Advertisement
Advertisement
Advertisement
Advertisement

اور دُرست جواب ہے! ۔۔۔

Now Reading:

اور دُرست جواب ہے! ۔۔۔

تمام زبردست کوئز شو کہاں گئے؟

 بولڈ معاملے کا گہرائی سے تجزیہ کرتا ہے

اِن دنوں ٹیلی ویژن کوئز شوز کی مروجہ کمی کچھ لوگوں کے لیے حیران کن ہو سکتی ہے۔ تاہم آج کے الیکٹرانک میڈیا کی موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے یہی سمجھ میں آتا ہے کہ کوئز پروگراموں یا اسی طرح کے ذہنی مواد پر مبنی گیم شوز جو ٹیلی ویژن کے ذہانت پر مبنی پروگراموں کے مٹھی بھر سامعین کے لیے ہی اہمیت رکھتے ہیں، کی قیمت پر مقبول عام بصری مواد اور دھواں دھار نشریات کو زیادہ وقت دیا جاتا ہے۔

تعلیم اور سیکھنے کو فروغ دیتے ہوئے بہت سے کوئز شوز بین الاقوامی سطح پر الگ اور انتہائی مقبول ہونے کے ساتھ ساتھ ٹیلی ویژن کی دنیا میں سب سے زیادہ فروخت ہونے والی قِسم کے طور پر اُبھرے ہیں۔ اس کے برعکس پاکستان میں ٹیلی ویژن انڈسٹری تفریح، تخلیق اور تعلیم کی آڑ میں رجعت پسندی کا راستہ اختیار کرنے پر تُلی نظر آتی ہے۔ وہ دن ماضی کا حصہ بن گئے جب کوئز شوز اعلیٰ صلاحیتوں کے مظاہر ہوا کرتے تھے جیسے کسوٹی، جہاں نما، نیلم گھر، ذہنی آزمائش اور ذوقِ آگہی گھر گھر میں مقبولِ عام نام ہوا کرتے تھے اور اسی طرح اِن کے علمی اور مطالعاتی میزبان اور دانشور شخصیتیں ہوا کرتی تھیں جیسے عبید اللہ بیگ، افتخار عارف، ضیاء محی الدین، غازی صلاح الدین اور قریش پور۔

Advertisement

سو سے زائد ٹی وی چینلز کے باوجود گزشتہ دو دہائیوں کے دوران معیاری کوئز پروگرامز کی تعداد میں کافی کمی آئی ہے۔ کوئز شوز کے نام پر ٹیلی ویژن پر جو کچھ بھی نشر کیا جاتا ہے، اس کا مقصد بنیادی طور پر کسی کے علم کی جانچ یا ذہنی صلاحیت اور یادداشت کی مہارت کو جانچنا نہیں ہے۔ دماغی اور ذہنی صلاحیتوں کو مشغول کرنے کی غرض سے فکری مواد تیار کرنے کی بجائے کوئز پروگراموں کے موجودہ انداز نے انہیں تحائف بانٹنے کی بے ڈھنگی تفریح تک محدود کر دیا ہے جو بنیادی طور پر پہیلیوں، مضحکہ خیز اُچھل کُود، عجیب و غریب چالوں، زبان مروڑ جملوں اور فضول حرکتوں کے آمیزے پر مشتمل ہوتی ہے جو علمی اشتراک اور تعلیمی ٹی وی پروگرام کے نام پہ خاندان بھر کو خوشی، تفریح اور ہنسی فراہم کرتی ہے۔

اس سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ آج کے ٹی وی چینلز پہ کوئز شوز کی کمی ہے یا ہٹ کوئز پروگرام پیش کرنے کی کوشش نہیں کی جا رہی ہے۔ تاہم جدید شوز کا انداز بنیادی طور پر شرکاء کے علم اور ذہنی صلاحیتوں کو جانچنے کے لیے تخلیق نہیں کیا گیا ہے کیونکہ آج کل کے کوئز شوز جن کا اگر قدیم کوئز پروگراموں سے مقابلہ کیا جائے تو یہ ایک قسم کا مخلوط مرکب ہوتے ہیں جن میں محض سوال و جواب کے سیشن کے علاوہ جس کا مقصد شرکاء کی معلومات کو جانچنا ہو، کئی کھیل، ڈرامے اور موسیقی کی پرفارمنس شامل ہوتی ہیں۔

بظاہر روایتی نقطہء نظر بصورت دیگر سنجیدہ، ذہانت سے بھرپور پروگراموں کو ہلکی پھُلکی تفریح کی طرف لے جاتا ہے جن میں شرکاء اور گھر بیٹھے ناظرین دونوں کو ہنسانے کی کوشش کی جاتی ہے تاکہ ان کی دلچسپی اور تفریح برقرار رہے اور وہ بور نہ ہوں۔ سب سے اہم بات یہ کہ کوئز شوز کے لیے مختص وقت ان کی بڑے پیمانے پر تجارتی کامیابی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ تاہم سامعین کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی بے پناہ صلاحیت کے باوجود زیادہ تر کوئز پر مبنی گیم شوز کو پرائم ٹائم کے دوران نشر نہیں کیا جاتا اور اس طرح وہ ناظرین کی بڑی تعداد حاصل کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔

اس سے ٹی وی زیادہ دیکھے جانے کے اوقات کے دوران نشر ہونے والے کوئز پروگرام کے بے شمار خطرات کا بھی پتا چلتا ہے کیونکہ ان شوز کو سامعین کی دلچسپی کا محور نہیں سمجھا جاتا، خاص طور پر ہمارے جیسے معاشرے میں جہاں زیادہ تر لوگ ایک ہی قسم کی تفریح کی خواہش رکھتے ہیں جو دلچسپ اور قابلِ فہم ہونے کے ساتھ ساتھ شروع سے ہی یکساں طور پر دھواں دھار اور پُرجوش ہو تاکہ وہ ایک مصروف دن کے اختتام پر آرام دہ، انعام یافتہ اور تفریح کا احساس دلائیں۔ دوسری طرف کوئز پروگرام، جیسا کہ اس کی صنف سے پتا چلتا ہے، اوسط ناظرین کے لیے بور سمجھے جاتے ہیں گویا یہ کوئی غیر معمولی چیز ہے جو ذہانت کو جھنجھوڑ دیتی ہے اور لمحے بھر میں نیند کی آغوش میں لے جاتی ہے جو درست نہیں۔

زیادہ تر ٹی وی ناظرین کے لیے کوئز شوز صرف اور صرف نوجوان طلباء کے لیے معلومات کا ایک ذریعہ ہیں جو تعلیمی مقصد سے تیار کیے جاتے ہیں اور ان میں عام ناظرین کی تفریحِ طبع کے لیے کوئی خاص مسالا نہیں ہوتا۔ پرائم ٹائم کے باقی شوز محبت، نفرت، رقص، رومان اور انتقام کے گرد گھومتے ہیں جو دیگر تفریحی صفات کے ساتھ ساتھ سستے عنوان سے لیس ہیں اور تفریحی دنیا کی خصوصیت ہیں۔

ایک ہمہ جہت “یکسانوی” عنصر آج کے ٹی وی ناظرین کے ساتھ ساتھ اُبھرتے ہوئے ہدایت کاروں اور پروڈیوسروں کے لیے بھی تشویش کا باعث ہے جو اپنے گیم شوز کو ناظرین میں مقبول کرنے کے لیے پوری کوششیں کر رہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ 1970ء، 80ء اور 90ء کی دہائی کے آف لائن دنیا کے لوگوں کے مقابلے میں کافی کم توجہ سے تعلیمی مواد کی طلب کو پورا کرنے کے ساتھ نئی ٹیکنالوجی سے متاثرہ نسل کی ضرورت کو پورا کرنا سب سے مشکل کام بن چکا ہے۔ چاہے جو بھی ہو اِن ناظرین کو اپنی جانب متوجہ کرنے کے علاوہ اور کیا کام مشکل ہو سکتا ہے جن کے پاس چوبیس گھنٹے تفریح کے ایسے بہت سے ذرائع موجود ہیں جن کی وجہ سے انہیں ذہنی طور پر مشغول ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ خاص طور پر جب بور کوئز پروگرام کی بات آتی ہے تو واقعی ایک پرائم ٹائم فیملی شو بنانا زیادہ مشکل ہو جاتا ہے جو صارفین کی بڑھتی مصروفیت اور بلند ٹی وی ریٹنگز کے ساتھ ساتھ زیادہ ناظرین حاصل کر سکے۔

Advertisement

سب سے زیادہ وہ لوگ جو میڈیا اداروں کے کرتا دھرتا ہیں، ایک ثنائی دنیا میں رہنے کا رجحان رکھتے ہیں جس پر ہر لحاظ سے دوہرے اور قطبی مخالفین کا راج ہے۔ حقیقتاً، مثال کے طور پر سامعین وہی دیکھتے ہیں جو انہیں میڈیا پیش کرتا ہے تاہم زیادہ تر میڈیا ادارے دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ وہی مواد ناظرین تک پہنچاتے ہیں جو وہ چاہتے ہیں۔ ایسے متضاد بیانات کے درمیان جو غلط مشاہدات اور جائزوں پر مبنی ہوتے ہیں، پرائم ٹائم ٹیلی ویژن پر حکمرانی کرنے والے ٹی وی پروگرام زیادہ تر گہرائی سے خالی اور ایک سطحی سوچ سے جڑے ہوتے ہیں جو زیادہ ٹی آر پی اور اشتہاری آمدن کمانے میں معجزاتی طور پر کام کر سکتی ہے۔ تاہم واضح طور پر اس طرح کے مرکزی دھارے میں شامل مگر فضول پروگرام ناظرین اور بالخصوص بچوں کی علمی صلاحیتوں اور فکری نشوونما میں بہت کم اضافہ کرتے ہیں۔

موجودہ صورتحال میں مین اسٹریم ٹی وی شوز میں تجارتی کامیابی اور ناظرین کو جیسے بھی ممکن ہو تفریح فراہم کرنے پر زیادہ توجہ مرکوز کی جاتی۔ اگرچہ حالاتِ حاضرہ کے سب سے مشہور پروگرام اور ٹاک شوز کا مقصد بنیادی طور پر سامعین کو موجودہ سیاسی پیش رفت کے ساتھ ساتھ ملک کو درپیش سنگین سماجی و اقتصادی مسائل سے آگاہ کرنا ہوتا ہے تاہم ان شوز کے ذریعے پھیلائی جانے والی معلومات کے منتخب حصے انتہائی موضوعی اور ان اطلاعات و معلومات سے عاری ہوتے ہیں جو ہماری دنیا کے بارے میں عام بیداری پیدا کریں اور ساتھ ہی اس زندگی سے جو ہمارے آبا و اجداد نے غاروں اور چٹانوں کی پناہ گاہوں اور جھونپڑیوں میں گزاری اور جو  روشن خیالی اور آگاہی کا باعث بن سکتی ہیں۔

سیاسی اپ ڈیٹس اور حالیہ واقعات سے بھرپور اِن ٹاک شوز اور نیوز پروگرام میں ابتدا سے ہی ناظرین کی فکری صلاحیت کو بڑھانے پہ کم اور سیاسی طور پر آگاہ ذہنیت کو کسی خاص بیانیے کی جانب مائل کرنے پہ زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔ اسی طرح سیاسی بیداری پیدا کرنا زیادہ مطلوب مقصد ہے اور وہ بھی پہلے سے طے شدہ حد میں جو زیادہ تر حاصل کر لیا جاتا ہے جبکہ تعلیم کے مختلف شعبوں اور بڑے پیمانے پر دنیا کے بارے میں عمومی و خصوصی علم، ذہانت، تخلیقی صلاحیتوں کو اُبھارنے اور بڑھانے کی کوئی کوششیں نہیں کی جاتیں۔

حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں زیادہ تر ٹی وی چینلز ہر طرح سے ہٹ کوئز پروگرام پیش کرنے کی جدوجہد کر رہے ہیں اور اگر سچ کہا جائے تو گزشتہ دو دہائیوں میں کوئی بھی پاکستانی چینل خاص طور پر کوئی نُمایاں کوئز شو شروع کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ گزشتہ 23 برسوں سے مسلسل جاری  بین الاقوامی ٹی وی گیم شو فرنچائز “کون بنے گا کروڑ پتی” بھارت کا سب سے کامیاب ٹی وی پروگرام ہے۔ اس کے برعکس پاکستان میں یہی فرنچائز ایک فلاپ شو کے طور پر ختم ہوا اور پہلے سیزن کے بعد بند کر دیا گیا۔ یہی حشر پاکستان میں بہت سے دیگر ٹیلنٹ شوز کا بھی ہوا جو “امریکن آئیڈل” اور “دی گریٹ انڈین لافٹر چیلنج” جیسے مقبول ترین بین الاقوامی ٹی وی شوز سے کافی حد تک متاثر تھے۔

کیا اس کا پاکستان میں ٹیلنٹ کی کمی سے کوئی تعلق ہے؟ اس کا جواب بڑی حد تک اثبات میں ہے کیونکہ ملک تیزی سے گرتی سماجی و اقتصادی صورتحال کے ساتھ ساتھ انسانی ترقی کے منفی اشاریے، بگڑتے امن و امان اور آبادیاتی مسائل سے دوچار ہے، ملکی عوام بالخصوص نوجوان اس دنیا میں نہیں رہتے جہاں وہ کچھ دہائیاں پہلے رہ رہے تھے۔ یومیہ بنیاد پر اپنی بنیادی بقا کو یقینی بنانے کی کوششوں میں مصروف بہت کم فیصد افراد اس بات پر توجہ مرکوز کر پاتے ہیں کہ وہ اپنے خوابوں کو پورا کرنے اور خود حقیقت پسندی کی بہترین سطح کے حصول کے لیے کیا کرنے کے قابل ہیں۔

معاون ماحول سے محروم، مطالعے کی عادت میں کمی اور اپنی صلاحیتوں کو بلند کرنے، بڑھانے اور اِن کا اظہار کرنے کے بہت کم مواقع کے ساتھ آج کی نوجوان نسل انسانی ترقی کے اشاریوں کے حوالے سے خسارے میں ہے۔ ہنر کی کمی کے علاوہ جدید ٹیکنالوجی کی شیدائی نوجوان نسل، جو گزشتہ نسلوں سے زیادہ ہوشیار ہے، کو گمشدہ نسل بھی کہا جا سکتا ہے کیونکہ یہ جدید مواصلاتی آلات کو استعمال کرنے اور تکنیکی ترقی سے فائدہ اٹھانے میں زیادہ مصروف ہے۔ تاہم نئی نسل روایتی طریقوں سے تاریخ، سائنس، فنون اور کلاسک ادب کے بارے میں علم حاصل کرنے میں کم دلچسپی رکھتی ہے اور اس طرح وہ قدیم فکری و تفریحی سرگرمیوں کی تعمیل میں ناکام رہتی ہے۔ مواد کی کھپت کی ترجیحات کو مدنظر رکھتے ہوئے ٹی وی کوئز پروگراموں کو تخلیق اور تیار کرنے کے لیے کافی زیادہ کوششیں کی جانی چاہئیں جو ذہنی مواد پر مبنی ہوں اور پاکستانی ناظرین کی بڑی تعداد کے لیے معلوماتی، تفریحی اور مُفید ہوں۔

Advertisement

ملک میں کوئز مواد کے کم استعمال کی دوسری بڑی وجہ بھاری بھرکم ایوارڈز اور بڑے انعامات کی کمی نہیں ہے۔ سیدھی سی بات ہے کہ زیادہ تر میزبان کوئز پروگراموں کی میزبانی کے لیے کم قابل اور نااہل ہوتے ہیں کیونکہ ان کے پاس اس قسم کے ٹی وی شوز کے لیے مطلوبہ دانشورانہ مہارت، علمی ذہانت اور ادبی صلاحیت نہیں ہوتی۔ معین اختر اور عامر لیاقت حسین اچھے میزبان تھے اور اسی طرح احمد علی بٹ اور فہد مصطفٰی بھی ہیں۔ تاہم پہلے سے کوئی ثابت شدہ فنکارانہ اسناد، شہرت یا بڑے پیمانے پر مقبولیت نہ رکھنے والے قریش پور اور طارق عزیز علم و ادب سے شغف رکھنے والے اور اپنے کوئز شوز کو کامیابی سے چلانے کے مکمل اہل تھے اور اس طرح وہ برسوں، حتیٰ کہ دہائیوں تک بغیر وقفے کے تنہا پروگرام چلا پائے جو کوئی معمولی کارنامہ نہیں ہے۔

اس کے علاوہ کوئز شو کے شرکاء کے لیے ملک گیر شہرت کا حصول بہت کم دکھائی دیتا ہے جیسا کہ کراچی کے ایک نابینا حافظ نسیم کو حاصل ہوئی تھی جنہوں نے ٹی وی شو “نیلم گھر” میں کار کا سب سے بڑا انعام جیتا تھا۔ اس کوئز شو کو بعد ازاں ’’طارق عزیز شو‘‘ کا نام دیا گیا۔ اسی طرح این ای ڈی یونیورسٹی، کراچی کے ایک طالب علم عاصم صدیقی نے اُن کوئز پروگراموں کے ذریعے شہرت حاصل کی جن کے میزبان زیادہ تر قریش پور ہوا کرتے تھے۔ عاصم صدیقی نے سارک کی سطح پر منعقدہ بین الاقوامی ٹی وی کوئز شو میں پاکستان کی نمائندگی بھی کی۔ اس کے علاوہ آج کے مشہور ٹی وی میزبان جیسے اقرار الحسن اور وسیم بادامی بھی کوئز پروگراموں سے ہی سامنے آئے۔

میلو ڈرامائی ٹی وی سیریل، کبھی نہ ختم ہونے والے پُرکشش ڈراموں کی طرح دانشورانہ مواد پرائم ٹائم مقام کا حامل ہے جو بیک وقت زیادہ تر ناظرین کو تعلیم و تفریح فراہم کرتا ہے۔ ذہانت پر مبنی مواد اور اچھے تحقیق شدہ انداز کی بنیاد پر ٹی وی شوز نوجوان ٹیلنٹ کی نرسری کے طور پر کام کر سکتے ہیں۔ آخر میں، کیا پاکستان میں “ذہانتی ٹیلی ویژن” کی موت کا اعلان کرنا قبل از وقت ہوگا؟ آپ کا اندازہ بھی میرے اندازے جیسا ہی اچھا ہے۔

Advertisement
Advertisement

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
کراچی، شاہراہِ فیصل ناتھا خان پل پر ایک اور شگاف، ٹریفک کی روانی متاثر
ملازمت کی کون سی شفٹ گردوں کی صحت کو متاثر کرتی ہے؟
سونا پھر مہنگا، قیمت میں بڑا اضافہ ریکارڈ
ایف بی آر کا کریڈٹ کارڈ ہولڈرز کے خلاف گھیرا تنگ کرنے کا فیصلہ
خضدار؛ سیکیورٹی فورسز کی کارروائی میں فتنہ الہندوستان کے 14 سے زائد دہشت گرد ہلاک، درجنوں زخمی
طوفان شکتی کی شدت میں مزید اضافہ، کراچی سے 390 کلومیٹر دور، سمندر میں طغیانی کا امکان
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر