Advertisement
Advertisement
Advertisement
Advertisement

سوئنگنگ سکسٹیز کی  یادیں تازہ کرتی کتاب

Now Reading:

سوئنگنگ سکسٹیز کی  یادیں تازہ کرتی کتاب

یہ کتاب آپ کو 1960ء کی دہائی میں لے جاتی ہے،

 یہ اور بات ہے کہ وہ ایک الگ دنیا محسوس ہو!

کراچی

جب آپ 1960ء کی دہائی پر غور کرتے ہیں تو ذہن میں کیا تصاویر آتی ہیں؟ 1960ء اور 1969ء کے درمیان پیدا ہونے والے لوگوں کو چھوڑ کر باقی سب کے لیے یہ بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی، منی کوپرز اور انگلینڈ کے فٹ بال کا ورلڈ کپ جیتنے کا دور لگتا ہے۔ لیکن چارلی ایلس کی کتاب ’آپ کو معلوم ہے کہ آپ 1960ء کی دہائی کے بچے ہیں جب‘ کو پڑھنے کے بعد آپ دیکھیں گے کہ آپ اپنے آباؤ اجداد کے ساتھ اس قدر مشترک ہیں جتنا آپ نے سوچا بھی نہیں تھا۔

بیرون ملک 1960ء کی دہائی اور پاکستان میں 1980ء کی دہائی ایک دوسرے سے مماثل تھی کیونکہ تب باقی دنیا کی طرح ہمارا بھی صرف ایک ٹی وی چینل تھا، ہم بغیر کسی خوف کے اسکول سے گھر جاسکتے تھے اور لوگ گھر سے باہر جا کر کھیل کود کرنے کے قابل تھے۔ یہ کتاب قارئین کو بتاتی ہے کہ اگرچہ بہت سے لوگ یہ سوچ سکتے ہیں کہ 1960ء کی دہائی کسی قسم کا ایک اجنبی وقت تھا، لیکن یہ اس دور سے زیادہ مختلف نہیں تھا جس میں ہم بھی رہ چکے ہیں، یا اس سے واقف ہیں۔

Advertisement

یہ کتاب فلم ’بیک ٹو دی فیوچر‘ کی ٹائم مشین کی طرح ہے جس میں آپ ’مارٹی میک فلائی‘ ہیں جو ’ڈیلورین‘ نامی ایک کار میں 88 میل فی گھنٹہ کی رفتار کی مدد سے ماضی میں چلا جاتا ہے۔ اس فلم میں اسے جو ثقافتی جھٹکا لگا وہ بالکل ویسا ہی ہے جیسا آپ اس کتاب سے حاصل کریں گے کیونکہ یہ ماضی کے بارے میں اس طرح بات کرتی ہے جیسے یہ حال ہو۔ یہ ان لوگوں کی معلومات میں اضافہ کرتی ہے جو 1960ء کی دہائی میں پیدا نہ ہونے کے سبب اس کی تمام رنگینیوں سے محروم رہے یا یہ کہ 1960ء کی دہائی میں پیدا اور بڑے ہونے والے کتنے خوش قسمت تھے۔

ماضی کے بارے میں بہت سے اشارے، اہم تاریخوں کا تذکرہ، اور میوزک البمز تو صرف اس دہائی کی کچھ جھلکیاں ہیں، یہ کتاب آپ کے تصور سے کہیں زیادہ حقائق کا احاطہ کرتی ہے۔ یہ ان لوگوں کے بارے میں بتاتی ہے جو 1960ء کی دہائی میں زندہ تھے اور ان چیزوں کے بارے میں بھی جن پر وہ یقین نہیں کرتے تھے جیسے ’ملکی بار کڈ‘ کی طاقت اور سختی۔ یہ وہ وقت تھا جب والدین نے اپنے بچوں کو دھمکی دی تھی کہ اگر انہوں نے کبھی بال بڑھا کر غیر روائیتی لباس زیب تن کیا یا اگر انسان چاند پر اترا، تو وہ انہیں گھر سے نکال دیں گے۔

اگر آپ کو پرانے دور کے لمحے یاد ہیں اور ساتھ ہی کسی دوست کے گھر ٹی وی دیکھنے جانا، بوبی مور کا فٹبال ورلڈ کپ اٹھانا، یا بیٹلز یا ایلوس سے متاثر ہونا، تو ساٹھ کی دہائی میں زندہ ہونے پر اپنی خوش قسمتی کا شکر ادا کریں۔ ورنہ آپ جتنا زیادہ اس کتاب کو پڑھیں گے، اتنا ہی آپ اپنے والدین کو اس دنیا میں اتنی دیر سے لانے کا الزام دیں گے۔ آخر کار، اس دہائی میں ہر گھر میں لاوے کا چراغ نظر آیا، جہاں ہر بچہ ڈاکٹر اور مسٹر اسپاک کے درمیان فرق اور کرسٹین کیلر کے سرکاری رازوں کے علاوہ نوجوانوں کے دل چرا لینے کے بارے میں جانتا تھا ۔

اس کتاب کے بارے میں سب سے اچھی بات یہ ہے کہ یہ 1960ء کی دہائی کے لوگوں کو موسیقی، اس دور کی سائنسی کامیابیوں کے ساتھ ساتھ کھیلوں کے علم کے بارے میں کوئز کے ذریعے اس دہائی کے بارے میں آگاہ کرتی ہے، اس کے علاوہ 1960ء کی دہائی کے لوگوں کی جوانی کو زندہ کرتی ہے۔ سب سے بری بات یہ ہے کہ یہ بہت زیادہ برطانیہ پر مبنی ہے اور انگلینڈ میں نشر ہونے والے ٹی وی اشتہارات، لندن میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والی دکانوں اور برطانیہ میں بہت زیادہ گردش کرنے والے رسالوں کے گرد گھومتی ہے۔ اس کی وجہ سے ان صفحات پر دستیاب حقیقی تفریحی مواد کا ربط ٹوٹ جاتا ہے۔ لہٰذا یہ بہت اچھا ہو گا کہ اگر مصنف اس بات کا نوٹس لے اور قارئین کی تعداد بڑھانے کے لیے غیر برطانوی چیزیں بھی شامل کرے۔

اگر آپ نہیں جانتے تھے کہ ’بریک فاسٹ ایٹ ٹفنیز‘ میں مرکزی کردار کس نے ادا کیا تھا، جدید دور کا ٹیپ ریکارڈر کب ایجاد ہوا تھا، یا یہ کہ ڈیجیٹل کیمرہ کا پیش رو 1960ء کی دہائی میں وجود میں آیا تھا، تو آپ کو تاریخ کے طالب علم کے طور پر اپنی مہارت کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ یاد رکھنا آسان ہے کہ ڈیم ڈیانا ریگ ’دی ایونجرز‘ میں دو مرکزی کرداروں میں سے ایک تھیں، اور الزبتھ ٹیلر نے ’کلیو پیٹرا‘ کا کردار ادا کیا تھا اور کرک ڈگلس ہی حقیقی ’اسپارٹکس ‘ تھے۔ لیکن یہ جاننا کہ کس چیز نے ’ویمپی بار‘ کو منفرد بنایا، 1960ء کی دہائی میں ’لیوائز‘ کی ایک جوڑی کی قیمت کتنی تھی اور کس فلم کو پہلی بار ’صرف بالغ ناظرین کے لیے‘ کا سرٹیفکیٹ ملا۔ اگر آپ یہ نہیں جانتے تو یہ کتاب اس کا جواب ہے، ورنہ اپنے بزرگوں کی طویل تقریر کے لیے تیار رہیں۔

اگلی بار جب آپ کے دادا یا والدین میں سے کسی کو اپنے دور کی کوئی بات یاد آئے تو انہیں مکمل طور پر مسترد نہ کریں۔ جیسا کہ یہ کتاب آپ کو بتائے گی، انہوں نے آپ سے بہتر زندگی گزاری اور وہ ایک یا دو ایسی چیزوں کے بارے میں جانتے ہیں جو آپ اپنی زندگی میں بہتر کر سکتے ہیں۔ اگر آپ ان والدین یا دادا دادی میں سے ہیں جو اپنے بچوں کو حقیر سمجھتے ہیں، تو اس کتاب کے ذریعے اپنے پرانے دنوں کو زندہ کریں اور آپ سمجھ جائیں گے کہ آج کے نوجوان کن حالات سے گزر رہے ہوں گے۔ مجموعی طور پر، یہ کتاب آپ کو کمپنی دینے اور آپ کی کرسی سے ہٹے بغیر اس دور میں واپس لے جانے کے لیے ایک بہترین ذریعہ ہے۔ لطف اٹھائیں!

Advertisement
Advertisement

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
تمباکو اب بھی لوگوں کی جانیں لے رہا ہے، ترجمان صدر مملکت مرتضیٰ سولنگی
صدر مملکت سے وزیراعظم کی اہم ملاقات کی اندرونی کہانی سامنے آ گئی
مصطفیٰ کمال کی سعودی ہم منصب فہد بن عبدالرحمن سے ملاقات، باہمی تعاون بڑھانے پر اتفاق
افغان جس تھالی میں کھاتے ہیں اسی میں چھید کر رہے ہیں ، خواجہ آصف
انکم ٹیکس ریٹرن جمع کرانے کی تاریخ میں ایک بار پھر توسیع
بغیر ڈرائیور خودکار ٹیکسی لندن میں کب چلیں گی؟ گوگل نے بتا دیا
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر