Advertisement
Advertisement
Advertisement
Advertisement

پاکستانی سنیما کے اتار چڑھائو

Now Reading:

پاکستانی سنیما کے اتار چڑھائو

چند ہفتے پہلے، میں نے ’بولڈ‘ کے لیے فلم ’’جوائے لینڈ‘‘  کے ہدایت کار صائم صادق کا انٹرویو کیا تھا۔ انٹرویو میں، میں نے ان سے پوچھا کہ وہ کیوں سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے لوگ ان کی جلد ہی ریلیز ہونےو الی فلم کو ہاتھوں ہاتھ لیں گے۔ صائم نے پرجوش انداز میں جواب دیا تھا کہ وہ فلم کے حوالے سے بہت پر امید ہیں اور ملک میں فلم کے ناظرین کی جانب سے مثبت ردعمل کی توقع کر رہے ہیں کیونکہ فلم نے کئی سنگ میل عبور کرلیے ہیں۔

نہ صرف وہ بلکہ پاکستانی فلمساز اور ہدایت کار ابو علیحہ بھی اپنی فلم ’’جاوید اقبال: دی ان ٹولڈ اسٹوری آف اے سیریل کلر‘‘ کے لیے یکساں طور پر پرجوش تھے اور اسی طرح سرمد کھوسٹ اپنی فلم   زندگی تماشا‘‘ کے لیے، شمعون عباسی بطور ہدایت کار اپنی پہلی فلم ’’ دُرج ‘‘ اور شعیب منصور فلم ’’ ورنہ‘‘ کے حوالے سے بہت پرجوش تھے۔ وہ سب پرجوش تھے کیونکہ انہیں نظام کی ’سیڈو پروگریسو‘ اپروچ پر بھروسہ تھا۔ تاہم، شدید ردعمل کے لیے تیار سنسر بورڈ اخلاقیات کو برقرار رکھنے کی آڑ میں تخلیقی صلاحیتوں کا بیڑا غرق کرنے کے ساتھ ساتھ ترقی پسند خطوط پر بنائی گئی ایسی فلموں پر فوری پابندی لگانے میں بہت تیزی دکھاتا ہے۔

ہر ریاستی ادارے خصوصاً فن سے وابستہ اداروں میں منافقت کا راج ہے۔ یہ جاننے کے باوجود بھی کہ جوائے لینڈ واحد فلم ہے جو اپنی سادہ لیکن مضبوط کہانی کی وجہ سے آسکر کے لیے نامزد ہونے کے قابل ہے، اس فلم کو اپنے ہی ملک کے سنسر بورڈ سے جنگ کرنی پڑی، وزیراعظم سے اپیل کرنی پڑی کہ اس کی ریلیز پر لگی پابندی اٹھائی جائے، ہیش ٹیگ #Release Joyland کے ساتھ متعدد سوشل میڈیا مہمات شروع کیں، جس کے نتیجے میں سنسر بورڈ اپنے جلد بازی میں کیا گیا فیصلہ واپس لینے پر مجبور ہوا۔ جوائے لینڈ کا معاملہ کوئی پہلا معاملہ نہیں ہے کیونکہ پابندی کا کلچر عشروں سے ملک میں فن کے منظرنامے کو متاثر کر رہا ہے۔

پاکستان میں ایسی فلموں کی ایک بڑی تعداد ہے جن پر ریلیز سے قبل یا بعد میں خاص طور پر غیر اخلاقی مواد اور مذہبی عقائد اور رسوم کی توہین کی بنیاد پر پابندی لگائی گئی ہے۔ الجھن اور دبائو میں آکر حکومت نے شروع میں جوائے لینڈ کو اسکریننگ کے لیے کلیئر کر دیا، پھر اس پر پابندی لگا دی، اس کا دوبارہ جائزہ لیا اور کچھ سین کاٹنے کے بعد اسے ریلیز کرنے کا اعلان کیا اور پھر آخر کار اس پر ہمیشہ کے لیے پابندی لگا دی۔ اگر فیصلے کی بات کی جائے تو صوبوں کے درمیان کبھی اتفاق رائے نہیں رہا۔

جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا ہے، بین الاقوامی ایوارڈ یافتہ جوائے لینڈ پہلی فلم نہیں ہے جو پابندی کے کلچر کا شکار ہوئی کیونکہ قریب تھا کہ اس پر ہمیشہ کے لیے پابندی عائد کردی جاتی۔ درحقیقت جاوید اقبال، زندگی تماشا، اور میں تم سے وہاں ملوں گی جیسی اور بھی بہت سی فلمیں ہیں جنہیں پاکستان میں ریلیز نہیں ہونے دیا گیا لیکن پھر بھی وہ بین الاقوامی ایوارڈز جیتنے میں کامیاب رہیں۔

Advertisement

پاکستان میں حال ہی میں دیگر جن فلموں پر پابندی عائد کی گئی ان میں’’ ورنہ ‘‘ بھی شامل ہے ، جس میں طاقتور اشرافیہ کے بدصورت پہلو کو پیش کیا گیا ہے، اور ’’ دُرج ‘‘ ایک ایسے شخص کی حقیقی زندگی کی کہانی پر مبنی ہے جو قید سے بچ جاتا ہے کیونکہ قانون میں اس کے مبینہ جرائم کے لیے صراحت کردہ کوئی سزا نہیں ہے۔ ایک فرد یہ سوچ کر حیران ہوتا ہے کہ اصل معیار اور ریاستی پالیسی کیا ہے جو عقلی بنیادوں پر کسی بھی فلم کو منظور یا مسترد کرنے کے لیے عمل میں لائی جاتی ہے ۔ سنسر بورڈ ایسے نازک معاملات کا فیصلہ کیسے کرتا ہے اور بورڈ کی نظر میں تفریحی فلم کی کیا خصوصیات ہوتی ہیں؟

ہم نے یہی سوال پاکستان کی تفریحی صنعت کے معروف ناموں سے پوچھا۔ آئیے ذیل میں اس تاثر کو تلاش کریں جو صنعت پر حکمرانی کرتا ہے:

ایک تجربہ کار ڈرامہ نگار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا،”ہم اس کے بارے میں بات کرنا بھی کیوں پسند کرتے ہیں؟ پاکستان ایک مشکلات سے دوچار ملک ہے۔ ملک کو درپیش دیگر اہم مسائل ہیں جن پر غور و خوض کی ضرورت ہے۔ جہاں تک فل، جوائے لینڈ کا تعلق ہے، میں اس فلم کے بارے میں تب تک کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہوں گا جب تک میں اسے پوری طرح سے نہیں دیکھ لیتا۔ بہرحال جب بھی کوئی ٹی وی سیریل یا فلم معاشرے کی اخلاقیات اور اخلاقی اقدار کی خلاف ورزی کرتی ہے تو اس پر فوراً پابندی لگا دی جانی چاہیے، چاہے وہ میری ہدایت کاری یا پروڈکشن میں ہی کیوں نہ بنی ہو۔‘‘

محسن علی، جو ایک معروف اسکرپٹ رائٹر ہیں، مروجہ پابندی کے کلچر کی جانب ایک اور نقطہ نظر رکھتے ہیں کیونکہ وہ سنسر بورڈ کی منافقانہ حرکتوں کی کھلے الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں،”کسی فلم پر مکمل پابندی لگانا ہمیشہ ایک مضحکہ خیز اقدام ہوتا ہے۔’’

 انہوں نے مزید کہا، ‘‘ فلم جوائے لینڈ کی ریلیز پر پابندی لگانے کا فیصلہ کافی مضحکہ خیز تھا۔ پاکستان کے ہر صوبے میں ایک، یعنی مجموعی طور پر کل چار سنسر بورڈ کام کر رہے ہیں۔ کسی بھی فلم کی قسمت کے بارے میں فیصلہ کرنے سے پہلے ان سب میں اتفاق ہونا چاہیے اور حتمی فیصلہ وفاقی سنسر بورڈ کا ہونا چاہیے۔ تاہم سندھ بورڈ کو جوائے لینڈ کی سینما گھروں میں نمائش سے کوئی مسئلہ نہیں ہے جبکہ باقی تین بورڈز اس کی نمائش کے خلاف ہیں۔ کتنی شرم کی بات ہے!’’

’’محسن علی کے مطابق،‘‘ ہمارے پاس ہمیشہ فلم دیکھنے یا نہ دیکھنے کا اختیار ہوتا ہے۔ جن لوگوں کو فلم کے حوالے سے پریشانی ہو رہی ہے وہ فلم دیکھنے کے لیے نہ جائیں، لیکن فحاشی کے فروغ کا ذریعہ سمجھتے ہوئے فلم پر پابندی لگانا قابل عمل حل نہیں ہے۔ تفریح کے ایک جزو پر پابندی نہیں لگائی جانی چاہیے۔‘‘

Advertisement

اس دوران مجھے انٹرٹینمنٹ انڈسٹری سے فیڈ بیک مل رہا تھا، میں سنسر بورڈ سندھ کے سیکریٹری سے رابطہ کرنے کی کوشش کرتی رہی جنہوں نے مجھے بار بار کہا کہ ان کے لیے پیغام چھوڑ دوں یا بعد میں کال کروں۔ میں نے کوشش کی کہ نہیں اپنے تنگ کیے جانے کا احساس نہ ہونے پائے لیکن ان کے ردعمل سے ظاہر تھا کہ وہ اس معاملے پر بالکل کچھ کہنا نہیں چاہتے تھے۔

نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر، ایک اور اداکار نے کہا کہ ان معاملات کے تناظر وہ لوگوں کو ایک چھوٹا سا پیغام دینا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا “سنسر بورڈ کے مقرر کردہ معیار اور اس کی پالیسیاں تو بعد میں آتی ہیں، کیونکہ فلم کی منظوری یا پابندی کے لیے انہیں اپنے تصورات کے ساتھ ساتھ مقررکردہ اعلیٰ معیارات اور پیمانوں کے بارے میں جاننا زیادہ ضروری ہے۔ انہوں نے جاوید اقبال جیسی فلم پر پابندی لگا دی، جو ایک سچی کہانی پر مبنی فلم تھی۔تاہم وہ کون سے اہم عوامل تھے جنہوں نے سنسر بورڈ پر فلم پر پابندی لگانے کے لیے دباؤ ڈالا، یہ ابھی تک معلوم نہیں ہے۔ لوگوں کا ایک مخصوص گروہ ہمیشہ ایسا ہوتا ہے جو کسی کام کے حوالے سے فیصلہ کن اختیار رکھتا ہے۔ نیز نظم و ضبط برقرار رکھنے کی خاطر پالیسیاں اور ضابطے صرف کاغذوں پر ہوتے ہیں، اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ “

پاکستان میں مقیم ایک فلمساز اور ہدایت کار ابو علیحہ کا کہنا ہے کہ “بطور ایک آزاد فلمساز، مجھے خوشی ہے کہ شیطانی چکر ٹوٹ گیا ہے ا ور اس کی وجہ سوشل میڈیا کی طاقت اور مضبوط عوامی رابطے ہیں۔ جوائے لینڈ کی ریلیز نے پاکستان میں ایک مثال قائم کر دی ہے۔ میں ابھی تک سینما گھروں میں فلم کی نمائش کا انتظار کر رہا ہوں کیونکہ آپ کو معلوم نہیں ہوگا کہ اس کی ریلیز سے قبل بھی کوئی مذہبی سیاسی قوت یا تنظیم حکومت کو فلم پر پابندی لگانے یا اسے عدالت میں لے جانے پر مجبور کر سکتی ہے۔ ایک بار جب یہ رکاوٹ دور ہو جائے گی تو میں فلم ‘‘ جاوید اقبال: دی ان ٹولڈ سٹوری آف اے سیریل کلر’’ کی ریلیز کے لیے بھی کام کر سکوں گا۔‘‘

’’ جاوید اقبال‘‘ کے بارے میں اپنی ابھی تک ریلیز کی منتظر فلم پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے ابو علیحہ نے کہا کہ فلم کو فیڈرل بورڈ اور فل بورڈ دونوں سے منظوری نہیں مل سکی۔ اس پر مستزاد یہ کہ ہم اپیلٹ بورڈ میں اپیل دائر کرنے کے قابل نہیں تھے کیونکہ یہ بورڈ چار سال قبل تحلیل ہوگیا تھا اور اس کے بعد دوبارہ تشکیل نہیں پاسکا۔

تجربہ کار ٹی وی اور فلم اداکار اور ہدایت کار شمعون عباسی نے بولڈ کو بتایا کہ ان کی فلم ’’ دُرج ‘‘ پر پابندی عائد کی گئی تھی کیونکہ اس میں ایک مخصوص جرم کے لیے قانون کی عدم موجودگی کو دکھایا گیا تھا، جس کی وجہ سے مجرم کو باآسانی رہائی کا موقع مل جاتا ہے۔ تاہم یہ فلم ایک سچی کہانی پر مبنی تھی۔

فلم ’’ چوہدری – دی مرٹائر ‘‘ کو پاکستان میں ریلیز کیا گیا تھا کیونکہ اسے سیکیورٹی حلقوں کی مدد حاصل تھی۔ فلم میں چوہدری اسلم کی شہادت کے گرد کھیلی گئی گندی سیاست کو اجاگر کیا گیا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ فلم میں ملکی سیاست کے کچھ تاریک پہلوؤں سے پردہ اٹھانے کی کوشش کی گئی اور بتایا گیا کہ کس طرح غنڈے بدعنوان سیاستدانوں کے ساتھ مضبوط روابط قائم کرتے ہیں جو مجرموں کو کسی بھی مصیبت میں پھنسنے سے بچانے کے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہیں۔ سچ پوچھیں تو ’’ دُرج ‘‘ کو ایسی کوئی بھی فلم کہا جا سکتا ہے جو نظام سے لڑ نہ سکی، جس کی وجہ سے بھاری مالی نقصان ہوا ، اور آخر کار اس پر ملک میں پابندی لگ گئی۔

Advertisement

میڈیا میں جس چیز کی حوصلہ شکنی کی ضرورت ہے وہ ہے گھریلو بدسلوکی، ازدواجی تشدد، اور نرگسیت یا خود پسندی کی تصویر کشی کیونکہ اس طرح کے برے عمل ہر اگلے ٹی وی شو میں نمایاں طور پر دکھائے جاتے ہیں۔ پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) ٹی وی سیریلز میں گھریلو تشدد کے واقعات دکھائے جانے پر حرکت میں نہیں آتی۔ تاہم جیسے ہی کوئی غیر معمولی، مختلف اور حکام کے دہرے معیار اور نظام کی منافقت کو بے نقاب کرنے والی چیز سامنے آتی ہے تو متعلقہ حکام اچانک اپنی گہری نیند سے بیدار ہوجاتے ہیں۔

اس کے علاوہ کچھ ٹی وی چینلز انتہائی قابل اعتراض اور بیہودہ مواد کی حامل پرانی پاکستانی فلمیں دکھاتے ہیں، جن پر فوری طور پر پابندی لگا دی جانی چاہیے تھی کیونکہ وہ کھلم کھلا جنسیت اور فحاشی کو فروغ دیتی ہیں۔ تاہم، کسی کو پروا نہیں ہے کیونکہ ان فلموں میں ایسی چیزیں پیش کی جاتی ہیں جو زیادہ تر مرد فلم میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ ٹی وی شوز اور فلم پروڈکشن دونوں کے لیے یکساں اصول اور پالیسیاں لاگو ہو نی چاہئیں۔

فلم سازوں کے مفادات اور حقوق کو محفوظ بنانے کے لیے قواعد و ضوابط کے سیٹ کو بھی واضح کیا جانا چاہیے کیونکہ یہ وہ لوگ ہیں جو فلم انڈسٹری کی کھوئی ہوئی شان کو بحال کرنے اور اسے پھلنے پھولنے اور ترقی دینے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔

ماضی میں پابندیوں کا شکار ہونے والی پاکستانی فلمیں

جاگو ہوا سویرا (1959ء):جاگو ہوا سویرا کے اسکرین پلے مصنف فیض احمد فیض صاحب تھے اور اس فلم میں مشرقی پاکستان کے ماہی گیروں کی جدوجہد کی عکاسی کی گئی تھی۔ اس کی ہدایات لاہور کے اے جے کاردار نے دی تھیں اور یہ مشرقی اور مغربی پاکستان کی مشترکہ پروڈکشن تھی۔ جنرل ایوب خان نے اس کی ریلیز پریمیئر سے دو دن پہلے روک دی تھی۔

Advertisement

عورت راج (1979ء):رنگیلا اس فلم کے خالق اور ہدایت کار تھے جب کے مرکزی کردار میں وحید مراد کی بے مثال اداکاری کے ساتھ عورت راج پر سینما گھروں میں ریلیز ہونے کے بعد پابندی لگا دی گئی تھی۔ فلم نے اداکاروں کے صنفی کرداروں کو تبدیل کرکے ایک نسائی نقطہ نظر کو اپنایا تھا۔

مولا جٹ (1979ء):یونس ملک کی ہدایت کاری میں بننے والی اصل مولا جٹ کو ریلیز ہونے کے بعد ’حد سے زیادہ جنسی اور پر تشدد مواد‘ کی وجہ سے روک دیا گیا تھا۔ عدالتی حکم امتناع ملنے کے بعد یہ فلم ڈھائی سال تک پاکستان کی اسکرینوں پر چھائی رہی۔ اس فلم میں سلطان راہی، مصطفیٰ قریشی اور آسیہ نے اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے۔

خاموش پانی (2003ء):  صبیحہ سمر کی اس فلم میں بھارتی اداکارہ کرن کھیر، عامر علی ملک اور نَوتیج سنگھ جوہر نے کام کیا تھا۔ اس فلم نے اسلامی بنیاد پرستی، تقسیمِ ہند سے لگنے والے زخم، اور جنرل ضیاء الحق کے آمرانہ دور میں ہونے والی تبدیلی جیسے موضوعات کو چھیڑا۔ فلم میں بھارتی اداکاروں کی کاسٹنگ کی وجہ سے خاموش پانی پر نظرثانی سے قبل ہی پابندی لگا دی گئی۔

Advertisement

سلیکستان (2010ء): حماد خان کی آزاد ہدایت کاری میں بننے والی اس فلم میں پاکستانی معاشرے کے اعلیٰ طبقے سے تعلق رکھنے والے تین نوجوانوں کی کہانی بیان کی گئی ہے جو اسلام آباد میں اپنی زندگیوں میں آگے بڑھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ فلم میں غیر مہذب زبان کے بے دریغ استعمال کے نتیجے میں، سلیکستان پر پابندی لگا دی گئی۔

مالک (2016ء): مالک کے سینما گھروں میں آنے سے ایک ہفتہ قبل، سندھ سنسر بورڈ اور سندھ حکومت نے اس پر پابندی لگا دی تھی۔ اس کی ہدایات عاشر عظیم نے دی تھیں اور اس میں فرحان علی آغا، عدنان شاہ ٹیپو، حسن نیازی اور ساجد حسن نے اداکاری کی تھی۔ ستمبر 2016ء میں لاہور ہائی کورٹ نے مالک کو محدود اسکرینوں پر دکھانے کی اجازت دیتے ہوئے پابندی ہٹا دی تھی۔

زندگی تماشا (2019ء): سرمد کھوسٹ کی ہدایت کاری میں بننے والی زندگی تماشا کی ریلیز اس وقت روک دی گئی جب تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) نے کہا کہ وہ فلم کے خلاف احتجاج کریں گے۔ بڑے پیمانے پر بین الاقوامی پذیرائی حاصل کرنے کے باوجود یہ فلم اب تک پاکستان میں ریلیز نہیں ہو سکی ہے۔

Advertisement

جاوید اقبال، دی ان ٹولڈ اسٹوری آف اے سیریل کلر (2022ء): ہدایت کار ابو علیحہ کی ’جاوید اقبال، دی ان ٹولڈ اسٹوری آف اے سیریل کلر‘ ایک بدنام زمانہ قاتل سے متعلق تحقیقات کی عکاسی کرتی ہے۔ پنجاب حکومت نے یاسر حسین اور عائشہ عمر کی اس فلم پر پابندی لگا دی تھی۔ یہ فلم پاکستان کے سینما گھروں میں ریلیز ہوگی یا نہیں، یہ ابھی تک غیر یقینی ہے۔

ورنہ (2017ء): بطور ہدایت کار یہ شعیب منصور کی تیسری فلم تھی، اس پر پابندی کی وجہ یہ تھی کہ اس میں ریپ کے معاملے پر بات کی گئی تھی۔ تاہم، عوامی ردعمل کے بعد نومبر 2017ء میں ورنہ کو ریلیز کر دیا گیا۔ فلم کے مرکزی کردار میں ماہرہ خان کے ساتھ ہارون شاہد، رشید ناز، نیمل خاور اور ضرار خان بھی شامل ہیں۔

آئل میٹ یو ڈیئر (2022ء): ارم پروین بلال کی فلم ’آئل میٹ یو ڈیئر ‘ پر اس بنیاد پر پابندی عائد کی گئی تھی کہ یہ حقیقی پاکستانی ثقافت کی عکاسی نہیں کرتی، مسلمانوں کی منفی تصویر پیش کرتی اور پاکستان کی سماجی اور ثقافتی اقدار کے خلاف ہے۔

Advertisement
Advertisement

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
افغانستان سے اب دہشتگردی ہوئی تو بھاری قیمت چکانی پڑے گی ، خواجہ آصف
مودی سرکار کی ناکام پالیسیوں کا نتیجہ، بھارتی پاسپورٹ کی عالمی درجہ بندی میں بڑی تنزلی
شکیل احمد درانی ڈی جی نیب کراچی تعینات
آسٹریلوی کرکٹرز کا بھارتی کھلاڑیوں پر طنز، ویڈیو نے ہنگامہ کھڑا کردیا
سعودی عرب نے ابراہم اکارڈ میں شامل ہونے پر رضامندی ظاہر کردی، ٹرمپ کا دعویٰ
دوحہ مذاکرات : افغان طالبان کی درخواست پر عارضی جنگ بندی میں توسیع
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر