
اگرچہ وہ اب ہمارے درمیان نہیں ، لیکن ان کی میراث تاحیات ہمارے دلوں میں زندہ رہے گی
کچھ اچھے ڈرامہ نگار تو ہیں لیکن اچھے شاعر نہیں، کچھ ڈرامہ نگار تو اچھے نہیں لیکن شاعر اچھے ہیں جبکہ کچھ دونوں شعبوں میں بس ٹھیک ہی ہیں۔ امجد اسلام امجد پورے برصغیر میں غالباً پہلی شخصیت تھے جو چاہے ٹی وی ڈرامہ لکھیں، گانا یا پھر نظم، وہ اپنے کام میں ماہر تھے۔ وہ اپنے بہت سے جانشینوں کے لیے ایک مثال تھے جن میں معروف بھارتی اسکرپٹ نگار اور شاعر جاوید اختر بھی شامل ہیں۔ اُنہوں نے ایک بار ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا تھا کہ وارث جیسے ڈرامے نے اُنہیں بطور اسکرپٹ نگار کافی متاثر کیا۔
اگست 1944ء کو لاہور میں امجد اسلام کے نام سے پیدا ہونے والے امجد اسلام امجد کرکٹ میں پہلے سے دلچسپی رکھنے کے باوجود ہمیشہ ادب سے وابستہ رہے۔ انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے اردو ادب میں ماسٹرز کیا جس کے بعد وہ ایم اے او کالج میں لیکچرار بن گئے۔ کم عمری میں شہرت حاصل کرنے کے باوجود انہوں نے پڑھانا جاری رکھا۔ اپنی 30 ویں سالگرہ سے پیشتر ہی وہ ایک مشہور شاعر بن چکے تھے جن کی نظمیں احمد ندیم قاسمی کے جریدے “فانوس” کے صفحات کی زینت ہوا کرتی تھیں۔ جب بہت سے نوجوان بطور شاعر ان کے کام سے متاثر تھے، وہ ایک عجیب موڑ لے کر ڈرامہ نگار بن گئے جنہوں نے پہلے طنز و مزاح سے شروعات کی اور بعد میں معاشرے کی خامیوں کو اُجاگر کرنے والے ڈرامے لکھنے شروع کر دیے۔
انہوں نے اپنے تخلّص امجد کا استعمال شاعری کے ساتھ ساتھ ڈرامہ نگاری میں بھی برقرار رکھا۔ یا نصیب کلینک کے ساتھ وہ ٹی وی کے باقاعدہ ڈرامہ نگار بن گئے اور جب پانچ سال بعد انہوں نے شہرہ آفاق ڈراما وارث تحریر کیا تو وہ ایک جانا پہچانا نام بن چکے تھے۔ انہوں نے کامیابی کو اپنے سر پر سوار نہیں ہونے دیا اور ہٹ ٹی وی ڈرامے لکھتے رہے، ایک دو فلموں کے اسکرپٹ بھی تحریر کیے اور جب پی ٹی وی کو ایک معلوماتی پروگرام کے لیے میزبان کی ضرورت پڑی تو وہ ایک بہترین میزبان بھی ثابت ہوئے۔ چونکہ وہ تمام موضوعات پر عبور رکھتے تھے اور ہر قسم کے پروگرام کر سکتے تھے تاہم ادب، تاریخ یا ڈراموں کے حوالے سے اُن سے بہتر کون ہو سکتا تھا۔
امجد اسلام امجد کی ذہانت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ بیک وقت شاندار ڈرامہ نگار، تجربہ کار شاعر، کہنہ مشق مصنّف اور تقاریب کے روحِ رواں تھے اور کسی بھی زمرے میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ اگر انہوں نے 80ء اور 90ء کی دہائی میں سپر ہٹ ڈرامے لکھے تو انہوں نے چند فلمیں اور پچاس سے زائد کتابیں بھی تحریر کیں اور پہلے پی ٹی وی اور بعد ازاں نجی ٹی وی چینلز پر باقاعدہ میزبان رہے۔ ٹی وی پر کوئی بھی مشاعرہ ان کی شرکت کے بغیر مکمل نہیں ہوتا تھا اور اس زمانے میں پروان چڑھنے والی نسل انہیں ایک ایسا میزبان سمجھتی تھی جو شعر کہنا زیادہ پسند کرتے تھے۔
امجد اسلام امجد کی 78 برس کی عمر میں اچانک وفات پاکستان اور دنیا بھر میں اردو ادب کے چاہنے والوں کے لیے ایک المیے سے کم نہیں۔ وہ اپنی زندگی میں بھی ایک لیجنڈ تصور کیے جاتے تھے اور فن کی دنیا میں وہ ہمیشہ اپنی یکتا حیثیت کے باعث یاد رکھے جائیں گے۔ اُن کا کام انہیں ہمیشہ زندہ رکھے گا۔ آئیے ایک ڈرامہ نگار، شاعر، مصنّف اور میزبان کے طور پر ان کی انفرادی عظمت پر ایک نظر ڈالتے ہیں اور محسوس کرتے ہیں اُن جیسا تو دُور، اُن سے کچھ ملتا جُلتا عظیم انسان تلاش کرنے میں بھی برسوں لگ جائیں گے۔
شاندار ڈرامہ نگار
اگر پی ٹی وی پر نشر ہونے والے بہترین ڈراموں کی فہرست مرتب کی جائے تو سرِ فہرست تین ڈراموں میں وارث بھی شامل ہوگا۔ یہ نہ صرف پہلا رنگین ڈراما تھا جس میں معاشرے کی خامیوں پر روشنی ڈالی گئی تھی بلکہ اِس نے چھوٹے پردے کے ناظرین کو یہ احساس بھی دلایا کہ اگر دُرست طور سے بیان کی جائے تو ٹی وی پر بھی فلمی کہانی پیش کی جا سکتی ہے۔
امجد اسلام امجد نے بطور مصنّف ایک گفتگو کے دوران انکشاف کیا کہ جب پی ٹی وی لاہور کے جنرل منیجر کنور آفتاب نے ایک سنجیدہ ڈرامے کے لیے ان سے رابطہ کیا تو وہ اپنے مزاحیہ اسکرپٹس، خاص طور پر یا نصیب کلینک کے لیے زیادہ مشہور تھے جو ایک حقیقی واقعے پر مبنی تھا۔ انگریزی فکشن میں دلچسپی کے باعث وہ اس چیلنج کو قبول کرنے میں کامیاب ہوئے جس میں ناظرین کو اداکاری دکھانے کی بجائے معاشرے میں موجود برائیوں سے آگاہ کرنے کے لیے کردار نگاری کا استعمال کیا گیا اور یہی چیز انہوں نے ڈراما وارث میں شامل کرنے کی کوشش کی۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ انہیں پہلے سے ہی کافی یقین تھا کہ وہ جو ڈراما لکھ رہے ہیں، مشہور ہوگا لیکن جب یہ بہت زیادہ ہٹ ہو گیا تو وہ آسمان کی بلندیوں پر پہنچ گئے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ اگر انہیں 40 سال پہلے بتایا جاتا کہ وارث 4 دہائیوں بعد بھی ناظرین کو یاد رہے گا تو وہ اس بات پر یقین نہ کرتے۔
امجد اسلام امجد کے مطابق وارث سے پہلے اردو ڈراموں کا مسئلہ یہ تھا کہ اُن میں سماجی برائیوں کو اجاگر نہیں کیا جاتا تھا اور صرف ادبی پس منظر رکھنے والے افراد ہی خود کو اس مشکل میں ڈالنے کی ہمّت رکھتے تھے۔ وہ خوش تھے کہ وہ ان چند افراد میں سے ہیں جو ٹی وی ڈراموں اور ادب کے درمیان حائل خلیج کو پاٹنے میں کامیاب ہوئے اور چونکہ ناظرین اس سے محروم تھے لہٰذا انہوں نے اِس نئی قسم کے ڈرامے کو بہت پسند کیا۔
ڈراما وارث پر نظر ڈالی جائے تو کہانی بیک وقت کئی جگہ چلتی ہے اور ہر جگہ سے یہ چودھری حشمت پر آکر ختم ہوتی ہے جس کا کردار محبوب عالم نے ادا کیا ہے۔ چاہے چودھری حشمت کا اپنا بیٹا ہو جو چاہتا ہے کہ اس کی بیٹی کی شادی اس کے ناراض بھائی کے بیٹے سے ہو تاکہ وہ اپنے باپ کی جائیداد میں دگنا حصہ لے سکے یا چاہے وہ جذباتی نوجوان ہو جو تعلیم چھوڑ کر اپنے بھائی کے قاتل کی تلاش میں ہوتا ہے جسے وہ جانتا تک نہیں اور اس کا کوئی اتا پتا نہیں۔ مزید برآں ڈرامے میں چودھری حشمت کے پوتوں کی دادا کی حمایت حاصل کرنے کی لڑائی، سرکاری ڈیم کی کہانی اور خزانے کی تلاش، یہ سب کچھ ڈراما وارث کو دیگر ٹی وی ڈراموں کے علاوہ کئی فلموں سے بھی بہتر بناتا ہے۔
اس ڈرامے نے امجد اسلام امجد کو ایک معروف نام بنا دیا اور انہوں نے مختلف قسم کے ڈرامے قلم بند کیے۔ جبکہ “سمندر” اور “دہلیز” ڈرامے وارث سے ملتے جُلتے تھے تو ڈراما “وقت” پولیس اصلاحات پر مبنی تھا اور ڈراما “فشار” میں طلباء کی سیاست کے بارے میں بات کی گئی تھی۔ اُن کے کئی دیگر ڈراموں میں دن، رات اور 2000ء کی دہائی کے اوائل میں اُن کا تحریر کردہ آخری ڈراما ’’شیردل‘‘ شامل تھا جس کی کہانی فضائیہ کے کیڈٹس کی زندگیوں کے گرد گھومتی تھی۔ اس کے علاوہ ان کی دو کامیاب فلمیں ’’قربانی‘‘ اور ’’جو ڈر گیا وہ مر گیا‘‘ بھی ہیں۔ ہمارے پاس کوئی ایسی شخصیت بھی تھی جو کوئی سطحی کام نہیں کر سکتی تھی۔ کیا یہ متاثرکن نہیں؟
تجربہ کار شاعر
ڈرامہ نگار بننے سے بہت پہلے امجد اسلام امجد ایک شاعر کی حیثیت سے مشہور ہو چکے تھے اور احمد ندیم قاسمی کے ادبی جریدے فانوس میں باقاعدگی سے لکھا کرتے تھے۔ جب امجد اسلام امجد نے اسکرپٹ نگاری کے شعبے کا رخ کیا تو جن لوگوں نے ان کی شاعری پڑھی تھی وہ جانتے تھے کہ وہ کافی خاص ہیں کیونکہ صرف زبان پر عبور رکھنے والا اور کہانی کے بیانیے کو سمجھنے والا ہی دونوں زمروں میں اچھا کام کر سکتا تھا اور امجد اسلام امجد نے یہ کام بخوبی کیا۔ اُن کا پہلا شعری مجموعہ 70ء کی دہائی کے اوائل میں “برزخ” کے نام سے آیا اور اُن کی وفات سے پانچ سال قبل ’’زندگی کے میلے میں‘‘ پر مُنتج ہوا جو ایک درجن سے زائد کتابوں پر مشتمل تھا اور جس کے بارے میں کم از کم بھی متاثرکن ہی کہا جا سکتا ہے۔
وہ محض یہیں تک ہی نہیں رکے کیونکہ وہ کبھی بھی یک جہتی کام سے مطمئن نہ تھے۔ انہوں نے غزلیں بھی لکھیں جو مقبول ہوئیں اور ساتھ ہی بھارت اور پاکستان دونوں کی فلموں کے لیے گانے بھی تحریر کیے۔ اگر آپ نہیں جانتے کہ میڈم نور جہاں کا سدا بہار گانا “میں تیرے سنگ کیسے” اور راحت فتح علی خان کا پہلا بالی ووڈ ہٹ گانا “من کی لگن” جو پوجا بھٹ کی فلم “پاپ” کے لیے گایا گیا تھا، امجد اسلام امجد نے ہی لکھا تھا، تو پھر آپ کو ان کے بارے میں مزید پڑھنے کی ضرورت ہے کیونکہ آپ کی معلومات یقیناً ناکافی ہیں۔
اور جب بالی ووڈ کے مشہور فلمی گلوکار سونو نگم کو شہزاد رفیق کی فلم “سلاخیں” کے دو گانے گانے کے لیے منتخب کیا گیا تو امجد اسلام امجد نے دونوں گانوں نینا اور بارش کے بول لکھے جو دو دہائیوں بعد بھی مقبول ہیں۔ نہ صرف بچوں کے لیے ان کے گیت متعدد جلدوں میں شائع ہوئے بلکہ انہوں نے دیگر زبانوں خصوصاً عربی اور انگریزی سے نظموں کا ترجمہ بھی کیا جبکہ ان کی اپنی نظموں کا انگریزی، اطالوی اور ترک زبانوں میں ترجمہ کیا گیا۔
کہنہ مشق مصنّف
دو مختلف شعبوں، ڈراما نگاری اور شاعری میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد امجد اسلام امجد کے لیے یہ عین فطری بات تھی کہ وہ نثر پر توجہ مبذول کر لیں اور انہوں نے ایسا ہی کیا۔ انہوں نے نہ صرف اپنے ٹی وی ڈراموں وارث، دہلیز اور یا نصیب کلینک کو ناولوں کی صورت میں شائع کیا جو ڈراموں کی طرح ہی بہترین ثابت ہوئے بلکہ انہوں نے اپنے دوست اور ہم عصر مستنصر حسین تارڑ سے مسابقت میں سفرنامے بھی لکھے۔ اس کے علاوہ ان کی ادب پر تنقید، ان سے ملنے والے لوگوں کے خاکے، خاص طور پر خواتین شعراء پر ان کے افسانے، ان کے کالموں کا مجموعہ اور پچاس سے زائد کتب ہیں جن کے سبب امجد اسلام امجد کا نام مارکیٹ میں بھی مشہور ہوا۔
ایک ہی وقت میں اتنے شعبوں میں کام کرنا عام انسانوں کے لیے ناممکن ہوتا لیکن امجد اسلام امجد ہمیشہ اُن کاموں میں مصروف رہتے جو ان کے خیال میں انہیں کرنا چاہئیں۔ اُن کی مشہورِ زمانہ مسکراہٹ نے ان تمام لوگوں کی زندگیوں کو روشن کیا جن سے وہ رابطہ میں آئے۔ امجد اسلام امجد کا انتقال اُس روز ہوا جس دن ان کے آبائی شہر لاہور میں پاکستان لٹریچر فیسٹیول کا آغاز ہوا۔ وہ کئی سیشنز کے مقررین میں شامل تھے جبکہ چند سیشن ان کے بارے میں ہونے والے تھے لیکن اُن کی آخری رخصت نے اُس وقت فیسٹیول کا اختتام کرادیا جب ان کے تمام ساتھی ان کی پذیرائی کے لیے موجود تھے۔
متفرّق صلاحیتوں کا حامل انسان
تفریحی صنعت میں اپنا نام بنانے سے پہلے امجد اسلام امجد ایک ماہر تعلیم تھے جنہیں شہرت اور قسمت نے تدریس سے دور نہیں ہونے دیا جسے وہ اپنا سب سے اہم کام سمجھتے تھے۔ ان لوگوں کے مطابق جنہوں نے انہیں ہال میں طالب علموں کو مسحور کرتے دیکھا تھا، امجد اسلام امجد بذاتِ خود نوجوان ذہنوں میں موجود تھے جو محض نفسیاتی تجزیہ کرکے ان کی سوچ کو ڈھالنے میں کامیاب تھے، وہ کمرہء جماعت میں کتابیں پڑھانے کے خلاف تھے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ 1975ء میں جب پنجاب آرٹس کونسل کے ڈپٹی ڈائریکٹر کے عہدے پر تعینات ہوئے اور بعد ازاں 1990ء کی دہائی میں انہیں محکمہ تعلیم کا قلمدان سونپا گیا تو وہ انتہائی خوش تھے۔
انہوں نے سرکاری ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد ایم اے او کالج لاہور میں تدریس جاری رکھی اور چلڈرن کمپلیکس کے ڈائریکٹر کی ذمے داری بھی نبھائی جو اُن بہت سی چیزوں میں سے ہے جن کے سبب انہیں یاد رکھا جائے گا۔ تاہم ان کے انتقال سے ٹی وی کے ناظرین نے تقریبات کی جان کو کھو دیا جس کے لیے ہر موضوع آسان تھا۔ ان کا خاصہ ادب تھا لیکن اگر ٹی وی کے لیے کوئی شعری کلام ریکارڈ ہو رہا ہو تو کسی کے ذہن میں امجد اسلام امجد کے علاوہ کوئی دوسرا نام نہیں ہوتا تھا جو ہر طرح کے شاعروں اور ان کی شاعری سے واقف تھے اور جانتے تھے عام طور پر مشاعروں میں موجود بے قابو سامعین کو کیسے قابو کیا جاتا ہے۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News