Advertisement
Advertisement
Advertisement
Advertisement

شہناز بیگم: سوہنی دھرتی کی سنہری آواز

Now Reading:

شہناز بیگم: سوہنی دھرتی کی سنہری آواز

شہناز بیگم کی نقرئی آواز اور ان کے گائے ہوئے سدا بہار گیت ،قدرتی طور پر پاکستان کے ملی تشخص سے مربوط ہیں

کراچی

 اسے خوشگوار اتفاق ہی کہا جاسکتا ہےکہ پاکستان کے لیے تین لازوال اور جذبہ حب الوطنی سے سرشار ملی نغمے گانے والی مشہور گلوکارہ شہناز بیگم 23 مارچ کو دنیا سے رخصت ہوئیں ۔ایک ایسا دن جب تقریباً ہر پاکستانی اس گلوکارہ کی آواز میں گائے گئے گیت جیسے ’سوہنی دھرتی اللہ رکھے ‘ ، ’جیوے جیوے پاکستان‘ اور ’دیا جلے رکھنا ہے‘ شوق سے سنتا ہے ۔ میں نے 20 جولائی 1982ء کو ڈھاکہ میں شہناز بیگم سے کراچی کے ایک ہفتہ وار اخبار کے لیے انٹرویو کیا تھا ۔ ہماری ملاقات بہت یادگار رہی ۔ پاکستان میں قیام کے دوران میں ایک مقامی انگریزی روزنامے کے لیے بھی شہباز بیگم کا انٹرویو کرچکا تھا ۔اس حوالے سے پاکستان ٹیلی ویژن کے کراچی سینٹر کے سابق جنرل منیجر زمان علی خان کے دفتر میں شہناز بیگم سے ایک دو بار ملاقاتیں بھی رہیں ۔انٹرویو مکمل کرنے کے بعد، میں نے انہیں 30 جولائی کو اپنی بیٹی کی پہلی سالگرہ کی تقریب میں شرکت کے لیے مدعو کیا۔انہوں نہ صرف سالگرہ کی تقریب میں شرکت کے لیے رضامندی کا اظہار کیا بلکہ اس موقع پر گانے کا وعدہ بھی کیا۔میری بیٹی کی سالگرہ بلاشبہ ہمارے لیے ناقابل فراموش تقریب ثابت ہوئی ۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ شہناز بیگم نے اس روز پہلا گانا، بہزاد لکھنوی کی غزل ’’کہاں ہو تم، چلے آؤ، محبت کا تقاضہ ہے‘‘ گایا تھا۔یہ گیت اصل میں بنگالی موسیقار علی حسین نے ترتیب دیا تھا، جو 1960ء کی دہائی میں پاکستان ٹیلی ویژن کے لیے کام کر رہے تھے۔گلوکارہ کی شہد جیسی میٹھی آواز میں گایا گیا یہ گیت بلاشبہ اس موقع پر موجود تمام لوگوں کے ذہنوں میں تازہ ہوگیا۔میرا بیٹا، جو اس وقت صرف پانچ سال کا تھا، وہ اب بھی اس مخصوص گیت کو اپنے پسندیدہ گیتو ںمیں شمار کرتا ہے۔

سالگرہ کی تقریب میں شہناز بیگم نے اپنے دوسرے مقبول گانے بھی گائے جن میں ’’ہم تم جہاں ملے تھے پھولوں کی راہ میں‘‘ اور ’’آس بندھی گھر آئے بدرا‘‘ شامل ہیں ۔ دونوں گانے سہیل رانا نے کمپوز کیے تھے اور انہیں اسد محمد خان نے لکھا تھا ۔ا س خوبصورت شام ، وہ میری اہلیہ کے ساتھ ڈھاکہ سے اپنے ساتھ لانے والی کانجیورم ساڑھیوں کے موضوع پر بات کرنے کے لیے کافی دیر بیٹھی رہیں ۔ان کے شوہر میجر (ریٹائرڈ) رحمت اللہ بنگلہ دیش کی ٹریڈنگ کارپوریشن میں میرے بہنوئی خواجہ سجاد کے ساتھی رہ چکے تھے، اس لیے ان سے بھی ملاقات بہت خوشگوار ماحول میں ہوئی ۔ ہم نے گلوکارہ کے پاکستان میں گزارے ہوئے وقت کے بارے میں باتیں کیں ۔ خاص طور پر پی ٹی وی کے عروج کے دنوں میں ، جب سرکاری ٹی وی پر  ’الف نون‘ اور ’خدا کی بستی‘ جیسے ٹی وی سیریز اور یادگار  گیت نشر کیے جاتے تھے ۔

شہناز بیگم نے اس موقع پر مسرور انور، اسد محمد خان اور جمیل الدین علی کے لکھے ہوئے ملی نغموں کی یاد کو تازہ کیا، جن کی دھنیں میوزک کمپوزر سہیل رانانے ترتیب دی تھیں ۔پی ٹی وی کو واقعی خوش قسمت ادارہ کہا جاسکتا ہےکہ جہاں سہیل رانا جیسے نہایت سمجھدار موسیقار نے شہناز بیگم کی سریلی آواز میں یادگار قومی گیت ترتیب دیئے جنھیں عوام آج بھی یاد کرتی ہے۔

Advertisement

میں یہاں یہ بتاتا چلوں کہ بنگالی گلوکاروں کی جانب سے اردو غزلوں کی بڑی مہارت سے گائیکی کو سن کر میں ہمیشہ حیران ہوتا تھا کہ وہ گانے کے دوران اردو الفاظ کا اتنا صحیح تلفظ کیسے ادا کرلیتے ہیں؟ حالانکہ عام طور پر بات چیت کے دوران وہ ایسا نہیں کر سکتے تھے ۔یہ بات خاص طور پر ان الفاظ کےلیے کی جارہی ہے جن میں حروف تہجی ’ز ‘شامل ہے۔بنگالیوں کےلیے’راہ گزار‘ ہمیشہ ’راہ گجور‘ ہوتا ہے جب کہ ’دلنواز‘ کو وہ ’دلنواج ‘ کہتے تھے ۔اس حوالے سے میں نے شہناز بیگم سے سوال بھی کیا لیکن انہوں نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا۔

اگرچہ عاجزی کو شہناز بیگم کی کامیابی کی اہم وجہ قرار دیا جاسکتا ہے ،لیکن اس گلوکارہ نے کبھی بھی اپنی کامیابیوں یا صلاحیتوں کے بارے میں فخریہ انداز میں بات نہیں کی۔ جیسا کہ اکثر بے پناہ مقبولیت حاصل کرنےکے بعد بعض مشہور شخصیات شہرت اور پہچان حاصل کرنے کے بعد کرتی ہیں۔ شہناز بیگم بے پناہ شہرت کے باوجود بیشتر گلوکاروں کے برعکس، سب کے لیے قابل رسائی تھیں۔بے حد سادہ اور پروقار شخصیت شہناز بیگم نے ہمیں اپنے گھر کھانے پر بھی مدعو کیا،لیکن مجھے افسوس ہے کہ ہم عشائیہ میں شریک نہیں ہو سکے کیونکہ اسی رات ہمیں نیپال کے لیے روانہ ہونا تھا۔

شہناز بیگم کے گائے ہوئے ملی نغمے آج بھی ہماری قومی موسیقی کے ذخیرے میں ایک انمول خزانے کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ اگرچہ وہ بنگلہ دیش کے قیام کے بعد پاکستان چھوڑ کر چلی گئی تھیں، لیکن ان کے گانے تمام قومی تقریبات کے موقع پر ملک بھر میں گونجتے ہیں۔

شہناز بیگم کے گائے ہوئے گیتوں نے تقریباً ہر پاکستانی کے دل کو چھوا ہے ، شائقین ان کی آواز کے سحر سے آج تک باہر نہیں نکل سکے۔ درحقیقت شہناز ،رانا کی جوڑی نے بہت سے شاہکار تخلیق کیے جوکسی معجزے سے کم نہیں ۔کم سے کم ہر پاکستانی بہت حد تک23 مارچ کو اس معروف ہستی کے دنیا سے گذر جانے کو حسین اتفاق سے تعبیر کرسکتا ہے۔

2 جنوری 1952ء کوڈھاکہ میں پیدا ہونے والی شہناز بیگم نے 11 سال کی عمر میں 1963ء میں ڈھاکہ میں ریلیز ہونے والی فلم ’نوٹن سر‘ کے لیے گلوکاری کا آغاز کیا۔اس کے بعد انہوں نے ڈھاکہ ٹی وی کے لیے اپنا پہلا گانا 1964ء میں ریکارڈ کرایا ۔ء 1960 کی دہائی کے آخر اور 1970ء کی دہائی کے اوائل میں، شہناز بیگم نے پی ٹی وی کے لیے ’سوہنی دھرتی اللہ رکھے‘ اور ’جیوے جیوے پاکستان‘ جیسے معروف ملی نغمے گائے۔بی بی سی کے ایک سروے کے مطابق اب تک کے 20 سب سے بڑے بنگلہ گانوں میں ، شہناز بیگم کے گائے ہوئے چار گانے شامل ہیں ۔ یہ ایک ایسا اعزاز ہے جو ابھی تک کسی اور بنگلہ دیشی گلوکار نے حاصل نہیں کیا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ انہوں نے بنگلہ دیش میں وہاں کی زبان میں گائے ہوئے ملی نغموں کے لیے بھی تعریفیں سمیٹیں ۔بنگلہ دیش کے قیام کے بعد،شہباز بیگم نے بنگالی زبان میں ’ایک نودی روکتو پیریئے‘ گایا، اس گیت کا شمار بہترین ملی نغموں میں کیاجاتا ہے۔

شہباز بیگم کے لازوال گائیکی کے اعتراف میں انہیں 1992ء میں بنگلہ دیش کا دوسرا سب سے بڑا سول ایوارڈ ’ایکوشے پیڈک‘ دیا گیا۔

Advertisement

یہ ایوارڈ ثقافت، تعلیم اور اقتصادیات سمیت متعدد شعبوں میں خدمات کو تسلیم کرنے کے لیے دیا جاتا ہے۔50 سالوں پر محیط اپنے کیرئیر میں شہناز بیگم نے ریڈیو، ٹی وی اور فلموں کے لیے تقریباً 500 گانے ریکارڈ کرائے، ان کے صرف تین سولو اور تین مشترکہ البمز ریلیز ہوئے۔ عمرے کی ادائیگی کے بعد شہباز بیگم نے کیریئر چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔بنگلہ دیش کے ایک اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ میں ان دنوں مذہب سے زیادہ قریب ہوں، اور اسی لیے میں اب کبھی گانا نہیں گاؤں گی۔اس کے بعد گلوکارہ نے پھر کبھی اپنے مداحوں کےلیے کوئی گیت نہیں گایا۔

یہاں پر ایک سابق ایڈیٹر سے سفارت کار ی کا سفر کرنے والے مرحوم واجد شمس الحسن کی ایک تحریر کا ذکر کرنا بھی غیر ضروری نہیں ، جس میں لکھا ہے کہ ’’لیڈر تاریخ بناتے ہیں اور تاریخ قومیں بناتی ہے،میں پاکستان کے71 سالہ جشن آزادی کو دیکھنا خدا کا خاص تحفہ سمجھتا ہوں‘‘۔اس کے علاوہ پاکستان ہائی کمیشن کے ایک سابق ساتھی اور پاکستان نیوی کے کموڈور نے مجھے مشرقی پاکستان کی گلوکارہ شہناز بیگم کے سدا بہار ملی نغمے ’’سوہنی دھرتی اللہ رکھے‘‘ کا ویڈیو کلپ بھیج کر میرا دل خوش کردیا ۔افسر نےاس ویڈیو کے ساتھ جو نوٹ تحریر کیا وہ انتہائی دلکش تھا۔انہوں نے لکھا کہ ’’ہماری تاریخ کی ستم ظریفی یہ ہے کہ ہمارے تمام مقبول ترین ملی نغمے بنگالی گلوکاروں نے گائے ہیں‘‘۔شہناز بیگم کے گائے ہوئے گیت کے بول اتنے حوصلہ افزا ہوتے تھے کہ ایک پرفارمنس کے دوران تقریب میں شریک وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو ، اپنی نشست سے اٹھ کر موسیقار سہیل رانا اور گیت میں حصہ لینے والے بچوں کے پیچھے جا کر ان کے ساتھ شامل ہوگئے ۔شہناز بیگم کی گائیکی اس قدر طاقتور تھی کہ انہوں نے مقبولیت میں شاعر حفیظ جالندھری کے لکھے ہوئے قومی ترانے کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ آج ملک میں ان کے گائے ہوئے قومی ترانے زیادہ مقبول ہیں ۔ بے شک شہناز بیگم اب اس دنیا میں نہیں رہیں لیکن قدرتی طور پر پاکستان کے امیج سے جڑی ان کی سنہری آواز، ہم سب کو صدیوں تک مسحور کرتی رہے گی۔

Advertisement
Advertisement

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
رواں مالی سال کے چار ماہ میں تجارتی خسارہ 38 فیصد سے بڑھ گیا
آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں ’’سپر مون‘‘ کا خوبصورت نظارہ دیکھا جاسکے گا
سونے کی قیمت مزید گھٹ گئی؛ فی تولہ کتنے کا ہوگیا؟
حکومت نے 24 سرکاری ادارے فروخت کرنے کا فیصلہ کرلیا، وزیر خزانہ
آسٹریلوی شخص نے دنیا کا طویل نام رکھنے پر عالمی اعزاز اپنے نام کر لیا
ملک بھر کے بجلی صارفین ایک بار پھر اضافی بوجھ کیلئے ہوجائیں تیار
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر