Advertisement
Advertisement
Advertisement
Advertisement

موسمیاتی تبدیلیاں بیماریوں اور اموات میں اضافے کا سبب

Now Reading:

موسمیاتی تبدیلیاں بیماریوں اور اموات میں اضافے کا سبب

کرونا وبا اور کینسر سے بھی زیادہ مہلک؟ محققین تیزی سے اس بات کا اندازہ لگانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اگر دنیا کاربن کے اخراج کو کم کرنے کے لیے تیزی سے کام کرنے میں ناکام رہتی ہے تو موسمیاتی تبدیلی کے صحت پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (جس کا کہنا ہے کہ صحت کے حوالے سے انسانیت کو درپیش سب سے بڑا خطرہ ماحولیاتی تبدیلی ہے) نے مصر میں منعقد ہونے والے سی او پی 27 سربراہی اجلاس میں مطالبہ کیا ہے کہ ترجیحی بنیادوں پر تمام تر توجہ اس مسئلے پر مرکوز کی جائے۔
لیکن مجموعی اثرات کا اندازہ لگانا ایک انتہائی پیچیدہ کام ہے، ماہرین کا کہنا ہے کہ گلوبل وارمنگ صحت کو بہت سے مختلف طریقوں سے متاثر کرتی ہے، جس میں بڑھتی ہوئی گرمی اور شدید موسم کے فوری خطرات سے لے کر طویل مدتی غذائی اور پانی کی قلت، فضائی آلودگی اور بیماریاں شامل ہیں۔
ڈبلیو ایچ او کا تخمینہ ہے کہ موسمیاتی تبدیلی 2030ء اور 2050ء کے درمیان غذائی قلت، ملیریا، اسہال اور گرمی کے دباؤ سے سالانہ ڈھائی لاکھ اضافی اموات کا سبب بنے گی۔
غیر سرکاری تنظیم گلوبل کلائمیٹ اینڈ ہیلتھ الائنس کی پالیسی سربراہ جیس بیگلی نے کہا کہ یہ بڑے پیمانے پر حقیقی اعداد و شمار کا ایک انتہائی قدامت پسند تخمینہ سمجھا جاتا ہے کیوں کہ جزوی طور پر یہ صرف چار ذرائع سے حاصل ہوتا ہے۔

Advertisement
انہوں نے کہا، ’’موسمیاتی تبدیلیاں خطرات میں اضافے کا بنیادی سبب ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیوں میں اضافے کے ساتھ انسانی صحت کے لیے سب سے بڑے خطرات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔‘‘
اقوام متحدہ کے موسمیاتی ماہرین کے پینل آئی پی سی سی کی اس سال کی ایک رپورٹ کے مطابق، دنیا بھر میں ہونے والی تمام اموات میں سے تقریباً 70 فیصد ان بیماریوں سے ہوتی ہیں جو گلوبل وارمنگ کی وجہ سے بدتر ہو سکتی ہیں۔
42 لاکھ مزید اموات؟
گزشتہ ماہ دی لانسیٹ کاؤنٹ ڈاؤن کی ایک رپورٹ کے مطابق، (جو کہ صحت پر موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کا تعین کرنے کی ایک اہم کوشش ہے) صحت کا ایک اور بڑا خطرہ خوراک کی کمی کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ 1981ء سے 2010ء تک کے مقابلے میں 2020ء میں تقریباً 100 ملین اضافی لوگوں کو شدید غذائی عدم تحفظ کا سامنا کرنا پڑا۔
گزشتہ 50 سالوں میں انتہائی خشک سالی میں تقریباً ایک تہائی اضافہ ہوا ہے، جس سے لاکھوں لوگوں کو تازہ پانی تک رسائی نہ ہونے کا خطرہ لاحق ہے۔
فضائی آلودگی 2020ء میں 33 لاکھ اموات کی وجہ بنی، جن میں سے 12 لاکھ کا براہ راست تعلق فوسل فیول کے اخراج سے تھا۔
Advertisement
محققین یہ خدشہ بھی ظاہر کر رہے ہیں کہ گرم درجہ حرارت وائرس کی منتقلی کا سبب بننے والے جانداروں جیسے مچھروں کو نئے علاقوں میں دھکیل رہا ہے، جس کی وجہ سے موجودہ بیماریوں کے پھیلاؤ میں اضافہ ہو رہا ہے اور نئی بیماریوں کے انسانوں میں منتقل ہونے کا خطرہ بڑھا رہا ہے۔
لانسیٹ کاؤنٹ ڈاؤن رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ 50 سالوں میں ڈینگی کے پھیلاؤ کے امکانات میں 12 فیصد اضافہ ہوا ہے، جبکہ درجہ حرارت میں اضافے نے افریقہ کے کچھ حصوں میں ملیریا کے موسم کے دورانیے کو 14 فیصد تک بڑھا دیا ہے۔
مستقبل کے بارے میں منصوبہ بندی کرتے ہوئے، اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام اور کلائمیٹ امپیکٹ لیب کے ذریعے نومبر میں شروع کیے گئے ایک نئے پلیٹ فارم نے خبردار کیا کہ گلوبل وارمنگ دنیا کے کچھ حصوں میں کینسر سے بھی زیادہ مہلک ثابت ہو سکتی ہے۔
رکازی ایندھن کے اخراج کو تیزی سے کم کرنے میں ناکامی، ماڈلنگ ریسرچ کی بدترین صورت ہوگی جس کے تحت موسمیاتی تبدیلیاں 2100ء تک دنیا بھر میں 53 اموات فی ایک لاکھ افراد کا سبب بن سکتی ہیں جہ کہ پھیپھڑوں کے کینسر کی موجودہ شرح سے تقریباً دوگنا زیادہ ہے۔
موجودہ عالمی آبادی کے اعتبار سے اس کا مطلب ہوگا کہ ہر ایک سال میں 42 لاکھ اضافی اموات ہوں گی، جو 2021ء میں کرونا وبا سے ہونے والے سرکاری اعداد و شمار سے زیادہ ہے۔
عدم مساوات میں اضافہ
Advertisement
کلائمیٹ امپیکٹ لیب کی ہننا ہیس نے اے ایف پی کو بتایا کہ یہ تخمینے شاید قدامت پسند تھے کیونکہ انہوں نے اموات اور موسم کے بارے میں پچھلے اعداد و شمار کا مستقبل کے ممکنہ درجہ حرارت سے موازنہ کیا تھا، اس لیے ان تخمینوں میں بیماریوں کو منتقل کرنے والے جانداروں کی وجہ سے پیدا ہونے والی بیماریوں جیسے ممکنہ خطرات شامل نہیں تھے۔
پلیٹ فارم نے دنیا بھر میں 24 ہزار سے زیادہ خطوں کے لیے مخصوص مقامی تخمینے بھی دیے۔ بدترین صورتحال کے تحت، اس نے محسوس کیا کہ بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ میں، 2100ء تک موسمیاتی تبدیلی سے ہونے والی اموات، کینسر سے ہونے والی اموات کے مقابلے میں دوگنا ہو سکتی ہیں۔
اس تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ کچھ ایسے شمالی ممالک میں اموات کی شرح میں کمی آئے گی (جن میں سے زیادہ تر امیر ممالک ہیں) جہاں سردی کی شدت میں کمی صحت میں بہتری کا باعث بن سکتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ موسمیاتی تبدیلی کے سبب عدم مساوات میں اضافے کے خدشات بھی بڑھ رہے ہیں۔
ایسی اضافی اموات کو ’کاربن کے اخراج کی سماجی قیمت‘ کے طور پر تسلیم کرنے کے لیے اپیلیں کی گئی ہیں، جسے ایک ٹن کاربن ڈائی آکسائڈ سے منسوب نقصان کے برابر شمار کیا گیا ہے۔
ستمبر میں شائع ہونے والی تحقیق کا اندازہ لگایا گیا ہے کہ فی میٹرک ٹن 51 ڈالر کی موجودہ قیمت سے تقریباً چار گنا کم تھی، کیونکہ اس نے اضافی اموات کے اثر کو کم سمجھا۔
Advertisement
عالمی خیراتی ادارے ویلکم ٹرسٹ کے آب و ہوا اور صحت کے ڈائریکٹر ایلن ڈینگور کے مطابق اُن کے ادارے کا شمار صحت پر گلوبل وارمنگ کے اثرات کے حوالے سے مزید تحقیق کے لیے فنڈز فراہم کرنے والے اداروں میں ہوتا ہے۔
ایلن ڈینگور نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’’جلد ہی موسمیاتی تبدیلی صحت عامہ کے ہر پہلو کو متاثر کرے گی۔ اگر ہم آب و ہوا کی تبدیلی کو اپنی سوچ میں شامل نہیں کر رہے، تو ہم اس نقطہ نظر کو مکمل طور پر کھو چکے ہیں۔‘‘

Advertisement
Advertisement

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
اسلام آباد انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر فرضی طیارہ حادثہ کی ہنگامی مشق کل ہو گی
پی ٹی اے اور میٹا کا مشترکہ قدم، پاکستان میں انسٹاگرام پر کم عمر صارفین کیلیے فیچر متعارف
سونے اور چاندی کی قیمتوں میں ایک بار پھر بڑا اضافہ ریکارڈ
شہرقائد میں ٹریفک کی خلاف ورزی؛ دوسرے روز بھی ڈھائی کروڑ سے زائد کے ای چالان
بنگلادیش کے وزیرخزانہ کا ایف ٹی او سیکرٹریٹ کا دورہ؛ ڈاکٹر آصف محمود جاہ کی قیادت کو خراجِ تحسین
پاک بحریہ کے بابر کلاس کورویٹ "پی این ایس خیبر" کے فائر ٹرائلز کامیابی سے مکمل
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر