Advertisement
Advertisement
Advertisement
Advertisement

جیمی فاکس کا والد بننے کا طریقہ بہترین کیوں ہے!

Now Reading:

جیمی فاکس کا والد بننے کا طریقہ بہترین کیوں ہے!

 جب جیمی فاکس والد بننے کے بارے میں بات کرتے ہیں، تو وہ قابل فہم ہے کیونکہ انہوں نے بہترین انداز سے سیکھا!

 جیمی فاکس کوکون نہیں جانتا، وہ اداکارجنہیں موسیقی کے ماہررے چارلس کی تصویر کشی پر آسکر ایوارڈ سے نوازا گیا۔ انہوں نے متعدد بار اسپائیڈرمین سے مقابلہ کیا، امریکی صدر کا کردارادا کیا، اور یہاں تک کہ ٹام کروز کو ٹیکسی میں شہر بھر میں گھمایا۔تاہم،جوبات بہت سے لوگ نہیں جانتے وہ یہ ہے کہ اکیڈمی ایوارڈ یافتہ اداکار دو بیٹیوں کے والد بھی ہیں، جنہوں نے انہیں زندگی میں بہت کچھ سکھایا ہے۔ اپنی کتاب ’’ان ایکٹ لائک یو گاٹ سم سینس: اینڈ ادر تھنگس مائی ڈاٹرز ٹاٹ می‘‘ میں انہوں نے مزاحیہ انداز میں بطور باپ ہونے کی اونچ نیچ پرواضح نظر ڈالی ہے، اوراس نے ان شخصیت کو پروان چڑھانے میں کس طرح مدد کی ہے۔

ایسا بالکل نہیں ہے کہ یہ کتاب اچھے والدین بننے کی مہارتوں کے بارے میں ہے یا ان اصولوں کے گرد گھومتی ہے جن پر باپ کو اس وقت عمل کرنا چاہیے جب اس کی بیٹی کالج سے اپنے کسی دوست کو گھر لے کر آتی ہے۔بلکہ یہ ایرک مارلن بشپ کے سفر کے بارے میں ہے، جس نے چرچ میں پیانو بجاتے ہوئے تین سو ڈالر کمانے والے بچے سے لے کر دنیا کے مشہور ترین اداکاروں میں سے ایک جیمی فاکس بننے تک کا سفر جاری رکھا۔اس کتاب کا ایک حصہ انہوں نے یہ سفر کیسے طے کیا پر مشتمل ہے،جبکہ دوسرا حصہ اس بارے میں ہے کہ اپنی زندگی کے تجربے کے ذریعے وہ اپنی اولاد کی زندگی کو تشکیل دینے میں کیسے کامیاب ہوئے!

فلم جیانگو کے اداکار کے کارنامے اتنے بڑے ہیں کہ وہ ول اسمتھ کی طرح اپنی سوانح حیات لکھ سکتے تھے، جس میں ان کے ماضی، حال اورمستقبل کے بارے میں بات کی گئی ہو لیکن پھراس کتاب میں جیمی فاکس کوانداز نہیں ہوتا، ٹھیک کہا نا؟ اس کتاب میں انہوں نے اپنے بارے میں بات  تو کی ہے لیکن اس انداز میں جو کہ مضحکہ خیز، سنجیدہ اور ڈھکے چھپے انداز کے بغیرہے، جیسے کہ ایک کپ کافی پرکسی دوست سے بات کررہے ہوں۔ بجائے اس کے کہ قارئین انہیں جان سکیں وہ قاری سے مخاطب ہیں اوریہی چیز اسے ایک دلچسپ اور ذکی الحص تحریر بناتی ہے۔

کتاب میں اپنے نقطہ نظر کو شامل کرنے کی کوشش میں وہ قارئین کو یہ بتانے کے لیے بحث کرتے کہ جب وہ امریکی ریاست ٹیکساس کے شہر ٹیریل میں اپنی نانی کے گھر (جسے وہ اپنی ماں سمجھتے تھے!)میں پلے بڑھے تھے تو حالات کتنے مختلف تھے۔ اورموجودہ دور جہاں ان کے بچوں کو زندگی کی تمام آسائشیں حاصل ہیں۔ انہوں نے ماضی کو دو بیٹیوں کے باپ ہونے کی خوشیوں اورنقصانات پر بات کرنے کے لیے استعمال کیا ہے، جو قارئین سے جڑنے کا ایک حیرت انگیزطریقہ ہے، چاہے وہ کوئی بھی ہوں یا ان کا تعلق کہیں سے بھی ہو۔

Advertisement

وہ قارئین کے سامنے انکشاف کیا ہے کہ ان کے حیاتیاتی(حقیقی) والد نے ان کی جواں سال والدہ سے علیحدگی اختیار کرلی اوراسلام قبول کر لیا اورانہیں انہیں زندگی کے نشیب و فراز میں تنہا چھوڑ کر چلے گئے،اوریہ کہ وہ اپنی ماں کے مقابلے میں اپنے سوتیلے باپ سے زیادہ قریب تھے کیونکہ ان کی والدہ  نے کبھی ان کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا،اس کے علاوہ یہ کہ ان کے نانا ان کی کوئی عزت نہ ہونے کی وجہ سے ان پر تشدد کیا کرتے تھے، اور یہ کہ آج وہ جو کچھ بھی ہیں وہ ان کی نانی کی وجہ سے ہیں جو ان کی والدہ کی حیاتیاتی ماں نہیں بلکہ رشتہ دارتھیں۔بالفاظ دیگر اس کتاب کو ان کی نانی کو خراج تحسین پیش کہا جا سکتا ہے، جن کا نام ایسٹیل میری ٹلی ہے، جنہوں نے اپنی جوانی میں اداکارکی والدہ کو گود لیا تھا اوربعد ازاں جیمی فاکس کو گود لیا تھا، جس سے یہ ایک بہت ہی الجھا ہوا رشتہ ہے۔ اداکار نے ان صفحات میں خود سے زیادہ ان کے بارے میں بات کی ہے اوریہاں تک کہ اس کتاب کو ان سے منسوب کردیا ہے،جس سے ان کے لیے ان کی محبت، احترام اورشکرگزاری کے جذبات کا اظہارہوتا ہے۔

جیمی فاکس کی سخت کوش پرورش کے باوجود وہ اپنی زندگی کو بلند مقام پر پہنچانے میں کامیاب رہے اورقارئین کو توقع تھی کہ اس کتاب میں وہ اس کے بارے میں بات کریں گے، لیکن انہوں نے براہ راست ایسا نہیں کیا۔ درحقیقت، یہ کتاب ان انمول کہانیوں پرمشتمل ہے جن میں خدا کے خوف، پیروی کی بجائے رہنمائی کی اہمیت اوردیگرپرانی اقدار تک سب کچھ  ہے، جن کے بارے میں جدید دور کے بچے شاید جانتے بھی نہیں ہوں گے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ویگر چیزوں کے علاوہ  کس طرح ان کی نانی نے انہیں پیانو بجانا سیکھنے پرمجبورکیا،بعد ازاں جس نے آسکرایوارڈ جیتنے میں ان کی مدد کی، جب انہوں نے پہلی بارخود کونشانے پر پایا تو انہوں نے انہیں کیسے بچایا، اورانہوں نے ان کی مدد کیسے کی جب ان کی کارکو پہلی بار پارکنگ ٹکٹوں کی وجہ سے وہاں سے ہٹا دیا گیا تھا۔

یہاں کے لوگ اس کتاب کو کافی پسند کریں گے کیونکہ جیمی فاکس کی نانی کی زیادہ تر باتیں انہیں ان کے اپنے دادا دادی کی یاد دلاتی ہے۔ تاہم، جس طرح سے وہ لکھتے ہیں اسے پڑھنے سے خود کو روکنا آسان نہیں  ہے کیونکہ یہ ایک اسکرپٹ کی طرح ہے، جس میں وہ زیادہ ترافریقی امریکیوں کی طرح بات کرنے کے دوران توقف کرتے ہیں ، قارئین کے ذہن میں موجود سوالات کے جوابات دیتے ہیں، اوراپنے بیان کردہ تقریباً ہر دوسرے واقعے میں اپنی نانی یا بیٹیوں کا ذکر کیا ہے کیونکہ ان کی زندگی انہی کے گرد گھومتی ہے۔

اور پھرانہوں نے اپنے والد کی جدوجہد کا بھی ذکر کیا ہے، جو زیادہ تر مردوں سے مختلف ہیں کیونکہ انہوں نے ان دونوں خواتین میں سے کسی سے شادی نہیں کی جنہوں نے ان کے بچوں کو جنم دیا اوروہ اپنی پسند کے بارے میں خوب ہیں۔ انہوں نے اپنے تمام قارئین کو سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ اگر آپ کے پاس رولس رائس کار ہے تو اسے بچوں کے اسکول نہ لے جائیں۔ اگر آپ انہیں کوئی مہنگی چیز خرید کر دیتے ہیں، تو یقینی بنائیں کہ وہ اسے استعمال کریں اورجب بھی وہ خود کوکم ہمت محسوس کریں تو ان کی حوصلہ افزائی کریں، خاص طورپراس وقت جب ان کا کوچ انہیں بغیرپوائنٹس کے گیم کھیلنے پر مجبورکرے۔ روزمرہ کی زندگی پران کا مزاحیہ انداز اتنا کامل ہے کہ قارئین اس کتاب میں تصویروں کی عدم موجودگی کومحسوس نہیں کریں گے۔

وہ اپنی والدہ اوراپنے سوتیلے باپ کے ساتھ اپنے سمجھوتے، اپنے حیاتیاتی(حقیقی) والد کے ساتھ رابطہ قائم کرنے میں ناکامی، اورکس طرح اس سب نے انہیں اپنی بیٹیوں کے لیے ’اچھا باپ‘ بننے میں ان کی مدد کی۔ ایسے کتنے والد ہیں جو اپنی بیٹیوں کے ساتھ ان کے مسائل حل کرنے کے لیے معالج کے پاس گئے ہیں؟ کتنے لوگوں نے اپنی بیٹی کو اس کے بعد بیدار رکھا ہے جب اس نے غلطی سے کوئی  نشہ آور چیز لے لی تھی؟ کتنے درجہ اول کے فنکاراپنی بیٹی کو ایک میٹنگ میں لے گئے ہیں جہاں اس نے ’جیمی فاکس تشریف لاچکے ہیں‘ کہہ کر ان کی آمد کا اعلان کیا۔ اگر آپ کسی ایسے شخص سے واقف نہیں ہیں جس نے ان چیزوں کو انجام دیا ہے، تو یہ والدین بننے کے بعض اوقات مخرب اخلاق تاہم عملی رہنما اصولوں پر مبنی کتاب ہے جس کی آپ کو اپنی زندگی میں ضرورت ہے۔

مختصراًیہ کہ جیمی فاکس کی کتاب ان کی زندگی کی جدوجہد کی حقیقی عکاسی کرتی ہے اور اتنی دل سے محسوس ہوتی ہے کہ بعض اوقات قارئین کی آنکھوں سے آنسو بھی نکل آتے ہیں۔تاہم، یہ اس موضوع پر ایک مکمل رہنما ہے کہ اولاد کی پرورش کیسے کی جائے، اور اچھے والدین کیسے بنیں۔ یہ ان کی زندگی کے تجربات ہو سکتے ہیں جو ان صفحات پر لکھے گئے ہیں لیکن ان تمام لوگوں کے لیے سبق ہے جو اس سے وابستہ ہیں۔ اگر وہ خودمختار ہونے کے بعد اپنی نانی کی حکمت کو سمجھنے کے قابل ہیں کہ ’’آپ نے اپنا بستردرست کر لیا ہے، اب آپ کو اس میں سونا پڑے گا‘‘ یا یہ کہ ’’آپ گلی کے کنارے تک ہی تفریح کر سکتے ہیں‘‘ – تو کیا قارئین کو ابھی اندازہ نہیں ہوا ہوگا کہ ان الفاظ کا کیا مطلب ہے۔

Advertisement
Advertisement

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
افغانستان سے اب دہشتگردی ہوئی تو بھاری قیمت چکانی پڑے گی ، خواجہ آصف
مودی سرکار کی ناکام پالیسیوں کا نتیجہ، بھارتی پاسپورٹ کی عالمی درجہ بندی میں بڑی تنزلی
شکیل احمد درانی ڈی جی نیب کراچی تعینات
آسٹریلوی کرکٹرز کا بھارتی کھلاڑیوں پر طنز، ویڈیو نے ہنگامہ کھڑا کردیا
سعودی عرب نے ابراہم اکارڈ میں شامل ہونے پر رضامندی ظاہر کردی، ٹرمپ کا دعویٰ
دوحہ مذاکرات : افغان طالبان کی درخواست پر عارضی جنگ بندی میں توسیع
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر