
صبیحہ ثمر کی فلم ’’خاموش پانی‘‘ اپنی ابتدائی ریلیز کے 20 برس بعد بالآخر کراچی میں نمائش کے لیے پیش کر دی گئی
برصغیر پاک و ہند کا سنیما زیادہ تر گانوں اور رقص کے لیے پوری دنیا میں جانا جاتا ہے لیکن کبھی کبھار کوئی ایسی فلم بھی آجاتی ہے جو اپنی جاندار کہانی اور متاثر کن اداکاری سے مغرب کے خیالات کو بدل دیتی ہے۔ بھارت میں ایسی فلموں کا کُشادہ دلی سے استقبال کیا جاتا ہے جبکہ پاکستان میں انہیں مختلف وجوہات کی بنا پر ریلیز نہیں ہونے دیا جاتا۔ خاموش پانی بھی ایک ایسی ہی فلم تھی جسے 2003ء میں نمائش کے لیے این او سی نہیں دیا گیا تھا اور فلم سازوں کو 2023ء میں تھیٹر میں نمائش کے لیے پیش کیے جانے تک اِس فلم کی فیسٹیول میں نمائش کے ساتھ ساتھ غیر ملکی ریلیز پر ہی گزارہ کرنا پڑا تھا۔
فلم کی کہانی
یہ کہانی 1979ء میں پاکستان کے صوبے پنجاب کے چرخی نامی گاؤں کی ہے جہاں ہر طبقے کے لوگ پُرسکون زندگی گزار رہے ہوتے ہیں۔ اُن کی زندگی میں اُس وقت بھونچال آجاتا ہے جب حکومتی حمایت یافتہ دو شدت پسند (سرفراز انصاری اور عدنان شاہ ٹیپو) افغان جنگ میں لڑنے کی غرض سے نوجوانوں کو بھرتی کرنے شہر سے آتے ہیں اور اسلامی تعلیمات کی آڑ میں علاقے کے امن کو خراب کرتے ہیں۔ اُس وقت سلیم (عامر ملک) اپنی محبوبہ زبیدہ (شلپا شکلا) میں دلچسپی کھو دیتا ہے جس کی وجہ سے وہ اپنی ماں عائشہ (کرن کھیر) کی نظروں میں مشکوک ہو جاتا ہے جو اسلام کو غلط انداز میں سمجھنے پر اپنے بیٹے سے باز پُرس کرتی ہے۔ تاہم جب ایک سکھ یاتری عائشہ کی گمشدہ بہن کو ڈھونڈتا ہوا اُس کی دہلیز پر پہنچتا ہے تو عائشہ کے لیے حالات بدتر ہو جاتے ہیں اور ماضی چھپانے پر جاننے والوں (ارشد محمود، فریحہ جبین، سلمان شاہد، عابد علی) سمیت سب ہی اُس کا بائیکاٹ کر دیتے ہیں۔
اچھا پہلو
فلم خاموش پانی فوجی آمر ضیاء الحق کے دور میں پاکستان کی بہترین نمائندگی ہے جہاں آپ یا تو ضیاء کے حامی تھے یا مخالف۔ یہ فلم ایک دور افتادہ گاؤں میں اُن دو قسم کے لوگوں کی زندگیوں کے گرد گھومتی ہے جہاں انتہا پسندوں کی جانب سے مذہب کو ایک آلے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے تو معاملات بگڑنے لگتے ہیں۔ مذہبی انتہا پسندی کے خلاف کھڑے مقامی لوگوں کو اسٹیبلشمنٹ کی پشت پناہی کے حامل افراد غنڈہ گردی کا نشانہ بناتے ہیں جبکہ خواتین کو بھی اس طرح سے بے عزت کیا جاتا ہے کہ ان کے اسکول کی دیوار کو بڑھایا جاتا ہے تاکہ راہگیر چپکے سے اندر جھانک نہ سکیں۔
سب سے بڑھ کر جس طرح کرن کھیر اور عامر ملک نے اپنے کردار ادا کیے ہیں وہ واقعی ایوارڈ کے لائق ہیں کیونکہ وہ بذاتِ خود نہیں بلکہ اپنے کرداروں کے ذریعے فلم میں چھائے رہے۔ فلم کے آغاز میں اُن کی کیمسٹری زبردست ہے اور اختتام تک شاندار ہو جاتی ہے جو متاثر کن ہونے کے ساتھ ساتھ قابل ستائش بھی ہے۔ جس طرح ہدایت کار نے وی سی آر، ٹی وی، مذہبی پمفلٹ، خطبات اور داڑھی کی ضرورت کو فلم میں شامل کیا ہے اِس سے آپ اُس دور سے پہلے سے زیادہ نفرت کرنے لگتے ہیں۔
معروف ٹی وی اداکار عابد علی مرحوم، ارشد محمود، سلمان شاہد، فریحہ جبین، نثار قادری اور ریحان شیخ بھی فلم میں جلوہ گر ہیں اور اِن کے ذکر کے بغیر فلم کا تجزیہ نامکمل ہوتا۔ ارشد محمود نے نہ صرف بیگم خورشید شاہد (سلمان شاہد کی والدہ) کے ساتھ ایک گانا گایا بلکہ پسِ پردہ موسیقی بھی دی۔ فلم کے پہلے منظر سے لے کر آخری منظر تک بیانیے پر مکمل گرفت برقرار رہی جو سامعین کی توجہ کو بھٹکنے نہیں دیتی اور اس کے لیے ٹیم کو سراہنا چاہیے۔
بُرا پہلو
خاموش پانی میں شاید ہی کچھ غلط ہو سوائے اس حقیقت کے کہ بعض اوقات اِس کی کہانی میں غیر ضروری طوالت نظر آئی۔ ہو سکتا ہے کہ اس کی وجہ اس کا 20 سال پرانا ہونا ہو جب کہانی کا انداز مختلف ہوتا تھا۔ اس کے علاوہ آرٹ ڈائریکشن سے لے کر کردار نگاری تک ہر چیز کو بخوبی انجام دیا گیا ہے۔ اگرچہ شلپا شکلا (چک دے انڈیا اور بی اے پاس کی معروف اداکارہ) نے اِس فلم سے شروعات کی تاہم وہ بنیادی طور پر باقی پاکستانی کاسٹ سے زیادہ کسی نہ کسی طرح بھارتی نظر آتی ہیں۔
نتیجہ 5/4
گزشتہ اختتامِ ہفتہ، ناپا میں خاموش پانی کی نمائش کو بیان کرنے کے لیے بہترین الفاظ یہی ہیں کہ دیر آید درست آید۔ اس سے پہلے کراچی میں اب معطل کارا فلم فیسٹیول کے دوران فلم کی ایک بار نمائش کی گئی تھی تاہم وہ منتخب ناظرین کے لیے تھی۔ تازہ ترین نمائش کی بدولت جس میں کچھ کاسٹ نے شرکت کی، اس بار زیادہ لوگوں نے یہ فلم دیکھی اور وہ خوشگوار حیرت میں مبتلا ہوئے۔ انہوں نے بالآخر وہ فلم دیکھی جو بیس سال تک دوسروں کے لیے ایک معیار بنی رہی اور یہ وجوہات جانیں کہ کیوں یہ بین الاقوامی شہرت اور پہچان حاصل کرنے والی پہلی پاکستانی فلم بنی۔
آج خاموش پانی کو بین الاقوامی سطح پر ایک جدید کلاسک کے طور پر یاد کیا جاتا ہے اور برصغیر پاک و ہند کی تقسیم کی 70 ویں سالگرہ کے موقع پر اسے یورپ میں دوبارہ ریلیز کیا گیا ہے۔ اسے نہ صرف لوکارنو فلم فیسٹیول میں سب سے بڑا انعام، گولڈن لیپرڈ دیا گیا بلکہ اُس وقت نسبتاً کم معروف بھارتی اداکارہ کرن کھیر نے بھی اعلیٰ ترین بین الاقوامی ایوارڈ جیتا جنہوں نے مرکزی کردار ادا کیا تھا۔ نیز یہ سنڈینس فلم فیسٹیول میں شامل ہونے والی پہلی جنوبی ایشیائی فلم تھی اور اسے بھارتی شہروں ممبئی اور دہلی سمیت دنیا بھر میں تھیٹر پر ریلیز کیا گیا جہاں اس کی دو ماہ سے زیادہ عرصے تک یش چوپڑا کی فلم ویر زارا کے ساتھ نمائش جاری رہی۔
آج اس فلم کو دیکھنے سے ناظرین کو یہ محسوس ہوگا کہ 2002ء میں اسے سینما گھروں میں ریلیز نہ کرنا اس وقت کی فوجی اسٹیبلشمنٹ کی بڑی غلطی تھی۔ اس طرح کی فلموں کو سینما گھروں میں دیکھنے کی ضرورت ہے نہ کہ دیگر پلیٹ فارمز پر اور اگر اسے نمائش کی اجازت دی جاتی تو یہ ملک کے لیے آسکر ایوارڈ جیتنے میں بھی کامیاب ہو سکتی تھی۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News