
گزشتہ ہفتے لاہور میں انقلابی شاعر فیض احمد فیض کی یاد میں دو تقریبات دیکھنے میں آئیں
فیض کے بنیادی حلقے،سوشلسٹ، شاعر، مصنف، مزدور اور خواتین نے اس غیر معروف تقریب کے ساتھ فیض احمد فیض کی میراث کو نمایاں کیا ہے۔ 1986ء سے، جب فیض امن میلہ 12 فروری کو انقلابی شاعر کی یوم پیدائش کی یاد میں منانا شروع ہوا، اس کی مخصوص ترتیب اوپن ایئر تھیٹر کی رہی ہے، جہاں شرکاء چٹائیوں پر بیٹھ کر فیض کی شاعری گاتے اورانسانی حقوق کے نعروں کے ساتھ ڈھول کی تھاپ پر رقص کرتے۔ اس سال مقام کو لارنس گارڈن میں کاسموپولیٹن کلب میں تبدیل کر دیا گیا تھا کیونکہ بڑھتی ہوئی حاضری کو اوپن ایئر تھیٹر سنبھالنے سے قاصر تھا۔ عوامی میلے کے سلسلے میں سماجی کارکن لاہور کی سڑکوں پر ایک طرح کا بگھی مارچ کرتے ہیں۔
فیض امن میلے کی تشہیر کے لیے ایک پبلک ایڈریس سسٹم (لاؤڈ اسپیکر) لگاتے ہوئے وہ ایک بار پھر شملہ ہل سے چیئرنگ کراس تک بھیگی پر سوار ہوئے۔ دو گھوڑوں نے فیض میلہ کی تشہیر کرنے والے بینرز اور پوسٹروں سے مزین گاڑی کو کھینچا۔ فاروق طارق، سیدہ دیپ، طاہرہ حبیب جالب، سارہ جالب، سیمسن سلامت، خالد بٹ، نازلی جاوید، رفعت مقصود، حسنین جمیل فریدی، اور دیگر قابل ذکر سماجی و سیاسی شخصیات نے فیض امن میلہ کمیٹی کے اراکین کے ہمراہ متعدد سڑکوں کا دورہ کیا۔
مارچ کرنے والوں نے لاؤڈ اسپیکر پر فیض احمد فیض کی نظم ’’ہم دیکھیں گے‘‘ پیش کی اور ساتھ ہی ساتھ مائیکروفون کا استعمال کرتے ہوئے عوام کو میلے میں شرکت کی دعوت دی۔
یہی روایات کی طاقت ہے
میلے میں ’’امید سحر کی بات سنو‘‘تھیم کے تحت پروگرام کو مختلف سامعین کے سامنے پیش کیا گیا۔ اس موقع پر فاروق تارڑ، سلیمہ ہاشمی، سہیل گوئندی، امتیاز عالم، پروفیسر رضی حیدر، انجم رشید، چوہدری ذوالفقار، افضل عباس، مصطفی نذیر، ارشد امین، خالد منصور، صوفی خاور اور شوکت بھٹی نے شرکت کی۔ معروف رقاصہ شیما کرمانی نے فیض کی شاعری پر پرفارم کیا جب کہ گلوکاروں ترنم ناز، موہن بھگت اور عدیل برکی نے ان کی نظمیں سنائیں۔
اب فیض میلے کے بارے میں کچھ باتیں
الحمرا میں ساتویں سہ روزہ فیض فیسٹیول میں ستاروں سے سجی صفیں نظر آئیں۔ جب بھی فیض کا حوالیہ دیا جاتا ہے، ہمیں رومانوی اور انقلابی ادب یاد آ جاتا ہے۔ فیض میلے کی اہم بات ممتاز بھارتی شخصیات کی شرکت تھی، جن میں شاعر ارویندر چمک، گیت نگار، اسکرین رائٹر اورشاعر جاوید اختر، پروڈیوسر اتل تیواری، مؤرخ منیش سنگھ اور بوبی سچدیوا، مصنف اور بلاگر ایمی سنگھ شامل تھے۔
ان حاضرین کو کافی مایوسی ہوئی جنہوں نے جاوید اختر کو ان کی زندگی، کام، سنیما اور یقیناً پاک بھارت تعلقات کے مستقبل کے بارے میں بات کرتے ہوئے سنا، میلے کے دوسرے دن ’’جدوناما‘‘ کے عنوان سے جاوید اختر نے عدیل ہاشمی کے ساتھ ایک سیشن کے دوران شاعری اور زبان پر بات کی۔تاہم، تیسرے روز انہوں نے پاکستانی شہریوں اور علاقائی سیاست کے حوالے اپنے خیالات کے اظہار میں کافی حد تک آزاد نظر آئے۔ وہ کبھی کبھار خود کو بھارتی قوم پرستی کے پرجوش حامی اورجزوقتی امن مہم چلانے والے کے طور پر پیش کر تے رہتے ہیں۔ انہوں نے اپنی ذاتی زندگی اور اپنی اہلیہ شبانہ اعظمی کے ساتھ اپنے تعلقات پر بھی بات کی۔
انہوں نے میلے کے موقع پر بولڈ کو بتایا کہ انہیں ویزا حاصل کرنے میں مشکل پیش نہیں آئی۔ یہ ان کے عظیم رتبے اوریا پھر اس حقیقت کا نتیجہ ہو سکتا ہے کہ فیض میلہ ایک معروف اجتماع ہے۔ انہوں نے کہا کہ شہر کا ان کے چار روزہ دورے کا ایک سخت ٹائم ٹیبل تھا جس میں زیادہ تر وقت مختلف بات چیت کے سیشنز کے لیے وقف تھا۔
انہوں نے ارزاہ تفنن کہا کہ ’’اگلی بار جب میں یہاں آؤں گا تو مجھے لاہور میں رہنے کے لیے اضافی وقت ملنا چاہیے۔‘‘۔ انہوں نے سوال کہ پاکستانیوں کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کیسا لگا، کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’’یقیناً، ہم سب ایک جیسے لوگ ہیں، میں یہاں آکر بہت خوشی محسوس کر رہا ہوں، اس لیے میرا دل چاہتا ہے کہ یہاں بار بار آؤں۔‘‘
جاوید اختر نے کہا کہ وہ فیض احمد فیض کی وجہ سے لاہور سے پیار کرتے ہیں اور لاہور انہیں فیض احمد فیض کی وجہ سے پیار کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستانیوں نے مجھے اس سے زیادہ پیار دیا جس کا میں حقدار تھا۔
اس سے قبل گفتگو میں انہوں نے کہا کہ فیض بھارت میں بے حد مشہور ہیں۔
فیض فیسٹیول نے ہر عمر کے لوگوں کو اکٹھا کیا، اور فیض اور کتاب کے درمیان قدیم بندھن کو دوبارہ زندہ کیا۔
فیسٹیول کے آخری دو روز میں الحمرا کے تین ہالز، ادبی بیٹھک، آرٹ گیلری اور لان نے موسم بہار کا احساس دیا۔ تقریبات کا آغاز دوپہر سے ہوا اور ہر روز 30 سے زائد پرفارمنسز اور بات چیت کے سیشنز منعقد ہوئے۔
حاضرین کی بڑی تعداد پر مشتمل سیشنز میں ثقافت کے مختلف پہلوؤں پر ایک بحث بھی شامل تھی، جس میں فنکاروں سلیمہ ہاشمی، دانش حسن، اتل تیواری اور مہتاب راشدی نے خطاب کیا۔ اس کے علاوہ، ’آج تم بے حساب یاد آئے‘،’دھرتی کی ملکائیں‘،’مرے دل مرے مسافر‘،’فیض کا فیض‘، ’لاہور کی ڈاک‘،’پنجاب @75‘ اور’پرانے لاہور کو زندہ کرنا‘ کے عنوان سے سیشنز ہوئے۔
موسیقی نے بھی میلے میں جان ڈال دی جب کہ مصوری کے شاہکار، خطاطی کے نمونے اور متعدد دیگر مختلف سیشنز کا بھی اہتمام کیا گیا۔
اگر منتظمین علاقائی ادب کو بھی زیربحث لاتے تو یہ میلہ زیادہ امید افزا ہو سکتا تھا۔ مزید یہ کہ عدیل ہاشمی کو جاوید اختر کے ساتھ کسی اور ادبی شخصیت کو بیٹھنے کا موقع دینا چاہیے تھا۔ انہوں نے جاوید اختر کے ساتھ دو سیشن کیے اور ہر بار وہ توقعات پورا نہیں اترے۔
علاوہ ازیں، ادبی میلوں کی طویل فہرست میں صرف فیض میلہ ہے، جہاں ٹکٹ والے پروگرامز ہوتے ہیں، میلے میں شفقت امانت علی کے کنسرٹ کا ٹکٹ سیشن تھا۔ جب میلے کے منتظمین کے پاس اسپانسرز کی ایک طویل فہرست ہو تو ایسے میں ٹکٹ کی فروخت سے مزہ کرکرا ہوجاتا ہے۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News