57 فنکاروں پرمشتمل فن پاروں کی نمائش میں امین گل جی کے شو ’’جگہ ہے‘‘ میں منفرد، بھیانک اورناقابل فہم فن پاروں کونمائش کے لیے پیش کیا گیا۔ جیسے ہی حاضرین گھر کی دہلیز سے داخل ہوئے ان کا استقبال ارسطو ولانوئیوا اورمشہود قریشی نے پُرجوش ریپ اور ڈانس پرفارمنس سے کیا۔حاضرین فریال یزدانی کا’’ہر زندہ، سانس لینے والی ہستی کی گہرائیوں میں‘‘ کے عنوان سے اورعلی سموں کے ’’زندگی اورمحبت کرنے والے‘‘کے عنوان سے کام دیکھتے ہوئے آرہے تھے کہ پورا ڈرائیو وے ’’جگہ ہے؟‘‘ کے نعرے (کیا کوئی جگہ باقی ہے؟) سے گونج اٹھا۔ جیسے ہی حاضرین کا جلوس آگے بڑھا اورگھرمیں داخل ہوا، امین گل جی نے اپنے ساتھی ایڈم فہی مجید اورسارہ وقار پگگن والا کے ہمراہ ایک گونج دارآوازکے ساتھ “جگہ ہے؟” کے نعروں کا جواب دیا کہ ’’ہاں جگہ ہے!‘‘ ۔ جیسے ہی شوخ اورمتجسس گھڑسواردستہ گھرکے احاطے میں داخل ہوا، ہرکسی کو یہ تاثر ملا کہ وہاں کے ہر فرد نے اطالوی شاعر دانتے الیگیری کے ساتھ مل کر اس دنیا میں داخل ہو گیا ہے جس کا تصوراس کی عظیم نظم ’’دی ڈیوائن کامیڈی‘‘ میں پیش کیا گیا ہے۔
زمین دوز حجرے سےابھرنے والی مخلوق کی طرح حاظرین کو مختلف انداز سے پرفارم کرنے والے فنکاروں نے گھیرلیا، ہرایک کا انداز جداگانہ تھا۔منفرد سے لے کرمزاح نگاری، ناقابل فہم اور بھیانک تک امین گل جی کا لاجواب اورخوفناک ونڈرلینڈ دیکھنے کے لائق تھا۔اکثرنمائشوں کے برخلاف جہاں کوئی احتیاط سے تیار کردہ، منظم اورنامزد گیلری میں داخل ہوتا ہے، امین گل جی کے گھر کی پرفارمنس میں گیلری کی تعریف کے روایتی تصورکومشابہت کی جھلک اور پش گوئی کی کسی بھی علامت کے ساتھ کھڑکی سے باہرنکال پھینکا تھا- اوپرسے نیچے تک پورا گھر گیلری تھا، اور امین گل جی کے گھرکی چاردیواری کےاندرسارڈین(چھوٹی مچھلی کے غول) کی طرح بھرے تمام لوگ آرٹ ورک کا حصہ تھے۔ حاظرین سے یہ توقع نہیں کی گئی تھی کہ وہ آرام سے چلیں گے اوردیواروں پرنصب فن پاروں کو غورو فکر، پرامن اور گراں اندازمیں دیکھیں گے۔ اس کی بجائے یہاں آرٹ خود چل کر آپ کے پاس آکر آپ کو اس کا سامنا کرنے اوراس سے مقابلہ کرنے پرمجبورکرتا ہے۔
نمائش کا عنوان’’جگہ ہے‘‘ بیک وقت ایک سوال اورجواب دونوں کے معنی میں آتا ہے۔ کراچی جیسے شہر میں جگہ کی جنگ محض زمین پر ناجائز قبضے میں اضافے، تجاوزات، ٹریفک کی بھیڑ،عوامی جگہوں کی کمی وغیرہ کے دائرے میں نہیں آتی بلکہ جگہ کی جنگ قبولیت کی جدوجہد بھی ہے۔ کیا کراچی اپنے تمام شہریوں کو مذہب، جنس، عقیدہ یا سیاسی وابستگی سے قطع نظرقبول کرسکتا ہے؟ کیا ہم واقعی بلاامتیازسب کے لیے جگہ فراہم کر سکتے ہیں؟ کیا ہم میں سے اقلیتوں اورحق رائے دہی سے محروم افراد کو کبھی ایسا محسوس ہو سکتا ہے کہ انہیں جگہ دی جائے گی اوران کو شمارکیا جائے گا؟ یہ بنیادی سوالات اس پرفارمنس آرٹ شو کا مرکز تھے اور امین گل جی کا خیال ہے کہ کسی ایک کے لیے جگہ ہے تو سب کے لیے جگہ ہونی چاہیے۔
گھرکے ٹاور جیسے ڈھانچے کو سولہ حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا، ہرایک حصے میں کم ازکم پرفارمنس آرٹ کا ایک نمونہ تھا۔ حاظرین گھر سے گزرتے ہوئے، ایک کمرے سے دوسرے کمرے میں ایک بہاؤ کی طرح عجیب وغریب لیکن غیرمنظم دلکش نمونوں کو سلجھانے اورمسلسل ادراک کرنے کوشش کرتے رہے۔ تاہم، یہ دلیل دی جا سکتی ہے کہ اس نمائش کا مقصد حاظرین کو کام کوسمجھنے اوراس کی تشریح کرنا تھا۔ اس کی بجائے اس کا مقصد حاضرین کوایک تجربہ دینا تھا، ان کی حوصلہ افزائی کی جائے کہ وہ تمام ہوش و حواس کے ساتھ اس میں شامل ہوں اور امین گل جی اوران کے ساتھیوں کی تخلیق کردہ دنیا کے لیے بے باکی اورپورے دل سے عہد کریں۔ آپ یا تو اس میں پوری طرح شامل ہو گئے یا پھر “جگہ ہے” کو محتاط انداز میں دیکھ کر چھوڑ دیا۔
گھر کی دہلیزپرآر ایم نعیم کے کام’’میرے دل میں جگہ ہے‘‘ نے شو کے موضوعاتی خطوط پرعمل کرتے ہوئے خلاء کے تصورکی تشریح کی جو کہ جسمانی قبولیت سے ماورا ہے۔ آر ایم نعیم نے گلاب کی پنکھڑیوں کےایک ڈھیر کو دل کی شکل میں ترتیب دیا تھا جسے ایک تیر سے چھیدا گیا تھا، تیربھی پنکھڑیوں سے بنایا گیا تھا۔ تاہم، اہم بات یہ ہے کہ دل کے پاس اپنے مرکز کی طرف جانے والا ایک کھلا راستہ تھا۔ اس موقع پرحاظرین کو نہ صرف گلاب کی پنکھڑیوں کے بسترپرلپیٹ کراپنی تصویریں کھینچنے کا ایک بہترین موقع فراہم کیا گیا بلکہ یہ اس تصورکی بھی علامت ہے کہ اگر لوگ ذاتی سطح پرایک دوسرے کو قبول کرنے کے قابل ہیں توجسمانی جگہ کے بارے میں بحث غیر ضروری ہو جاتی ہے.آر ایم نعیم کے کام کے بالکل ساتھ گیبریل برنسمیڈ کے ’’پیس ان ریسٹ‘‘ فن پارے میں فنکارکو دائمی بے حسی کی حالت میں پڑا دکھایا گیا تھا، جوپوری نمائش کے دورانیے میں مکمل طور پر بے حس و حرکت تھا۔
بڑی گیلری کی جگہ میں اکبر زیدی اپنے یویو کے ساتھ کرتب دکھاتے ہوئے گھوم رہے تھے، رقیہ عبدالعزیزکا دلکش کام جس میں اسنو وائٹ نما آئینہ شامل تھا جسے “غیر منصفانہ یاد” کہا جاتا ہے اورعبیر یونس کے فن پارے ’’بول کے لب آزاد ہیں تیرے‘‘ نمائش کے لیے رکھے گئے تھے۔فن کے مظاہرے یا دیگر آرٹ کے درمیان حد بندی کی کمی تھی- حاضرین ریگ رواں یا بعض صورتوں میں واقعتا گھربھرمیں رکھے تمام فن پاروں سے ٹکرا سکتے ہیں۔ بلال جبار کی ’’سفر‘‘، فاران قریشی کی ’’کچھ کرتے کیوں نہیں‘‘ اورمونا صدیقی کی ’’ایڈن کوائل‘‘ نے اس پربحث جاری رکھی کہ کراچی اوراس کے شہریوں کے لیے جگہ کا تصور کیا معنی رکھتا ہے۔
اس میں شامل 57 مصوروں اورفنکاروں کو دیکھتے ہوئے،ان کے تصورات کی وسعت اور گہرائی کے پیش نظران کے تمام کام کے ساتھ انصاف کرنے کی کوشش کرنا ایک مشکل امر ہے۔ اس لیے یہ کہنا کافی ہے کہ وجدان شاہ، جمال عاشقین، اسامہ سعید، ام فروا، الامین ایم، نوشین سعید، رومیسا خان، موسیٰ حسن کمانی اورایاز حسین نے امین گل جی کے گراؤنڈ فلور پرگیلری میں ماحول اور توانائی کی فراہمی میں کافی معاونت کی۔
سیڑھیوں سے چڑھتے ہی بالائی منزل پر دی ڈیوائن کامیڈی میں ورجیل کے ساتھ جہنم کے حلقوں میں اترنے والے ڈینٹ کا الٹا تصورنظر آتا ہے- ہر منزل اور کمرے نے گوتھک اورغیرحقیقی پرفارمنس کی ایک جھلک دکھائی دیتی ہے۔ مہرافروزکا’’درخراب ہو تو‘‘ سب سے زیادہ تر کاموں میں شور، بے باکی اوربے ادبی نمایاں تھی۔ پرفارمنس پیس میں فنکار کوامین گل جی کے گھرکے اوپری حصے میں بٹھا کر میر انیس کی نظمیں سنائی گئیں۔ نوجوانوں کے ایک گروپ نے ایک جھرمٹ بنایا اورافروزکے قدموں سے لپٹ گئے، جب انہوں نے انہیں کربلا کے واقعات کی اہمیت اورمیرانیس کے مرثیوں میں اس سانحے کی تصویرکشی پیش کی۔ حاضرین جب گھر کی چھت پر پہنچے تو انہوں نے وہاں ادریس حنیف، عمارہ جبار، یمنہ علی، راحیل صدیقی، طلال فیصل اسماعیلی، ونیزہ علی اورزوجہ عرفان کی پرفارمنس دیکھی۔ منیزہ علی کی ’’پولارس‘‘ میں اپنی بیٹی کے ساتھ ٹیروکارڈ پڑھے اوران کے معنی بتائے ،وہ حاضرین کو اپنے سامنے بیٹھنے،کارڈ لینے اور اس طرح پرفارمنس کا حصہ بننے کی دعوت دے رہی تھیں۔
چھت کے درمیانی حصے میں شیما کرمانی نے ایک تعبیری رقص پیش کیا، جس کا نام تھا ’’تم، میں اور ہماری جگہ‘‘۔وہ چھت کے دھاتی سجاوٹی ڈھانچے کے گرد ایک پاؤں پر جھومتی رہیں اوراترا کر چلتی رہیں۔ اس کے ساتھ برساتی کے کمرے میں انجلین ملکسات ایک بسترپربیٹھی آنے والوں کو پھل پیش کررہی تھیں، جب کہ نورین علی اپنی پرفارمنس پیس ’’بڑھیا کے بال‘‘ کے لیے کاٹن کینڈی بنا رہی تھیں۔ دوسری اورتیسری منزل پردانش رضا، شہروزعلی، کلاڈیا آرنلڈ، شکیرا مسعود، رمیز عبدالرحمن او شیخ فیضان چاولہ نے اپنے فن پاروں کی نمائش کی۔
شاید سب سے زیادہ اپنی گرفت میں لینے والی پرفارمنس امین گل جی کے کارنیوالسک شو کی سمٹ تھی۔ چاند تارا آرکسٹرا کے رکن بابر شیخ نے اپنے الیکٹرک گٹارپرکچھ دھنیں بجائیں، جب کہ ساڑھی میں ملبوس عائشہ طور نے کپڑے کے ٹکڑوں کو جلایا اور پھرانہیں اپنے چہرے کے گرد لپیٹا،اور پھر اس عمل کے اختتام پر ان سےاپنا منہ بند کرلیا۔’’جگہ ہے‘‘ میں نمائش کے لئے رکھے گئےبیش تر فن پاروں کی طرح عائشہ طور اورب ابرشیخ کی پرفارمنس کو سمجھنا شاید مشکل تھا، لیکن اس نے تجس اور حیرت میں اضافہ کیا۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News
