Advertisement
Advertisement
Advertisement
Advertisement

اجارہ مغرب کا ادب استعارہ ہے

Now Reading:

اجارہ مغرب کا ادب استعارہ ہے

مصنفہ اینی ایرنا کس کا نوبل جیتنا ادبی نوع سے سوانح نگاری کی دیرپا اثر انگیزی کی عکاسی کرتا ہے

کراچی

زیادہ ترقارئین کے لیے سویڈش اکیڈمی گڈ ریڈز(Goodreads )کی ایک شاندارتبدیل شدہ صورت کے مترادف ہے جو انہیں ہراکتوبرمیں اپنے مطالعے کی فہرستوں پرنظرثانی کرنے اوراس میں گمنام مصنفین یا عنوانات شامل کرنے پرمجبورکرتی ہے۔یقین کے ساتھ ممتاز ادبی انعام کے فاتح کی پیشین گوئی کرنا مشکل ہے۔ قیاس آرائیاں بے نتیجہ رہتی ہیں کیونکہ ادب میں نوبل انعام یافتہ کا انتخاب اس شارٹ لسٹ سے نہیں کیا جاتا جسے عام کیا جاتا ہے۔ رازداری کے جذبے سے متاثریہ اعلان خلاف توقع حیرت کا عنصر رکھتا ہے۔

کئی عشروں سے ناول نگاروں، شاعروں، ڈرامہ نگاروں اورغیرافسانہ نگاروں کے متنوع مینوکو پذیرائی ملی ہے۔ بعض اوقات وصول کنندگان کا انتخاب انتہائی عجیب وغریب رہا ہے، جس نے ان معاملات میں سویڈش اکیڈمی کے فیصلے پرایک نہ ختم ہونے والی بحث کو جنم دیا۔ 2016ء میں نوبل کمیٹی نے ادبی سرگرمیوں کا ایک وسیع نظریہ اپنایا اور گلوکار،نغمہ نگارباب ڈیلن کو’’عظیم امریکی گانوں کی روایت کے اندر نئے شاعرانہ تاثرات تخلیق کرنے’’ کیلئےایوارڈ سے نوازا۔ اس فیصلے کو جو اگرچہ کسی حد تک انقلابی تھا، اس کی ناموزونیت کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا اورممتازشخصیات نے اسے سنجیدہ ادبی صلاحیتوں کے بہت بڑے طبقے کولاپرواہی سے نظرانداز کرنےکے طورپردیکھا۔

باالفاظ دیگر سویڈش اکیڈمی کے انتخاب کو ادبی کاوشوں سے لاتعلقی کی بنا پرعوامی سطح پرمسترد کردیا گیا ۔ جب آسٹریا کے مصنف پیٹر ہینڈکے نے 2019ء میں یہ ایوارڈ جیتا، توان شکوک و شبہات نے جنم لیا کہ یہ فیصلہ مصنف کے مشکل سیاسی نظریات کے بے باکی سےاظہار پر مبنی ہے۔ 1990ء کی دہائی میں بلقان کی جنگوں کے دوران سربیا کے آمرسلوبوڈن میلوسیوک کے طرزعمل کے ایک مضبوط حامی ہینڈکے کو نسل کشی کے معافی نامہ کے طورپرانعام سے نوازا  گیا تھا جس نے اپنے کام کو اپنے اشتعال انگیزعقائد کے لئے ایک راستے کے طورپراستعمال کیا تھا۔

Advertisement

بہرحال، ادب میں نوبل انعام یافتہ کا وصول کنندہ ہمیشہ تنازعات کا شکار نہیں رہا۔ 2021ء کے نوبل انعام برائے ادب کے فاتح عبدالرزاق گرناہ کو برطانیہ اورمشرقی افریقہ سے باہر نہیں جانا جاتا تھا، لیکن ان کا گمنام ہونا کامیابی کا باعث بن گیا۔ عبدالرزاق گرناہ کی نوبل جیت کو یوروسینٹرک نقطہ نظر کے مخالف کے طورپردیکھا گیا جوشاذونادر ہی ایسے فیصلوں پراثراندازہوتا ہے۔

82 سالہ فرانسیسی مصنفہ اینی ایرناکس کو 2022ء کا ادب کا نوبل انعام دینے کے کمیٹی کے فیصلے پرایک مذموم مقالہ لامحالہ یورو سینٹرزم کی واپسی پرنوحہ خوانی ہوگی۔ تاہم، اینی ایرناکس کا نوبل انعام حاصل کرنا ادبی حیثیت سے سوانح کی دیرپا مطابقت کی عکاسی کرتا ہے۔ سوانح کی تحریر نے عام طورپرپرجوش قارئین میں اپنی شدید مانگ کوبرقراررکھا ہے متنازع بیانات سے بھرپور خود نوشتوں کو مقبولیت حاصل رہی ہے۔ تاہم، یادداشتیں ایک خاموش کارکردگی ہیں اورایک ایسے مقام کے طورپرکام کرتی ہیں، جہاں ذاتی تاریخ کی کھدائی کی جاتی ہے اورپھربصیرت کے ساتھ پیش کی جاتی ہیں۔ زمانہ قدیم سے ماضی کو ان بڑی تحریکوں کے ذریعے سمجھا جاتا رہا ہے جن کا مرکز اکثرعوامی میدان ہوتا ہے۔ اینی ایرناکس کے کام کو نوبل کمیٹی نے ’’اُس جرات اورنفاست کے لیے سراہا ہے جس کے ساتھ یہ ذاتی یادداشت کی جڑوں، بیگانگی اوراجتماعی پابندیوں سے پردہ اٹھاتی ہیں‘‘۔ عصری تحریروں میں سوانح نگار کے کردارکو تسلیم کرنے کے لیے سویڈش اکیڈمی کی آمادگی نجی یادوں کے عوامی معیارکوتسلیم کرنے کے اس کے عزم کو ظاہر کرتی ہے۔

گزشتہ چند ہفتوں کے دوران اینی ایرناکس کی زندگی اورادبی کیریئر کے بارے میں بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ وہ یہ اعزاز حاصل کرنے والی 16ویں فرانسیسی مصنفہ ہیں اوریہ اعزاز حاصل کرنے والی فرانس کی پہلی خاتون ہیں۔ فرانسیسی صدرایمانوئل میکرون نے انہیں ایک طاقتورادبی آواز قرار دیا ہے جو ’’خواتین کی آزادی اور فراموشیوں‘‘ کی نمائندگی کرتی ہے۔ یہ کوئی رازنہیں ہے کہ وہ جفاکش طبقے سے تعلق رکھنے والے والدین کی بیٹی ہیں اورمختصرعرصے کیلئے رہائش اور ذاتی اخراجات کیلئے گھروں میں کام کیا۔ لگتا ہے کہ ان حقائق کو بڑی تندہی کے ساتھ بیان کیا گیا ہے، جو ان کے نوبل انعام پانے کو مزید قابل تحسین بناتا ہے، غربت سے امارت کی میک مسحور کن داستان ۔ اگرچہ، اینی ایرناکس کی بنیاد صرف اس حد تک اہم ہے کیونکہ وہ ہمیں  جامع معنوں میں مصنفہ کے کارناموں کے ساتھ مشغول ہونے کی اجازت دیتی ہے۔

1974ء میں اینی ایرناکس کے خود نوشت سے ماخود  ناول Les Armoires vides نے کتابوں کی الماریوں میں اپنی جگہ بنائی۔ انہوں نے مزید دوناول لکھے جوسرگزشت افسانوں کے دائرے میں بھی نمایاں نظر آئے۔ ان ناولوں میں سے ایک، ایک شادی شدہ عورت کی کہانی پیش کرتا ہے جس نے خود کو گھریلوپن کی وجہ سے دبا ہوا پایا اوراس میں آپ اینی ایرناکس کی اپنی شادی شدہ زندگی کا حوالہ دیکھ سکتے ہے۔ اس کے فوراً بعد مصنفہ نے ان حقائق کو سمیٹنے کے لیے خیالی جگہوں کو بہت زیادہ محدود پایا جسے وہ اپنے کام میں تلاش کرنا چاہتی تھی۔سختی سے فنکارانہ انداز میں اپنے والد کی زندگی کے بارے میں تفصیلات پیش کرنے میں ان کی ہچکچاہٹ نے اس فیصلے کو ہوا دی۔

ایک افسانوی تاریخ کے شکنجے سے نکل کراینی ایرناکس نے اپنی ذاتی تاریخ کی گہرائی میں کھوج کی اور اس کے متعدد پہلوؤں کو بے نقاب کیا۔ لا پلیس (ایک آدمی کی جگہ) ایک سوانح عمری ہے جوان کے والد کے ساتھ ان کے تعلقات کا جائزہ لیتی ہے اورفرانس میں ان کے چھوٹے شہر کی پرورش پر روشنی ڈالتی ہے۔ یادداشت ان کے والدین کی نچلے طبقے سے اعلیٰ سماجی طبقے تک پہنچنے کی مخلصانہ کوششوں کی ایک روشن تصویربھی پیش کرتی ہے اوریہ بتاتی ہے کہ کیسے اینی ارناکس کی زندگی کیسے بدل گئی جب وہ اپنے والدین سے دور چلی گئیں۔ اس کے بعد کی کتابوں میں اینی ایرناکس نے اپنی زندگی کے تاریک پہلوؤں کوغیرمعمولی جرأت اور حساسیت کے ساتھ پیش کیا۔ وہ ان مقامات میں جانے سے بھی باز نہیں آئیں جسے دوسرے تذکرہ نویس ان کی اپنی ذاتی زندگی پرحملے کے طورپردیکھ سکتے ہیں۔ نتیجے کے طورپراینی ایرناکس کا سادہ جذبہ ایک مشرقی یورپی آدمی کے ساتھ ان کے تعلقات پرگہری نظر ڈالتا ہے جبکہ یونی فیمی (Une Femme)اپنی والدہ کے انتقال کی تکلیف دہ تحقیق پیش کرتی ہے۔ناول L’Usage de la photo ایک رومانوی تعلق پرایک متحرک مراقبہ ہے جس کے ساتھ ساتھ مصنفہ کی چھاتی کے کینسرکے خلاف جنگ بھی موجود ہے۔ناول Les Années (The Years) میں انہوں نے تیسرے شخص کے بیانیہ کے تناظرمیں اپنے بارے میں لکھا ہے اور دوسری جنگ عظیم کے بعد سے فرانسیسی معاشرے کی بدلتی ہوئی نوعیت کی ایک پُرسکون اوربصیرت انگیز جھلک پیش کی ہے۔

برسہا برس کے دوران ان کے کام کو تنقیدی پذیرائی ملی ہے اور یہاں تک کہ انگریزی خواں (اینگلوفون) ممالک میں بھی ان کو تسلیم کیا گیا۔ چونکہ اینی ایرناکس نے ادب کا نوبل انعام جیتا ہے، اس لیے ان کے کام کو مزید وسیع تررسائی حاصل ہونے کا امکان ہے۔ اگرماورائے ادبی تحفظات ایک پیمائش کے آلے کے طور پر کام کرنا ہےتواینی ایرناکس انتہائی بائیں بازو کے سیاسی قائلوں کی حمایت کرتی ہیں جو کہ انسانی رابطے کے ذریعے رہنمائی کرتے ہیں۔ وہ فلسطینیوں کی زیرقیادت تحریک کی حامی بھی ہیں جواسرائیل کے خلاف بائیکاٹ، انخلا اور پابندیوں کا مطالبہ کرتی ہے۔ لہذا، اینی ایرناکس کا نوبل جیتنا بھی آبادکاراستعمارکے حملے کے خلاف علامتی مزاحمت کی عکاسی کرتا ہے۔

Advertisement
Advertisement

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
پہاڑوں میں چھپی ایک مقدس نشانی
بابا گرونانک کا 556 واں جنم دن، بھارتی سکھ یاتریوں کی ننکانہ صاحب آمد
مفتی تقی عثمانی اور فیلڈ مارشل سید عاصم منیر دنیا کے با اثر مسلمانوں کی فہرست میں شامل
27 ویں آئینی ترمیم قومی اسمبلی سے پہلے سینیٹ میں پیش کی جائے، اسحاق ڈار
متنازع ترین نائب امریکی صدر 84 سال کی عمر میں انتقال کر گئے
ایشیا کپ میں کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی، آئی سی سی نے سزاؤں کا اعلان کر دیا
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر