
جنید خان نے بولڈ کے ساتھ ان کے میوزک بینڈ ’کال‘ سے لے کر اپنی فلم ’کہے دل جِدھر‘
تک، شوبز کی دنیا میں اپنی جدوجہد کے سفر کے بارے میں کھل کر بات کی
جب مجھے جنید خان کے میوزک البم ’جلا وطن‘ کا ایک مسحورکن گانا ’’سب بھلا کے‘‘ سننے کا موقع ملا تو ایک پُرسکون اور دلکش آواز میرے کانوں سے ٹکرائی۔ وہ سب سے پہلے اپنے میوزک بینڈ ’کال‘ سے منظرعام پر آئے اور اس کے بعد سے انہوں نے مڑ کر نہیں دیکھا،جیساکہ جنید خان اب موسیقی اور اداکاری دونوں شعبوں میں پاکستان شوبز انڈسٹری کے معروف ناموں میں سے ایک ہیں۔ ایک انتہائی منکسرالمزاج اور بردبار انسان جنید خان نے اس ہفتے بولڈ کے ساتھ ایک میوزک بینڈ کے معروف گلوکار سے معروف ٹی وی اور فلم اداکار بننے تک اپنے مشکل سفر کے بارے میں بات کی۔
سر تاپا تک ایک شرمیلے نوجوان جنید خان شدت سے اپنی ذات کے اظہار اور اپنی پوشیدہ تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے لیے صحیح ذریعہ کی تلاش میں تھے۔ جیسا کہ دنیا کے مشہور ماہر نفسیات میں سے ایک کارل گستاو جنگ اپنے نظریہ اضافیت میں کہتے ہیں کہ کوئی بھی شخص 100 فیصد شرمیلا یا 100 فیصد ظاہر پرست نہیں ہوتا۔ جنید خان کے ساتھ بھی بالکل ایسا ہی معاملہ ہے۔ اب آپ سوچیں گے کہ ایک شرمیلا شخص اداکاری یا موسیقی کے شعبےمیں کیسے آ سکتا ہے؟ تو جنید کا جواب ہے کہ آپ میں سے کچھ لوگ جانتے ہوں گے کہ میں نے اپنے کیریئر کا آغاز موسیقی سے کیا تھا،تاہم، یہ دراصل اپنے جذبات کے اظہار کے لیے میرا پسندیدہ ذریعہ تھا۔ اگرچہ اس حقیقت کا ادراک کرنے میں مجھے کافی عرصہ لگا کہ میں بنیادی طور پر ایک شرمیلا انسان ہوں کیونکہ جب بھی میں نے کوشش کی مجھے ہمیشہ اپنے آپ کو بیان کرنے میں دشواری محسوس ہوئی، آخر کار میں نے موسیقی میں پناہ لی کیونکہ اس نے مجھے ایک سمت کے ساتھ ساتھ دل کی بات کرنے کا ایک پلیٹ فارم بھی دیا۔
جنید خان نے اپنے کیریئر کے ابتدائی دور کے حوالے سے بتایا کہ میرا موسیقی کا سفر سال 2000ء میں شروع ہوا، جب میں لاہور میں تھا اور میں جا کر انڈر گراؤنڈ بینڈ کو براہ راست اپنے فن کا مظاہرہ کرتے دیکھتا تھا۔ میں واقعی ان کی جنون اور شوق سے بھرپور کارکردگی سے متاثر ہوا۔ اس سے پہلے میں اکثر جنون بینڈ سنتا تھا۔ جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ فطرتی طور پر ایک شرمیلا شخص ہونے کے ناطے میں اپنے اظہار کے لیے ایک ذریعے کی تلاش میں تھا۔ میرا کرایہ دار گٹار بجاتا تھا اور ایک دن اس نے گٹار بجاتے ہوئے مجھے گانا گانے کو کہا۔ مجھے گانا بہت اچھا لگا اور اپنی گلوکاری کی مہارت کو نکھارنے کے لیے میں نے مغربی اور بھارتی دونوں طرح کی موسیقی سننا شروع کی۔ پھر میرے کرایہ دار نے مجھے راک میوزک سے بھی متعارف کرایا۔
جنید خان کی موسیقی سے محبت روز بروز بڑھنے لگی اور وہ لمحہ بھی آیا جب وہ موسیقی سننا چھوڑ کر اپنے گھر میں جیمنگ کرنے لگے۔انہوں نے کہا کہ میری خواب گاہ میں ایک پرانا کمپیوٹر تھا، اس کے ساتھ چھوٹے، عام دو اسپیکروں بھی منسلک تھے۔ میں پوری آواز کے ساتھ میوزک بجایا کرتا، دیوانہ وار جیم کرتا اور اس کے ساتھ گاتا۔
انہوں نے کہا کہ میں موسیقی کے ذریعے اپنے راستے پر گامزن ہوا کیونکہ یہ سب سے محفوظ اور سب سے زیادہ اطمینان بخش طریقہ تھا، جس سے میں نے اپنے اندرونی جذبات کا اظہار کیا۔ جیم کرنے کے بعد میں دن کے اختتام پر ہلکا، پر سکون اور خوشی محسوس کرتا۔
میں لائیو پرفارم کرنے والے جنون اور دیگر راک بینڈز کے کے کنسرٹس میں گیا ،جس نے مجھے لائیو پرفارم کرنے کی ترغیب دی۔ اس سے قبل میں صرف اپنے احباب میں گانا اور موسیقی بجاتا تھا اور زیادہ تر وقت میں اپنی کمزوریوں پر قابو پانے اور بہتر ہونے کی کوشش کرتا تھا۔ جب میں مکمل طور پر تیار ہوگیا تو میں نے اسٹیج پر جانے کا فیصلہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ ابتدا میں یہ کافی خوفناک تجربہ رہا لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا گیا، میں اس نتیجے پر پہنچا کہ میں یہی کرنا چاہتا تھا اور اس طرح میں نے موسیقی کو اپنے کیریئر کے طور پر منتخب کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس وقت پاکستان میں میوزک کے بہت سے چینلز موجود تھے، تاہم میں شہرت سے فرار کی خاطر زیادہ فالوورز کو اپنی طرف متوجہ کرنے یا ویوز کی زیادہ تعداد کو حاصل کرنے کے پیچھے نہیں بھاگ رہا کیونکہ میرے لیے موسیقی نہ صرف جنون بلکہ مقصد حیات رہا ہے۔
جنید خان نے کہا کہ میں یونیورسٹی کے زمانے میں ہی موسیقی میں اپنی سرمایہ کاری شروع کردی تھی، جب میں عثمان اور فاروق سمیت اپنے تمام دوستوں کے ساتھ بیٹھتا، جیم کرتا اور گاتا، جلد ہی ہم نے بڑی بڑی محفلوں میں گانا شروع کر دیا، جو خاص طور پر دوستوں اور چاہنے والوں پر مشتمل ہوتی تھیں۔ بہت سارے لوگوں نے مجھے گاتے ہوئے سنا اور ان میں سے کچھ نے مجھے ایک بینڈ بنانے اور ان کے ساتھ میوزک ویڈیو بنانے کی دعوت دی۔ سچ پوچھیں تو میں راک میوزک کی جانب زیادہ مائل تھا اور میوزک ویڈیوز کا انتخاب کرنے کی بجائے اسٹیج پر پرفارم کرنا چاہتا تھا۔
جیسا کہ وہ کہتے ہیں کہ ’جو آپ ڈھونڈتے ہیں دراصل وہ آپ کی تلاش میں ہوتا ہے‘، لہذا وہاں پہلے سے ہی ’کال‘ نامی ایک بینڈ موجود تھا اور وہ ایک مرکزی گلوکار کی تلاش میں تھے، اور انھوں نے مجھے اس اہم مقام کے لیے موزوں پایا۔ لیکن یہ اتنا آسان نہیں تھا کیونکہ انہوں نے پہلے مجھ سے ان کی موسیقی سننے، خود کو تیار کرنے اور پھر آڈیشن کے لیے آنے کو کہا۔
میں نے ان کے گانے سنے اور انہیں 70ء اور 80ء کی دہائی کی کلاسیکی موسیقی سے متاثر پایا اور یہ میرے ذوق کے مطابق نہیں تھا۔ اس لیے میں نے وہی گایا، جو مجھے اچھا لگا اور انھیں پسند آیا اور انھوں نے اس بار اپنی موسیقی کو ایک مختلف سمت دینے کا فیصلہ کیا۔ ہمارے پاس گٹارسٹ نہیں تھا، اس لیے میں اپنے دو دوستوں کو لے کر آیا جن کے ساتھ وہ اکثر جیم کرتے تھے اور ڈرمر خرم جبار تھے جو کال بینڈ کے سب سے پرانے رکن تھے۔ وہاں سے ہم بینڈ کو آگے لے کر گئے۔
میں نے کوئینز میری کالج لاہور میں لائیو پرفارم کیا اور وہ بھی لڑکیوں کے سامنے (میں بہت پریشان تھا لیکن میں نے کر دکھایا)اور پھر وہاں سے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ پہلا گانا ’’نشان‘ تھا اور اسے انڈس میوزک چینل پر ریلیز کیا گیا۔ لوگوں نے اس کا پرتپاک خیرمقمد کیا اور اس نے ہماری موسیقی کی تیاری کو بھی فروغ دیا۔ ہم نے ایک میوزک البم لانچ کیا۔
رکن بدل گئے لیکن بینڈ برقرار رہا۔ زلفی نے ہمارے بینڈ میں شمولیت اختیار کی تو سلطان، زلفی اور میں اب کال کے مستقل رکن تھے۔ فوری طور پر ہم مشہور ہو گئے اور بینڈ کو بہت سی کامیابیاں اور بین الاقوامی شناخت ملی۔
جنید خان نے مزید کہا کہ میرا پہلے سے ہی میوزک کیریئر تھا، بینڈ عروج پر تھا، اور بینڈ نے کٹھنائیوں کو بھی دیکھا۔ میں ایک کمپنی میں 9 سے 5 تک کام کر رہا تھا۔ اس دوران مجھے اداکاری کے لیے خاص طور پر نجی چینل سے کافی پیشکشیں آ رہی تھیں۔ میں لاہور میں تھا اور اداکاری کے لیے مجھے کراچی شفٹ ہونا پڑا، نوکری چھوڑ کر اپنے پورے خاندان کو شفٹ کرنا پڑا۔ میں نے بینڈ کو لاہور سے کراچی شفٹ کرنے کا سوچا۔ میں اپنے اس پہلو کو بھی تلاش کرنا چاہتا تھا اور خطرہ مول لینا چاہتا تھا۔ میں نے لاہور میں جواد بشیر کی ہدایت کاری میں دو پروجیکٹس کیے تو چینل کو میری اداکاری کی صلاحیت کا اندازہ ہو گیا۔
ہم تم کے اداکار نے کہا کہ ڈرامہ’’مجھے روٹھنے نہ دینا ‘‘سے کومل رضوی کی واپسی ہو رہی تھی اور عابس رضا اس کے ڈائریکٹر تھے۔ مجھے اسی چینل سے ایک کے بعد ایک پیشکشیں آنا شروع ہو گئیں اور میں نے اداکاری کا سفر شروع کیا، یہ میرے لیے ایک اداکار کے طور پر ترقی کرنے کا ایک اچھا موقع تھا۔
انہوں نے کہا کہ جہاں تک فلموں کا تعلق ہے، میں ایک بامعنی اور اہم کردار کرنا چاہتا تھا، جو کچھ مختلف ہو اور وہ تکرار نہ ہو جوان دیگر اسکرپٹ میں نہیں تھا جن کی مجھے پیشکش ہو رہی تھی۔ پھر جلال اور کامران کا تعلق موسیقی کے شعبے سے تھا اور وہ مجھے پہلے سے جانتے تھے اس لیے یہ ایک ایسی پیشکش تھی، جسے میں رد نہیں کر سکتا تھا کیونکہ ایک تو میں ہدایت کار اور پروڈیوسر کو جانتا تھا، دوسرا مجھے جو کردار پیش کیا گیا وہ قابل غور تھا۔ یہ فلم کامیڈی، رومانس، ایکشن وغیرہ کی ایک مکس پلیٹ تھی۔ جسے میں نے چیلنج محسوس کیا۔ 2018 ءمیں فلم کی شوٹنگ شروع ہوئی اور پھر کورونا نے پوری دنیا کو نشانہ بنایا اس طرح فلم بندی روک دی گئی۔
انہوں نے کہا کہ ’’کہے دل جدھر‘‘ ایک اچھی فلم تھی۔کوروناکی وجہ سے سنیما کی حرکیات تبدیل ہونے کے بعد،نیٹ فلکس نے سنیما گھروں کی جگہ لے لی۔ لوگوں کو سینما گھر بلانے کے لیے کافی محنت کرنا پڑی۔ صرف مارول اور ڈی سی فلمیں دستیاب تھیں اور لوگ پاکستانی فلموں میں سرمایہ کاری نہیں کر رہے تھے۔ ہماری غلطی کووڈ کی صورتحال کے ٹھیک ہونے کے فوری بعد فلم کو ریلیز کرنے کا فیصلہ تھا۔ ہمیں مزید وقت لینا چاہیے تھا یا صورتحال کے بہتر ہونے کا انتظار کرنا چاہیے تھا یا کووڈ کا خوف کم ہونے کا۔ تاہم لوگ سنیما آئے تھے لیکن اسپائیڈر دیکھنے کے لیے، کہے دل جِدھر دیکھنے کے لیے نہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ سینما مالکان کو پیسے کا لالچ ہے کیونکہ وہ کورونا کی وجہ سے گزشتہ دو سال میں کافی نقصان اٹھا چکے ہیں۔ چنانچہ جب انہوں نے لوگوں کو اسپائیڈرمین کے لیے آتے دیکھا تو انہوں نے ہماری فلم اسکرینز سے ہٹا دی اور تمام شوز اسپائیڈرمین کو دے دیے۔ اس بدانتظامی کی وجہ سے کہے دل جدھر کو فل اوور یا سلاٹ بھی نہیں مل سکے۔ کہانی، اداکاری کے بعد جو اہمیت رکھتی ہے، ہمیں وہ بھی نہیں مل سکا۔
ڈرامہ انڈسٹری اتنی بڑی صنعت بن چکی ہے کہ ہمارے پاس اب زیادہ فلمی ستارے نہیں ہیں، چنانچہ اداکاروں نے ڈراموں سے فلموں میں چھلانگ لگا دی ہے۔ ہدایت کاروں کا بھی یہی حال ہے لہذا زیادہ تر فلمیں ڈرامہ سیریل کی طرح دکھائی دیتی ہیں کیونکہ ان کی شوٹنگ ڈرامہ ڈائریکٹرز کرتے ہیں اور ڈرامہ اداکاروں نے ان میں اداکاری کی ہے۔ کوئی بات نہیں کہ جنید کی فلم باکس آفس پر نہیں ٹھہر سکی اور نہ ہی اس کا زیادہ چرچا ہوا، لیکن جس نے بھی ان کی فلم دیکھی ہے وہ یہی کہے گا کہ جنید نے کہے دل جدھر میں ایک سچے فلم اسٹار کی طرح کام کیا۔جنید خان نے کہا کہ اس کا بہت زیادہ انحصار اس پر ہے کہ ایک ہدایت کار فلم کو کیسے ڈائریکٹ کر رہا ہے۔ زیادہ تر فلمیں ڈرامہ کیوں لگتی ہیں، اس لیے کہ اگر ایک ڈرامہ ڈائریکٹر کسی فلم کی شوٹنگ کر رہا ہو، تب بھی اس کا نقطہ نظر، عینک اور سوچ ڈرامہ ڈائریکٹر کی ہی ہوتی ہے۔ کسی فلم کا سینما فریم اور اداکاری کا طریقہ مختلف ہوتا ہے اور ہدایت کار کو اس کا خیال رکھنا ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر وہ ٹی وی یا سینما میں اداکاری میں موازنہ کر سکتے ہیں تو اس لیے کہ وہ سینما اور تھیٹر سے متاثر ہیں۔ یہ خدا کا تحفہ ہے اور میں ہمیشہ سے بڑی اسکرین پر کام کرنے، چیلنجنگ کرداروں اور اہم کرداروں کو نبھانے کا ارادہ رکھتا تھا، اس طرح میرا حقیقی جذبہ بڑی اسکرین پر سامنے آیا۔
2011ء سے اب تک جنید کبھی بھی منفی وجوہات کی بنا پر خبروں میں نہیں آئے۔ اس سوال پر اداکار ہنس پڑے اور منفی وجوہات کی بنا پر خبروں سے باہر ہونے پر خدا کا شکر ادا کیا۔انہوں نے کہا کہ میں خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ میں کسی تنازعہ کا حصہ نہیں ہوں۔ مجھے غیر ضروری پروپیگنڈے میں کوئی دلچسپی نہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ میں اداکاروں کی اس نسل سے ہوں جو کبھی بھی تنازعات میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ اب اداکاروں پر کسی بھی وجہ سے خبروں میں رہنے کا دباؤ ہے۔ وائرل ہونے کا رجحان ایک بڑا کھیل ہے اور زیادہ تر اداکار متعلقہ ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ میرا دور سادہ تھا اور میری عمر کے اداکار صرف اداکاری پر مرکوز تھے کیونکہ فالوورز، لائکس اور ٹرینڈنگ کا کوئی کھیل نہیں تھا۔ مجھے اب بھی کسی تنازع میں پڑنے کی ضرورت نظر نہیں آتی۔
انہوں نے کہا کہ میں نے کبھی مقبول گلوکار بننے یا اداکاری کرنے کا نہیں سوچا تھا۔ میں مختلف راستے تلاش کرنا چاہتا تھا۔ میرا مقصد کبھی اسٹارڈم نہیں تھا، اس کی خواہش کرنا کوئی بری بات نہیں لیکن میرا مقصد یہ کبھی نہیں تھا۔ ہر کردار کا ایک لمس ہوتا ہے اور میں اسے محسوس کرنا چاہتا تھا۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ کرداروں کو منتخب کرنے کا مطلب وہ زندگی ایک بار جینا تھا جس سے میں نے لطف اٹھایا۔ اداکار نے پر امید انداز میں جواب دیا مجھے کبھی بھی اسکرپٹ چھوڑنے یا کوئی کردار نہ کرنے پر پچھتاوا نہیں ہوا،لہٰذا، مجھے کبھی ناکامی یا کامیاب ہونےکا احصاس نہیں ہوا۔ میں اداکاری، گانا، کرکٹ میں اپنے تمام جذبوں کی سختی سے پیروی کر رہا ہوں۔
سوشل میڈیا نے اس شعبے کو مکمل طور پر بدل دیا ہے اور جنید خان اسے ایک مثبت چیز کے طور پر دیکھتے ہیں، جس سے سیکھنے اور اسے بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News