
جلد ہی ریلیز ہونے والی مختصر فلم ’’بھیتر ،اے لو اسٹوری ‘‘ شہر کے ثقافتی حلقوں میں موضوع بحث بن گئی ہے۔ اس حوالے سے بولڈ کا ایک جائزہ
اگرچہ پاکستان کی انٹرٹینمنٹ انڈسٹری کبھی بھی اسکینڈلز اور تنازعات سے پاک نہیں رہی، لیکن یوں لگتا ہے کہ انڈسٹری کی ڈور ہلانے والے چند لوگوں نے عالمی شہرت حاصل کرنے اور مقامی ناظرین کو کچھ بھی دکھا کر ان میں اشتعال کے جذبات کو ابھار کر بین الاقوامی سطح پر داد سمیٹنے میں مہارت حاصل کر لی ہے،ان اقدامات کو اگر متنازعہ کہا جائے تو بالکل غلط نہ ہوگا۔
ہدایت کار صائم صادق کی فلم ’ ’جوائے لینڈ ‘‘کے نقش قدم پر چلتے ہوئے، مصنف مظہر معین کی تحریر کی گئی نئی آنے والی شارٹ فلم ’ ’بھیتر – اے لو اسٹوری ‘‘ در حقیقت فلم ’ ’جوائے لینڈ ‘‘ سے بھی آگے نکلتی دکھائی دے رہی ہے ۔ مظہر معین کی ہدایت کاری میں بننے والی اس فلم کا شہر بھر میں خوب چرچا ہورہا ہے لیکن دیکھا جائے تو اس کے پیچھے ایسی کوئی کوئی خاص وجہ نظر نہیں آتی ۔ فلم ’ ’بھیتر-اے لو اسٹوری ‘‘ کی کاسٹ میں زوہیب بخش، عثمان چوہدری، منال صدیقی اور جویریہ عباسی مرکزی اداکاروں کے طور پر اسکرین پر جلوہ گر ہوں گے ۔ آفیشل بیان کے مطابق اس فلم کو ایک یوٹیوب چینل میم کہانی کی جانب سے پیش کیا گیا ہے ۔یہ بھی بتایا گیا ہےکہ او ٹی ٹی چینل مشکل حقائق کی عکاسی کرنے کے ساتھ ساتھ بالغ شائقین فلم کو دلکش کردار دکھا کر انہیں دلیرانہ، ممنوعہ اور متنازعہ کہانیوں کے ذریعے پیار کرنے اور ہنساتے ہوئے تفریح فراہم کرنے پر یقین رکھتا ہے۔
اگر مذکورہ بالا چینل کا مشن محض بیان دینا ہے تو یہ مشن کامیابی کے ساتھ پورا ہو گیا ہے، یہ بات اس مختصر فلم کے ٹیزر سے بھی نمایاں طور پر واضح ہوتی ہے ، جو کہ ریلیز ہوتے ہی تیزی سے وائرل ہو چکا ہے۔ فلم کے ٹیزر کو دیکھتے ہوئے فلم کو مکمل طور پر منظور یا نامنظور کرنا غیر مناسب عمل ہوگا ۔ چونکہ جس طرح پانی کاایک قطرہ بھی سمندر کی طرح اہمیت کا حامل ہوتا ہے اسی طرح فلم ’ ’بھیتر -اے لو اسٹوری ‘‘ کے ٹیزر سے ظاہر ہے کہ اس فلم کی کہانی مبینہ طور پر اس مسئلے پر مبنی ہے، جو نہ تو ہر جانب دکھائی دیتا ہے اور نہ ہی نسبتاً اہمیت کا حامل ہے ۔ یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ اس فلم کا موضوع دیکھنے والوں کی بڑی تعداد کےلیے بالکل بھی نہیں۔
اپنے مشن پر قائم رہتے ہوئے میم کہانی کی شارٹ فلم’ ’بھیتر-اے لو اسٹوری ‘‘ درحقیقت ایک ایسی کہانی پر مبنی ہے، جو بیک وقت بولڈ اور ممنوع ہونے کے ساتھ ساتھ متنازعہ بھی ہے۔اس کی سب سے اہم اور بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہ فلم مبینہ طور پر دو خواتین کے درمیان شادی کے گرد گھومتی ہے۔ گویا یہ دنیا کی واحد مشکل ترین حقیقت ہے جسے بولی جانے والی زبان میں بالغ سامعین کے لیے بڑی اسکرین پر پیش کرنے کےلیے تیار کیا گیا ہے۔ اس فلم کو اُن لوگوں کے ذریعہ سمجھا جاسکتا ہے جو کبھی بھی اس نوعیت کے نا پسندیدہ موضوعات کو قبول نہیں کریں گے، اور ایسے میڈیم پر تو ہرگز نہیں جہاں تک بالغ سامعین کے مقابلے میں نادان اور کم عمر نوجوانوں کو زیادہ رسائی حاصل ہو چکی ہے۔
تفریح کے بہانے شارٹ فلم ’ ’بھیتر ،اے لو اسٹوری ‘‘ محض ایک تفریحی موادسے کہیں زیادہ ہے ، جو عوامی نظریات پر مبنی ہے ، کیونکہ یہ موضوع صدیوں پرانے سماجی اصولوں سے مماثلت نہیں رکھتا۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ طویل عرصے سے پالی جانے والی ازدواجی روایات کو عالمی تاریخ میں سب سے زیادہ قابل احترام مذہبی تعلیمات کی حمایت حاصل رہی ہے۔
پُرجوش عقائد کے خلاف بڑی ڈھٹائی سے بغاوت کے بعد اشتعال انگیز تصویروں کی تعداد میں اضافہ کرنے والی ایک اور متنازعہ پیشکش کے پیچھے اصل مقصد کے بارے میں بھی اشارے مل رہے ہیں ،جنہیں جان بوجھ کر ملک کو بدنام کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے عوام کی اکثریت کو اِن کی سماجی و ثقافتی اقدار، رسوم و رواج اور مذہبی عقائد کو نقصان پہنچانے کی قیمت پر بین الاقوامی سطح پر راتوں رات شہرت حاصل کرنے کے لیے تیار کیا گیا ہے۔
جیسا کہ اس وقت پاکستان کی انٹرٹینمنٹ انڈسٹری میں سب کچھ کم و پیش ایک جیسا ہی ہورہا ہے۔غیر معمولی اور قابل ذکر کہانیوں کے رجحان میں اضافہ ہوگہا ہے جو کہ ایک متنازع تھیم پر مبنی ہونے کی وجہ سے ناپسندیدہ ہے اور اور ناظرین کی بڑی تعداد کے احساسات کی ترجمانی کرنے سے بھی قاصر ہے۔
لہذا اسی زمرے میں شامل یہ شارٹ فلم’ ’بھیتر ،اے لو اسٹوری ‘‘ایک لٹمس ٹیسٹ(کسی سیاسی یا اخلاقی مسئلے کے بارے میں رائے جس کا استعمال اس بارے میں فیصلہ کرنے کے لیے کیا جا سکتا ہے کہ آیا کوئی شخص یا کوئی چیز قابل قبول ہے یا نہیں) کی طرح ہے جسے ابتدائی طور پر پاکستان جیسے ملک میں ایک تنازع کے خلاف عوامی ردعمل کی پیمائش کے لیے کیا گیا ہے۔ یہ ٹیسٹ واضح طور پر اخلاقی سرخ لکیر کو پار کرتا ہوا نظر آرہا ہے، جو ہر لحاظ سے کسی بھی قسم کے سماجی و ثقافتی ماحول کی ڈھٹائی سے انکار کرتے ہوئے ملکی قانونی حدود کو پار کرنے میں راحت محسوس کرتی ہے ،جو کہ ایک ہی جنس کے درمیان اس طرح کے متضاد تعلقات کو سخت سزاؤں کے ساتھ مجرم قرار دیتا ہے۔
کچھ سال پہلے ٹیلی ویژن اسکرین پر بھی یہی کوشش کی گئی تھی جب ہم ٹی وی پر ’چیونگ گم‘ کے نام سے ایک طویل ڈرامہ نشر ہوا تھا۔ اگرچہ ’چیونگ گم‘ اپنے مواد کے مطابق بظاہر زیادہ دلکش تھا لیکن اس ڈرامے نے دیکھنے والوں میں کافی مقبولت حاصل کی تھی اور ایک انتہائی متنازع موضوع کی وجہ لفظ ’گو ‘ سامعین میں جھنجھلاہٹ کا باعث بنا رہا ۔ اگرچہ پاکستان جیسے ملک میں اس طرح کے شوز بنانے کو محض ایک بصری اور صوتی جرم ہی کہا جا سکتا ہے، لیکن اس طرح کی گھناؤنی کوششوں کے پیچھے کارفرما ارادہ روز اول کی طرح روشن ہے۔
خاص طور پر 70:30 آرٹیکلز کے حوالے سے انسانی حقوق کے عالمی اعلامیہ پر مبنی ایجنڈے پر مبنی بیان بازی سے زیادہ،
ٹی وی، فلم یا کمپیوٹر اسکرین پر ایل جی بی ٹی کیو سے متعلق مسائل کی نمائش کو کبھی بھی رد نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ایک فرد کی جانب سے اچانک سنسنی کی خواہش کی وجہ سے ہی کسی بڑے آئیڈیا کی آمد ہوتی ہے۔
اس کے بالکل برعکس، ایسے پروگرام ہمیشہ پہلے سے طے شدہ، اچھی طرح سے ترتیب دی گئی اور حسابی کوششوں کا نتیجہ ہوتے ہیں جو فرد کی سوچ کے پردے میں ہوتے ہیں اور ریاست کی طرف سے وضاحت کے مطابق بنیادی طور پر اس معاشرے میں غیر اخلاقی انسانی رویے کی سماجی قبولیت کو بڑھانا ہے جو اخلاقی مطابقت کو اہمیت دیتا ہے۔
چونکہ ریاست کے اندر ایک ریاست سیاسی انارکی اور شہری بدامنی کا باعث بنتی ہے، ریاست کے لوگ اپنے مفادات کو پورا کرنے کے لیے بظاہر ریاستی ہدایات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے خاموشی سے کام نہیں کر سکتے۔خاص طور پر جب بات آزادی اظہار اور سوچ کی آزادی کی ہو تو میڈیا میں ’مائی وے اور دی ہائی وے ‘والا انداز کام نہیں کرتا، کیونکہ ایک کی بے لگام آزادی اپنی حد تک پہنچنا چاہیے جہاں سے دوسرے کی ناک شروع ہوتی ہے۔
اس حقیقت کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ پاکستان بہت سی دوسری اسلامی اقوام کی طرح، اقوام متحدہ کے اس اعلامیے پر دستخط کرنے کے لیے دباؤ میں ہے جس میں بالغوں کے درمیان متفقہ ہم جنس تعلقات کو مجرمانہ قرار دینے اور تعزیرات کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے،اور ’ایل جی بی ٹی کیو‘ کو گھریلو اصطلاح بنانے کے لیے عالمی سطح پر کوششیں جاری ہیں، خاص طور پر ایک ایسے معاشرے میں جو ہم جنس پرستانہ طریقوں کے لیے اس کی مکمل نامنظوری کے لیے جانا جاتا ہے۔
بھارت میں اس کی متعلقہ اور تازہ ترین مثال ملتی ہے۔ جہاں مختلف بیانیہ ساز ٹولز بشمول فلموں اور میڈیا پر دوران گفتگو ’ایل جی بی ٹی کیو‘ جیسے مسائل کو کثرت سے شامل کیا جاتا ہے تاکہ ایسے ڈھکے چھپے معاملات کو عوامی ایجنڈے میں شامل کیا جا سکے۔اب ہندو اکثریتی سرزمین میں ستمبر 2018ء میں دفعہ 377 کو مجرم قرار دینا کسی بھی نقطہ نظر سے اتفاق نہیں ہے، اس حقیقت کے باوجود کہ ہندوستان میں مرکزی دھارے کے مذاہب میں سے کوئی بھی ہم جنس پرستی کو کسی بھی قابل تصور شکل میں اجازت نہیں دیتا ہے۔
پیش کیے گئے منظر نامے میں شارٹ فلم ’ ’بھیتر ،اے لو اسٹوری ‘‘ نے کہانی کو بھارتی پس منظر میں پیش کرتے ہوئے اسے کافی محفوظ طریقے سے پیش کیا ہے لیکن فلم کے ٹیزر سے یہ واضح نہیں ہوتا کہ کردار کا تعلق بھارت سے ہے یا پھر وہ پاکستانی ہے۔تاہم اس سے یہ حقیقت سامنے آتی ہےکہ منٹو کے شاگرد، جو بذات خود ایک فکری گمراہ تھے، خواتین کی جنسیت سے آگے نہیں سوچ سکتے اور اس کی پیچیدہ پیچیدگیوں میں جوش و خروش سے لطف اندوز نہیں ہو سکتے۔خواہ وہ ادب کا ایک ٹکڑا تیار کرنا ہو یا پھر پھر فلم ، ٹی وی شو یا کسی بھی قسم کی صوتی و بصری دستاویزی فلم بنایا ہو، جس کا مقصد عوام میں شعور بیدار کرنا ہو ۔یہ کہنا زیادہ بہتر ہوگا کہ فلم سازی کے نام پر سماجی تانے بانے کو چیرپھاڑ کر عوام کے سامنے لانا ہو۔
اگر ایک لفظ میں بیان کیا جائے تو میڈیا کو استعمال کرتے ہوئے جنسی انحراف یا اخلاقی انحطاط کے خیالی تصور یا عمل کو گلیمرائز نہیں کیا جانا چاہئے بلکہ انہی لوگوں کی بقیہ فلموں کو کامیاب ہونے کا موقع دیا جائے تاکہ ہمارے جیسے معاشرے کی طرف سے قابل احترام معاشرتی اقدار اور اجتماعی اقدار کا مذاق نہ اڑایا جا سکے۔ممنوعہ دنیا میں داخل ہونا ہمیشہ ہی سنسنی خیز لگتا ہے لیکن مٹھی بھرمہم جو لوگ ، خواتین کو شکار سمجھ کر حاصل کرنے کے لیے بے چین نظر آتے ہیں ۔لہذا مروجہ عقائد اور اقدار کے خلاف کھڑے ہونے کی حوصلہ افزائی ہر گز نہیں کی جا سکتی۔
آسکر ایوارڈز کے لیے شارٹ کٹ تیار کرنے کے بجائے قابل اعتراض تھیمز کے ساتھ ساتھ فٹ لوز اور مشغولیت سے پاک مغربی ثقافت کا استعمال کرتے ہوئے، یہ ہمیشہ بہتر ہوگاکہ فلم بنانےکےلیے ایسی کہانی کو تلاش کیا جائے، جو بولڈاور متنازعہ نہ ہو، اور حقیقت ایسی ہو جس کی کہانی ہمارے اس معاشرے سے تعلق کو ظاہر کرتی ہو،جس میں ہم رہتے ہیں ۔
فلم کے اہم مقاصد میں سے ایک آگاہی پیدا کرنا ہے جس کے نتیجے میں، ایک فکری گفتگو اور بحث جنم لیتی ہے، اور یہی سنیما کا حتمی نقطہ ہے۔ ’’جوائے لینڈ‘‘ کے حوالے سے بہت شورشرابا رہا ہے۔ زیادہ تر اس کا سبب اس فلم کی بین الاقوامی سطح پر پسندیدگی تھی۔ درحقیقت، فلم میں پاکستان کی تصویر کشی کی گئی ہے کہ اس وقت اور اس دور میں کیا ہورہا ہے اور لوگ کیسے ہیں۔ یہ نہ تو کوئی خواہش یا تحریک پیدا کرنے والی فلم ہے جس میں ترکی یا اس سے بھی آگے فلمایا گیا گیت شامل ہو اور نہ ہی یہ خالصتاً تجارتی نقطہ نظر سے بنائی گئی فلم ہے جو تفریح سے بھرپور ہے۔ ’’جوائے لینڈ‘‘ ایک ایسی فلم ہے جو بہت ہی متعلقہ ہے، اور میں سمجھتا ہوں کہ شاید یہی بات یہاں کے ناظرین اور اس فلم کے نتیجے میں ہونے والی بحث اور گفت و شنیدکے لیے اہم ترین ہے۔ جوائے لینڈ ایک ایسی کہانی پر مبنی ہے جسے بار بار پیش کیے جانے کی ضرورت ہے۔ جہاں تک میرا تعلق ہے تو اس کہانی کو سنانے، اس کے کرداروں کے ساتھ مشغول ہونے اور ان کے بارے میں فلم بنانے کے لیے انہیں جاننے کی ضرورت تھی۔ میرے خیال میں حقیقی زندگی میں ہمارے آس پاس بہت سارے لوگ ہیں جو بہت تفریحی، دلچسپ اور نرالے ہیں اور ان کی کہانیاں بھی اہمیت رکھتی ہیں۔ اور مجھے لگتا ہے کہ اسکرین پر ایسی کہانیاں ہمارے موجود ہونے کو جواز بخشتی ہیں۔
صائم صادق، فلم ڈائریکٹر اور اسکرین رائٹر
’’بنیادی طور پر، میں وہ کہانیاں بیان کرنا چاہتا ہوں جو میری دلچسپی کا باعث بنتی ہیں اور میں وہ کہانیاں سامنے لاتا ہوں جن سے لوگ بخوبی واقف ہیں، پھر بھی وہ ایک دوسرے سے ان پر بات کرنے سے ڈرتے ہیں۔ درحقیقت، ہر کہانی میں کئی کردار ہوتے ہیں اور ہم ان کرداروں کو اسی طرح پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کی کہانیاں بیان کرتے ہوئے عوامی ردعمل کے بارے میں نہیں سوچنا چاہیے کیونکہ اس طرح کی کہانیاں عوام کے سامنے پیش کرنے کی جرات اور جذبہ ہونا چاہیے۔ جیسا کہ مختصر فلم ’’بھیتر – اے لو اسٹوری ‘‘میں دکھایا گیا ہے، بنیادی مقصد ان غیر معمولی کہانیوں کو دیکھ کر جذباتی تسکین حاصل کرنا نہیں ہے۔دیگر عام کہانیوں کی طرح جو ہمارے سامنے آتی ہیں، اس کا بنیادی مقصد متعلقہ کرداروں کی زندگیوں کی جڑی ہوئی کہانیوں کو صحیح معنوں میں بیان کرنا ہے کہ کس طرح سے ان کی جبر تلے گزاری جانے والی زندگیوں میں چیزیں سامنے آتی ہیں جو ان کی اپنی مرضی سے زندگی گزارنے کی راہ میں حائل ہوجاتی ہیں۔ اگرچہ فلم کی مرکزی کہانی غیر مسلم کمیونٹی سے تعلق رکھنے والی چند خواتین کے گرد گھومتی ہے، لیکن اس کا مقصد کسی مخصوص عقیدے، ذات یا ملک کو ہدف بنانا نہیں ہے، کیونکہ فلم میں صرف ایک مختلف انداز کی منظر کشی کی گئی ہے اور کچھ نہیں۔ درحقیقت، دلچسپ کہانیاں اور کردار ہر جگہ مل سکتے ہیں اور ایسا ہمہ گیر عنصر کسی بھی علاقے، ذات یا عقیدے سے بالاتر ہوتا ہے۔دنیا کا کوئی بھی باشعور انسان اس حقیقت کو سمجھ سکتا ہے کہ دلچسپ کردار اور ان کی کہانیاں دنیا کے ہر کونے میں پائی جاتی ہیں، جب کہ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کے لیے زندگی کافی تکلیف دہ اور اذیت ناک ہوتی ہے اور ان کی کہانیوں کو دکھائے جانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ’’ بھیتر – اے لو اسٹوری ‘‘ کو لوگوں کے ایک گروپ کی جانب سے ملنے والے منفی ردعمل کے باوجود، میں ان کہانیوں کو بیان کرنے کے لیے پرعزم ہوں جنہیں میں میڈیا کے ذریعے پیش کرنا چاہتا ہوں۔ ایک چھوٹے سے کمرے کی حدود میں چھپ کر زیر بحث آنے والی کہانی کو سامنے لایا جانا چاہیے تاکہ باقی تمام لوگ بھی اس سے آگاہ ہوسکیں۔ ایک ایسی جگہ جہاں مذہب یا سماجی و ثقافتی اقدار گھل مل جاتی ہوں، وہاں کسی بھی فلم کو آرٹ کی عینک سے دیکھا جانا چاہیے۔ سچ پوچھیں تو، میری اگلی فلم کے اس سے زیادہ متنازعہ ہونے کی امید ہے، کیونکہ میں چاہتا ہوں کہ ناظرین میں اتنی لچک ہونی چاہیے کہ وہ ان ممنوع موضوعات کو کھلی فضا میں بیٹھ کو زیربحث لاسکیں۔ جہاں تک فلم کی کاسٹ کا تعلق ہے تو جویریہ عباسی ’’بھیتر- اے لو اسٹوری‘‘ میں مرکزی کردار ادا کرنے کے لیے بہت پرجوش تھیں اور ان کا کہنا تھا کہ ان کے علاوہ کوئی اور اداکارہ یہ کردار ادا نہیں کرے گی۔درحقیقت یہ فلم باہمی گفت و شنید اور سخت ہوم ورک کا نتیجہ ہے کیونکہ یہ فلم دو خواتین کے مجموعی سفر پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے ان کے مصائب کو پیش کرتی ہے جن کا انہیں دردناک حالات میں سامنا ہوتا ہے۔ ہمارے لیے، اسکرین پر ہوس کو نمایاں کرنا سب سے آسان کام تھا، لیکن ہم نے بنیادی طور پر ان کی تکلیف دہ زندگی کی تصویر کشی پر توجہ مرکوز کی جو کچھ خواتین اپنی انفرادیت اور خواہش کو قربان کر کے گزارتی ہیں۔ خاص طور پر وہ لوگ جو فلم کی مرکزی کہانی سے خوش نہیں ہیں انہیں پہلے فلم کو دیکھنا چاہیے، کہانی کو سمجھنا چاہیے اور پھر اپنی رائے قائم کرنی چاہیے۔‘‘
مظہر معین، مصنف اور ہدایت کار
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News