے گھر کے تماشے سے پریشان ہے۔ نوما ڈومیزوینی پیچیدہ، کینسر زدہ سلیوتھ تھیوڈورا کے طور پر شاندار کارکردگی پیش کرتی ہیں جب کہ بے مثال جینیفر کولج ایک چالاک، حساب کتاب کی ماہر جائیداد کی خریدوفروخت کرنے والی کے کردار کے ساتھ انصاف کرتی ہیں۔

Advertisement

پہلے سیزن کے بعد، ناظرین ایسے مضامین کے لیے انٹرنیٹ سے رجوع کرنے کے لیے آمادہ ہو سکتے ہیں جو ’’ دی واچر‘‘ کے اختتام کی وضاحت کرتے ہوں۔ ناظرین کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ اس خواہش کے سامنے سرتسلیم کرنے سے گریز کریں کیونکہ یہ خواہش انہیں بندگلی میں لے جائے گی۔ طویل مدت میں، محدود سیریز کے ابہام میں ہی جھانکتے رہنا بہتر ہوگا، یہاں تک کہ اگر اس کے اپنے رازوں سے بوجھل گھر کے بارے میں سچائی کو دریافت کرنے کا کوئی راستہ نہ بھی ہو۔

Advertisement
Advertisement

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
پہاڑوں میں چھپی ایک مقدس نشانی
بابا گرونانک کا 556 واں جنم دن، بھارتی سکھ یاتریوں کی ننکانہ صاحب آمد
مفتی تقی عثمانی اور فیلڈ مارشل سید عاصم منیر دنیا کے با اثر مسلمانوں کی فہرست میں شامل
27 ویں آئینی ترمیم قومی اسمبلی سے پہلے سینیٹ میں پیش کی جائے، اسحاق ڈار
متنازع ترین نائب امریکی صدر 84 سال کی عمر میں انتقال کر گئے
ایشیا کپ میں کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی، آئی سی سی نے سزاؤں کا اعلان کر دیا
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر