
’ نڈر نادیہ‘ کے پس پردہ کہانی
کس طرح میری ایونز نے شہرت کی
جانب سفر شروع کیا اور ہندوستانی
فلمی صنعت کی شناخت بن گئیں
جب خواتین کو فلموں میں کام کرنے کی اجازت نہیں تھی تو اس وقت وہ نقاب پہن کر اسکرین پر گھوڑے دوڑاتے ہوئی نظر آئیں۔ انہوں نے ایک آدمی کو کوڑے کی ضرب رسید کی اور وہ ہوا میں اڑتا ہوا دور جاگرا۔ چالیس سال کے بعد یہی کچھ ایک غصہ ور نوجوان نے دہرایا۔ وہ اس دور میں ٹرین کی بوگیوں کے اوپر دوڑتی تھیں جب اس قسم کے سین کو اسٹنٹ مین کے لیے بھی خودکشی کے مترادف سمجھا جاتا تھا۔ کیوں؟ کیونکہ وہ نڈر نادیہ تھیں، برصغیر کی پہلی ایکشن اسٹار جو آج بھی ہندوستانی اور عالمی سنیما دونوں میں ایک مشہور شخصیت سمجھی جاتی ہیں۔ کتاب Fearless Nadia ان کی میراث کو خراج تحسین پیش کرتی ہے۔اور ماضی پر نظر دوڑانے کے لیے اس مہینے سے بہتر وقت نہیں ہو سکتا جس میں وہ میری ایونز کے طور پر پیدا ہوئیں اور نڈر نادیہ کے طور پر انتقال کر گئیں۔
ہندوستانی سنیما کی سب سے غیر معمولی مشہور شخصیات کی یہ حتمی سوانح عمری جرمن زبان میں ڈوروتھی وینر نے لکھی تھی اور بعد میں اس کا ترجمہ ریبیکا موریسن نے برصغیر پاک و ہند کے قارئین کے لیے کیا تھا، اور یہ کسی شاہکار سے کم نہیں ہے۔ یہ سوانح عمری نہ صرف ہندوستانی سنیما میں حقوق نسواں کی جڑیں تلاش کرتی ہے بلکہ اس کے لیے ذمہ دار فردکے بارے میں بھی بیان کرتی ہے۔ اس کا آغاز 1930 ء کی دہائی کے وسط میں ایک نوجوان سنہرے بالوں والی لڑکی کے سفر سے ہوتا ہے جو اپنے خاندان کی دیکھ بھال کرنا چاہتی تھی، اور اس کا اختتام ایک نیلی آنکھوں والی عورت پر ہوتا ہے جو فانوس پر جھومتی تھی، ماسک پہنتی تھی، اور ان تمام لوگوں کے دلوں میں رہتی تھی جنہوں نے اسے ہر جنگ جیتتے ہوئے دیکھنے کے لیے پیسے ادا کیے ہوتے تھے۔
یہ کتاب قارئین کو میری ایونز کی ابتدا کے بارے میں بتاتی ہے جو ہندوستان میں ’’ ہنٹر والی‘‘ بنی، وہ آسٹریلیا سے ہندوستان کیسے آئی، اس نے اداکاری کا یا اداکاری نے اس کا انتخاب کیوں کیا، اور اس نے اپنے دور میں سینما دیکھنے کے انداز کو کیسے بدلا۔ اس کے تنگ اور مختصر لباس اور ہاتھ میں پکڑے ہوئے کوڑے نے اس کی شخصیت کی سحرانگیزی میں اضافہ کیا، اور ناظرین کو بے خودی میں مبتلا کرنے کے ساتھ ساتھ اسٹنٹ فلموں کو وہ کچھ فراہم کردیا جس کی ناظرین کو ان فلموں سے لطف اندوز ہونے کے لیے ضرورت تھی۔
1930ء کی دہائی کے وسط سے لے کر 1950 ء کی دہائی کے وسط تک، نادیہ ہندوستان کی سرفہرست فلم اسٹار رہیں۔ اگرچہ وہ اردو/ہندی میں مہارت نہیں رکھتی تھیں مگر زبان کی یہ کمی ان کے جسمانی اعضا اور ان کی دل کشی و بے باکی نے پوری کردی۔ اس کتاب کے مطابق، وہ ہندوستان کی پہلی فلمی اداکاراؤں میں سے ایک تھیں جنہوں نے ریوالور چلایا اور شیروں کے ساتھ اٹھکیلیاں کیں، اور مردوں اور عورتوں سے بھری دنیا کو دکھایا کہ کچھ بھی ناممکن نہیں ہے۔ اگر وہ نہ ہوتیں تو ہندوستان میں فلم سازی نے اتنی بڑی پیش رفت نہ کی ہوتی، اور یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ بولی ووڈ جسے ہم جانتے ہیں وہ اس مرحلے تک اس غیر ملکی کی بے خوفی کے بغیر وجود ہی میں نہ آتا جس کی پرورش ہندوستان میں ہوئی تھی۔
چاہے وہ ہندوستان میں ایک غیر ملکی کے طور پر ان کی ابتدائی جدوجہد ہو، صرف مردوں کے لیے مخصوص کام کرنے کی ان کی قابلیت ہو، یا چیلنج قبول کرنے کے لیے ان کا اصرار ہو، مصنفہ کی نگاہ سے ان کی زندگی کا کوئی بھی پہلو پوشیدہ نہیں رہا۔ انہوں نےاس بات تک کا تذکرہ بھی کیا ہے کہ نادیہ کا اپنے مخصوص انداز میں ‘ہے ے ے’ کہنا کس طرح مقبول ہوا۔ تاہم اس سے قبل وہ فلمی صنعت میں نڈر نادیہ کی جدوجہد سے قارئین کو آگاہ کرتی ہیں۔ اگر نادیہ دل کش اور نڈر شخصیت کی مالک نہ ہوتیں تو شاید وہ فلم نگر کے اس پس منظر میں قدم نہ جما پاتیں، جس کا اس کتاب میں ذکر کیا گیا ہے۔
اگر آپ کو معلوم نہیں ہے کہ نادیہ بننے سے پہلے، میری ایوانز نے ایک تھیٹر آرٹسٹ کے طور پر ہندوستان کا دورہ کیا تھا اور ایک سرکس میں بھی وقت گزارا تھا، پھر ایک آرمینیائی نجومی کے مشورے پر اپنا نام بدل کر نادیہ رکھ لیا تھا اور یہ کہ خطرناک مناظر کے لیے متبادل اداکار کے رواج سے بہت پہلے وہ اس طرح کے مناظر خود عکس بند کروانا پسند کرتی تھیں تو پھر آپ کو یہ کتاب پڑھنی ہوگی۔ اس میں واڈیا برادران کے رشتےپر بھی روشنی ڈالی گئی ہے جنہوں نے نادیہ کو فلموں میں متعارف کرایا۔ پھر اس وقت چھوٹے واڈیا نے نادیہ سے شادی کرلی تھی جب وہ گھر بسانا چاہتی تھیں۔
آپ کے ذہن میں یہ سوال ابھر سکتا ہے کہ انہیں ‘ہنٹروالی’ کی عرفیت کیوں دی گئی؟ اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ وہ فلم تھی جس میں ایک مشہور اداکارہ کا جارحانہ پہلو سامنے آیا۔ اس فلم نے انہیں ‘ ہنٹر والی ‘ کے طور پر متعارف کرایا، جس نے اسکرین پر کسی بھی اداکار یا اداکارہ سے پہلے کوڑا لہرایا۔ اس کوڑے نے نادیہ کی قسمت بدل دی اور انہیں اپنے زمانے کی مشہور اداکارہ اور واڈیا برادرز کو کامیاب فلم ساز بنا دیا۔ یہ کتاب ان تینوں افراد کی خوبیوں، خامیوں، علیحدگی اور مفاہمت کی جزویات کو سامنے لاتی ہے اور نئے قارئین کو اسکاٹش نژاد آسٹریلوی سپاہی اور ایک یونانی بیلی ڈانسر کی بیٹی کے بارے میں مزید جاننے کے لیے اکساتی ہے جس نے مردانہ بالادستی والے میدان پر حکمرانی کی۔
اس کتاب میں نہ صرف پنجاب میل، ڈائمنڈ کوئین، جنگل پرنسس، اور بومبے والی جیسی ان کی کامیاب فلموں کا خلاصہ بیان کیا گیا ہے، بلکہ ان فلموں کے ان کے مستقبل کے ساتھ ساتھ بولی وڈ پر اثرات کا بھی جائزہ لیا گیا ہے۔ 1950 ء کی دہائی میں ان کی فلمی دنیا سے کنارہ کشی، پھر 60 سال کی عمر میں سلوراسکرین پر ان کی واپسی اور ساتھی مرد اداکاروں کے لیے ایک چیلنج ثابت ہونے کے حوالے سے بھی کتاب میں بیان کیا گیا ہے جو ان کی موجودگی میں معاون کردار بن کر رہ جاتے تھے۔ کتاب قارئین کو بتاتی ہے کہ کس طرح نادیہ نے معزز گھرانوں کی لڑکیوں کو فلموں میں آنے کی ترغیب دی جب کہ کتاب میں جا بہ جا موجود تصاویر سے انہیں اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کس طرح اس ثقافت کو اپنانے میں کامیاب ہوئیں جس میں وہ پیدا نہیں ہوئی تھیں۔
چونکہ مصنفہ ہندوستان کی شہری نہیں ہیں اس لیے انہوں نے حاشیے میں کثیر مواقع پر تذکرے کیے ہیں جنہیں انگریزی ورژن میں ایڈٹ کیا جا سکتا تھا۔ نڈر نادیہ کے بارے میں اکتاب صرف انہی کے بارے میں ہونی چاہیے تھی لیکن کسی نہ کسی طرح مصنف نے اس میں تحریک آزادی کے ساتھ ساتھ واڈیا کے عروج و زوال اور اس خطے میں خواتین وزرائے اعظم کی آمد کو بھی شامل کردیا ہے جو ان کے خیال میں نادیہ کے اثر کا نتیجہ تھا۔ تاہم مصنفہ نے یہ کسر ان تمام لوگوں کے انٹرویوز کے ذریعے پوری کردی جو نادیہ کے کیریئر کا حصہ رہے تھے اور انہوں نے متبادل اداکاروں کی مدد کے بغیر ناممکن کارنامے انجام دیتے ہوئے دیکھا تھا۔ مجموعی طور پر، یہ سوانح عمری ہر فلمی شائق کے مجموعہ کتب میں ہونی چاہیے کیونکہ یہ انہیں بتاتی ہے کہ آج جو کچھ فلموں میں ہو رہا ہے، اگر نادیہ نڈر نہ ہوتی تو یہ سب کچھ ممکن نہ ہوتا ۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News